جہنم کے سوداگر-(پانچویں قسط)
(Muhammad Jabran, Lahore)
جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی
:وقارعلی جان
میجرڈریگن (پانچویں قسط)
میں اسٹڈی روم میں داخل ہوا ہی تھاکہ ٹیبل پر موجود سیٹلائیٹ فون کی گھنٹی
بج اٹھی ،کمرے کا دروازہ پھیرکر اندر داخل ہوتے ہی میں نے رسیور
اٹھاکرمخصوص انداز میں کہا۔
"یس ڈبل این زیرو فرام گرین ہاؤس ۔۔"میں اپناکوڈ دہراتے ہی کرسی پر بیٹھ کر
میزکی درازسے سگریٹ کاپیکٹ اور لائٹر نکال کرٹیبل پررکھ لیا۔
"ڈبل این تھرٹی فور فرام ہیڈ کواٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے ایک چیختی ہوئی
آواز آئی ۔
"یس سر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کام ہوگیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیاتم فیلڈمیں آنے کے لئے تیار ہو؟"
"یس سر آپ حکم کریں تو میں ابھی میدان عمل میں آسکتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کچن میں کھانا تیار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تم نے جاکر اس کھانے کی نمک مرچ چیک
کرنی ہے۔یہاں سے اب باقاعدہ تمہاری ذمہ داری شروع ہوجائے گی ۔آج سے تم
آفیشل کُک ہو۔اگرذرابرابر بھی گڑبڑہوئی تو تمہیں وہیں شوٹ کردیاجائے
گاگڈبائے۔۔۔۔"دوسری طرف وہی چیختی ہوئی آوازآئی اور میں نے ایک گہر ا سانس
لے کررسیور کریڈل پر رکھ دیا۔یہ تمام گفتگو کوڈ ورڈز میں ہوئی تھی اور مجھے
ہیڈ کواٹرز سے انتہائی سخت قسم کے احکامات ملے تھے جنہیں فل فور
پوراکرناضروری تھا۔اب سگریٹ پینے کا بالکل وقت نہیں تھالہذامیں نے اس کا
پیکٹ اور لائٹرجیب میں رکھ لیا۔
میرے پاس اب ضائع کرنے کے لئے بالکل وقت نہیں تھااور نہ ہی ان کاغذات کے
مطالعہ کا وقت تھالہذا میں وہاں سے فوراً اپنے بیڈروم میں آیا،الماری سے
میں نے اپنے لئے ایک چست لباس کاانتخاب کیااورٹوائلٹ میں گھس گیا۔کوئی دس
منٹ کے بعد میں وہاں سے فریش ہوکر سیاہ رنگ کا چست لباس پہن کر باہر
نکلااور پھر گاڑی کی چابیاں اور چند ضروری چیزوں کے ساتھ جن میں سیگرٹ اور
لائٹر بھی شامل تھا میں وہاں سے سیدھاگیراج میں آیا اور جدید ماڈل کی کار
اسٹارٹ کرکے وہاں سے سیدھاگلی میں آیا۔اس دوران گارڈ نے میرے لئے مین گیٹ
کھولااور مجھے ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے ہوئے رخصت کیا۔
میں کچھ دیر اندر ہی اندر گلیوں میں چکراتارہاپھر ایک چیک پوائنٹ کراس کرنے
کے بعد میں اب مین روڈ پر تھا۔وہاں سے میرا رخ اسلام آباد کے مضافات کی طر
ف جانے والی سڑک پر ہوگیا،میری اگلی منزل خفیہ ایٹمی لیبارٹری تھی۔جہاں پر
تمام گزشتہ واقعات کا ڈراپ سین ہوگیاتھابس اب مجھے وہاں جاکر اسے فائنل ٹچ
دیناتھا۔پھر پردوہ اٹھنے کے بعد ایک نئے سفر کا آغاز کر ناتھا۔یہ شہر سے
کوئی چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھی میں کوئی پچیس منٹ کی ڈرائیوکے بعد ایک
چیک پوسٹ پر پہنچاجہاں پر موٹے حروف میں تحریر تھاکہ" اپنی شناخت کروائیں
"۔میں نے اپنی گاڑی روک کر جیب سے مخصوص کارڈ نکال کر چیک پوائنٹ پر موجود
گارڈز کو دیکھایاتو انہوں نے مجھے اور گاڑی کی ایک جدید ترین آلے سے چیکنگ
کے بعد اندر جانے کی اجازت دے دی۔
اندر ایک وسیع و عریض احاطہ میں ایکڑوں پر محیط لیبارٹری کی عمارت تھی جس
کے اردگرد بہت سے درخت اور جھاڑیاں تھیں ۔آسمان پر سورج بادل کی اوٹ سے
تانک جھانک کررہاتھااور ٹھنڈی ہوا نے پورے ماحول کو ایک نامعلوم پراسرار
سحر میں جھکڑا ہواتھا۔درمیانہ موسم تھاجس سے طبیعت میں ایک نکھار
آجاتاتھاچاروں طرف لہلہاتے ہوئے سبزے کو دیکھ کر دل کو ایک عجیب سے راحت کا
احساس ہوا۔موسم بھلا ہو تو کس کافر کو انجوائے کرنے کا دل نہیں چاہتا مگر
ہماری تو صاحب ڈیوٹی ہی ایسی تھی کہ بارش کیا تو دھوپ کیا ؟ہمیں تو مزدورں
کی طرح چوبیس گھنٹوں میں اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے بھی لگاتار جاگ کر کام کرنا
پڑتا تھا،جاب کی نوعیت ہی ایسی تھی ۔درختوں پر اور جگہ جگہ جھاڑیوں میں پاک
فوج کے جوان محتاط انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کسی بھی متوقعہ
حملے یاواردات کی صورت میں انہیں لیبارٹری کاہر صورت میں دفاع کرناتھا۔دشمن
انتہائی شاطر اور مکار تھااس کی کسی بھی اچانک چال کو ناکام کرنا ہی بہت
ضروری تھی اور اس میں ہمارے سب سے قیمتی سائنسدان ڈاکڑ شاہدعباس کی جان داؤ
پر لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
*******
مجھے ایک بھر پور جھٹکالگااور پھر میں ایک دم سے جاگ گیا،ہوش آیاتو پتہ
چلاکہ منظر ہی بدل گیاتھا۔یہ وہ نظارہ تھاہی نہیں میں طلسم وادی سے نکل کر
ایک بڑے سے کمرے میں ایک بر قی کرسی پر جکڑاہواتھااور کمرے میں طر ح طرح کے
تشدد کرنے والے ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔گویاآسمان سے گرا کھجور میں اٹکاکے
مصداق میں اب ایک اور جگہ پھنس گیاتھا۔کمرے کا اکلوتادروازہ بندتھااور میرے
سامنے ایک کرسی خالی پڑی ہوئی تھی۔جس کا مطلب یہ تھاکہ مجھے اب کسی کا
انتظار کر ناتھااور وہ جو کوئی بھی ہو گایقینامیری کھال اتارنے کے لئے ہی
آرہاتھا۔کمرے کی دیواروں سفید رنگ سے رنگی ہوئی تھیں اور چھت پر لگاہوا
پنکھااپنے پر پھیلائے کسی اور ہی دنیا میں میں گم تھا۔
کمرے میں ایک بڑی سی ٹیوب لائٹ پورے آب و تاب سے روشن تھی۔جبکہ کمرے میں
واحد ہی رواشندا ن تھاجس کامنہ لوہے کی مضبوط جالی سے ڈھکاہواتھا۔الیکڑک
چیئر کا پینل سائیڈ دیوار پر موجود تھاجس کا مطلب یہ تھاکہ اس کا کنٹر ل
بھی میرے اختیار میں نہیں تھامیں ایک بار پھر بے بس تھا اور حالات کی رو
میں بہے چلے جارہاتھا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میرے ساتھ پیش آنے
والے یہ واقعات آخر کس سلسلے کی کڑی تھے؟آگے میر ے ساتھ کیا ہونے والا
تھا،میں مکمل اندھیر ے میں تھا۔ میں یوں اچانک جنگلیوں کے نرغے سے چھوٹ کر
یہاں مہذب دنیا میں کیسے پہنچ گیاتھا؟
کیاجو واقعات مجھ پر بیتے تھے وہ محض ایک خواب تھایاآئندہ پیش آنے والے
حادثات کے لئے مجھے ذہنی طور پر تیارکیاجارہاتھا؟میرے ذہن میں بہت سے سوال
اپنا سر ابھارنے لگے تھے اور میں ان کا جواب تلاش کر نے کے لئے بے تاب
تھا۔لیکن گزشتہ واقعہ محض خواب نہیں ہوسکتاتھااگر واقعی وہ ایک خواب نہیں
تھاتو پھر میں اب تک جل کر کوئلہ کیوں نہیں ہوا؟میں جتناسوچ رہاتھااتناہی
الجھتا چلاجارہاتھا۔میں حقیقتاً ذہنی طور پرسوچنے سمجھے کی صلاحیتوں سے
محروم ہوگیاتھا۔حالات کا دھارا فی الحال میرے موافق نہیں تھامگر رب تعالیٰ
کالاکھ لاکھ شکر تھاکہ میں جیسے بھی تھاابھی تک زندہ تھااور آنے والے تمام
خطرات سے لڑنے کے لئے ذہنی طور پر مکمل تیار تھا۔
میں اس وقت کہاں تھااور معجزاتی طور پر زندہ کیسے تھا؟میری اس مشکل کو میرے
آنے والے میزبان ہی آسان کرسکتے تھے اور میرے ذہن میں کانٹوں کی طرح چھبتے
والے خیالات پر کسی طرح مرہم ضرور رکھ سکتے تھے۔میں حیرت انگیزطور پر بالکل
فٹ تھابلکہ بظاہر مجھے اپنے جسم میں کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہیں
ہورہاتھا۔بس مجھے اس بات کی تسلی تھی کہ میں زندہ ہوں اور جب تک میں زندہ
ہوں میں اپنی زندگی کی آخری سانس کا جدوجہد کرتارہوں گا۔پس جتنی بھی میں
جدوجہد کرونگااس کاپھل میرا رب مجھے ضرور دے گاخداکی رحمت سے انکار تو نہ
مجھے پہلے تھااور نہ ہی اب کرنے کا متحمل ہوسکتاتھا۔
چشم زدن میں ہی سب کچھ بدل گیاتھاسب ہی منظر تبدیل ہوگیاتھا۔جس شیطان کی
خاطر مجھے بلیدان کیاجارہاتھااس کا کہیں کچھ اتہ پتہ نہیں تھاکہ وہ کب
آیااور پھر وہ اچانک کہاں غائب ہوگیا۔میں نے اپنے آپ کو آسمانی بجلی اور
جہنم کی آگ میں پایاتھاتڑپتے ہوئے شعلوں کی زد میں خود کو ایک بار پھر موت
کے قریب پاکر اب اس سے کوسوں دورتھا۔اس آسمانی بجلی اور جہنم کے شعلوں کو
بھی میں کوئی مفہوم نہ پہناسکاتھا۔گزشتہ واقعات کسی بھیانک خواب کی طرح
مجھے چھو کر گزر گئے تھے۔کیاوہ خواب تھایا میں واقعی ان حالات سے
گزراتھااگر گزرا تھاتو جو بات وقتی طور پر میر ے عقل میں بیٹھ رہی تھی وہ
یہ کہ مجھے اب تک جھلس جانا چاہے تھاوہ محض آسمانی بجلی نہیں تھی بلکہ آگ
تھی آگ اور اس کی تپش نے میرے وجود کے انگ انگ کو بری طرح سے
تڑپادیاتھا۔آخرمیرا رب مجھ سے کس قسم کے امتحان لیناچاہ رہاتھا؟کیا واقعی
مستقبل میں میرے ساتھ کچھ ہونے جارہاتھااگر اس کا جواب ہاں میں تھاتو پھر
وہ کیا ہوسکتاتھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خلاء میں گھور کر اپنے گزشتہ اور آگے پیش
آنے والے واقعات پر غور کرنے لگا۔۔۔۔۔
*******
میں نے لیبارٹری کی عمارت کے پاس لے جاکر اپنی کار باہر ہی پارک کی اور ایک
بار پھر چیکنگ کے مراحل سے گزرتاہوامیں مختلف کمر وں سے ہوتاہواجب ایک راہ
داری میں آیاتو مجھے وہاں پر اپنے ہی محکمے کامیرا دوست مرزا منصور مل
گیااس نے مجھے بھر پور انداز میں گلے مل کر خوش آمدید کہااور پھر گویاہوا:
"یار تم سے پچھڑے تو ایسا لگتاہے صدیاں بیت گئی تھیں ۔۔۔۔۔یقین کرو تمہارے
آنے پر مجھے بے حد خوشی ہوئی ۔۔۔"اس نے میرے کندھے بھرپور انداز میں
جھنجھوڑتے ہوئے چہرے پر جاندار مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
"ہاں یار تم بالکل صحیح کہتے ہوواقعی صدیاں بیت گئی ہیں ،اب تم مرزا منصور
سے پر دادا منصور بن گئے ہوواقعی مجھے تمہاری بزرگی پر ترس آتاہے ۔۔۔۔"میں
نے بھی آتے ہی اس پر برجستہ فقرہ جڑ دیا۔وہ میری بات سن کر قہقہہ لگاکر
ہنسااور میراہاتھ نہایت گر م جوشی سے تھام کر مجھے راہ داری میں آگے
لیتاہوا چلنے لگا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔۔فقرے کسنے والی تمہاری پرانی عادت گئی نہیں ویسے بھی اگر میں
بزرگ دادا منصور ہوگیاہوں تو تم بھی پلاسٹک سرجری سے اپناحقیقی ماندپڑتاحسن
چھپاکرآئے ہواور اس جادوئی نقاب کو چڑھانے میں تمہارا کوئی کمال نہیں ہے
اگر ڈاکڑصاحب تمہاری کایانہ پلٹ دیتے تو تم بھی میری طرح لیبارٹری کی ایک
ایک اینٹ کوروزانہ پھونک پھونک صاف کرتے کہ کہیں ڈیوڈ اچانک کسی اینٹ سے ہی
نہ برآمد ہوجائے ۔۔۔۔۔۔ہاہاہا"
"ہاں جی فقرے لگانے سے تو تم بھی باز نہیں آرہے حالانکہ تم جانتے ہوکہ اس
فقرے بازی میں تم ہر بار ہارجاتے ہومگر یقین کروبڑے ڈھیٹ ہوباز پھر بھی
نہیں آتے اب دیکھونہ یہاں لیبارٹری کی روزانہ خاک چھانتے پھررہے ہو اور
تمہیں ڈیوڈ کا اتناخوفناک نفسیاتی اثر ہوا ہے کہ تمہیں اب ہر طرف ڈیوڈ ہی
ڈیوڈ نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔ لو تم نے دل سے دعامانگی اور ڈیوڈحاضر ہوگیا۔۔۔"میں
بھلاکہاں باز آنے والا تھاعادت سے مجبور اس کی بات اسی کے اوپر ہی پلٹ دی
تھی اور آخری فقرہ میں نے ڈیوڈ کے ہی لب و لہجے میں نقل کرتے ہوئے کہاتو وہ
ہلکاساشرمندہ ہوااور پھر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے کہنے لگا۔
"بھئی تم سے واقعی جیتناممکن نہیں تم باتیں بنانے اور فقرے کسنے والی مشین
ہو۔۔۔۔۔۔ حد ہے ویسے "
"یار تم تو سچ مچ زچ ہی ہوگئے میں نے تو ابھی تمہیں تنگ کرناشروع ہی نہیں
ہے۔بہت شریف انسان ہو تم ویسے اچھایہ بتاؤ لیبارٹری میں بیٹھ بیٹھ کر تمہیں
گھٹن کا احساس نہیں ہوتایہاں تمہاری نگرانی کے سوااور کیاکیامصروفیات ہیں
؟"میں نے اسے زچ ہوتادیکھ کر موضوع بدلتے ہوئے کہاویسے مرزا منصور کو تنگ
کرنے کا اپنا ہی لطف آتاتھامگر سب کچھ ایک ہی بار تو نہیں ہوسکتاتھاناں
وقفے وقفے سے کرناتھاتاکہ وہ سانس برابر لیتارہے۔اس دوران ہم شیطان کی آنت
کی ماند طویل راہدداری میں چلے ہی جارہے تھے اور راہد اری تھی کہ ختم ہونے
کانام ہی نہیں لے رہی تھی۔اس کے اختتام پر اس نے پڑاؤ ڈالاہواتھااور مجھے
وہ راستے میں ہر کمرے کی سیرکرواتاجارہاتھا۔
"کیابات چھیڑدی دوست تم نے تو میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیاکیابتاؤں تمہیں
سگریٹ پھونک پھونک کر اور چائے کے کپ پی پی کر میرا تو کلیجہ منہ کو
آجاتاہے اب تو چائے بھی زہر لگنے لگتی ہے۔خیرتم پریشان نہ ہوتمہیں میں
زہریلی چائے ہرگزنہیں پلاؤں گااب تم آئے ہو تو میری جان چھوٹے گی اس کیس سے
ورنہ بوریت کے سوااس مصنوعی لیبارٹری میں رکھاہی کیاہے۔"
"واقعی صحیح کہہ رہے ہوتم تمہارا رنگ بھی پھیکی چائے پی پی کر پھیکازہریلا
پڑگیاہے اب توتمہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھتے ہوئے بھی شرمندگی کااحساس
ہوتاہوگاکہ اس بھری جوانی میں تم نے اپنی یہ کیاحالت بنالی ہے۔ڈونٹ وری
دوست میں سمجھ سکتاہوں بس تم فکرنہ کرواب میں آگیا ہوں تو تمہاری جان خود
ہی چھوٹ جائے گی لیکن فل الوقت تمہیں مجھے برداشت کرناہوگا۔"میرا فقرہ ابھی
ختم ہی ہواتھاکہ اس نے اپناہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑوالیااور میری بات کے
دوران اس کے چہرے پر ایک رنگ آتاتھااور پھر چلاجاتاتھا،بے چارہ میری باتوں
کی تاب نہ لاتے ہوئے پیلاپڑگیا۔
"یا۔یا۔یار تم کیسی باتیں کرتے ہواس قدرے سنجیدہ ماحول میں بھی تم مذاق
کرنے سے باز نہیں آرہے تمہیں کچھ انداز ہ بھی ہے کہ نہیں آگے تمہارے سامنے
کتنے طوفان منہ کھولے کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"جانتاہوں یار جانتاہوں ۔۔۔۔۔۔اس قدر جذباتی کیوں ہورہے ہو؟تھوڑا بہت تو
ہنسی مذاق ہوناچاہے نہ اب دیکھونہ تم جب مجھ پر فقرے کستے ہو تو میں نے
کبھی برامنایاہے۔۔۔۔۔اچھاخیر چھوڑا تمہاری باتوں سے لگ رہاہے کہ تمہیں
لیبارٹری کی نگرانی کافی مہنگی پڑرہی ہے اگر کچھ عرصہ مزید گزرجاتاتو تمہیں
دیمک چاٹ جاتی ۔۔۔"میری اس بات پر وہ اس دفعہ بے بسی سے ہنس پڑا اس کے
سوااس کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔اس نے ایک بار پھر میری ہاتھوں میں
اپنے گرم ہاتھ ڈال دئیے اور ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
"سچ کہاتم نے تمہاری زبان کوتالے لگانامشکل ہی نہیں ناممکن ہے اتنی باتیں
کہاں سے بنالیتے ہویار؟"اس نے وہی سوال کیاجو اکثر میرے دوست مجھ سے
کیاکرتے تھے۔مرزا منصور ایک بہترین ورکر اور کمال کا ایجنٹ تھابس طبیعت میں
ذرا سا جذباتی پن تھاجس کی وجہ سے بہت جلد ہی بھڑک جاتاتھامگر کام کرنے میں
ہمارے محکمے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔اس دوران ہم چلتے ہوئے راہ داری
کے اختتام پر پہنچے تو مرزامنصور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول کر اور خو د
سائیڈ پر ہوگیا پہلے مجھے اندر جانے کی دعوت دی ۔تو میں مسکراتاہوا اس آفس
کے انداز میں سجے ہوئے روم میں داخل ہوگیاجو بہت ہی قابل دید تھابہتریں
انداز میں سجایاہواتھا۔
"بس یار یہ تو خدا کی دین ہے ،تم جیسے مرغے ہاتھ آجاتے ہیں تو فقرے نہ
چاہتے ہوئے بھی خود بخود زبان سے نکلتے چلے جاتے ہیں اس کے لئے کسی خاص
مدرسے میں داخلہ نہیں لیناپڑتا۔۔۔۔۔۔واہ کمرہ تو تم نے بہترین انداز میں
سجارکھااور اس پر تم ایک شاندار ریوالوننگ چیئر بھی رکھی ہوئی ہے تم تو
واقعی یہاں کے سربراہ ہی لگتے ہو۔۔۔۔۔۔لیکن پوری لیبارٹری میں تو اس قدر
خاموشی اور ہر طر ف ہوکاعالم ہے جیسے یہاں تمہارے علاوہ اور کوئی بھی چرند
پرند نہیں لیکن میں باہر تو بہت سے فوجی کمانڈوز کو دیکھ چکاہوں ۔وہ بھی
خاموش ہی کھڑے ہوئے تھے یہ سب آخرہوکیارہاہے؟" اس دوران وہ میرے پیچھے کمرے
میں داخل ہوکرکمرے کادروازہ بند کرتے ہوئے درمیانے سائز کی ٹیبل کے پیچھے
جاکر اپنی چیئر پر بیٹھ گیاجبکہ میں اس کے سامنے بے نیازی سے بیٹھ گیااور
وہ اب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہاتھا۔میں اس کی حالت دیکھ کر دل ہی دل میں
ہنسنے لگااور وہ ہنسنی ایک قہقہے کی صورت میں بڑے صبر کرنے کے باوجود بھی
منہ سے نکل ہی گئی ۔
"چھوڑو یارتم کیا میری باتوں کو لے کر بر ا مناتے رہتے ہواصل مدعے پر آنے
سے قبل مجھے تمہارے ہاتھ کی بنی ہوئی گر ماگرم چائے لازمی چاہیے اس کے بغیر
کوئی چارہ نہیں ورنہ میں فارم میں نہیں آسکوں گا۔۔۔۔۔"میں نے بڑی مشکلوں سے
اپنی ہنسی درمیان میں روک کر زبردستی اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے
کہاکیونکہ اگر میں کچھ دیر مزید ہنستاتو وہ شاید مجھے لیبارٹری سے فوجیوں
کے ہاتھوں دھکے مار کر بار نکلوادیتا۔
"وقارتم اچھی بھلی بات کرتے کرتے ایک دم سے پٹری سے اتر جاتے ہوسارا مزہ
کرکراہ ہوجاتاہے اور یقین کرو میرا آج بہت دل کر رہاتھاکہ تمہیں خوب عزت
افزائی دینی ہے مگر تم نے تو آتے ہی مجھ پر تابڑتوڑ حملے شروع کردئیے ہیں
۔میں بڑی مشکلوں سے خود پر قابو کرکے بیٹھاہوں اور وہ بھی اس لئیے کہ مجھے
اوپر سے سخت آرڈز ہیں کہ تمہارے ساتھ مکمل تعاون کرناہے مگر تم نے آتے ہی
میرے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے مجھے لگتاہے کہ اب مجھے اپنے روئیے پر دوبارہ سے
نظر ثانی کرنی پڑے گی ۔۔۔۔۔"
"مرزا یار تم توسچ میں غصے میں آگئے ہو اور میرا ارادہ تمہیں تنگ کرنے کا
ہرگز نہیں تھا۔اچھابابا میں اپنے کانوں پہ ہاتھ لگاکر توبہ کر تا ہوں جو اب
تمہیں میں نے تنگ کیاتو بے شک مجھے پاگل کتوں کے سامنے ڈالو دینا۔چاہے تو
خود کچا چباجانا۔۔۔لیکن ابھی مجھے چائے اور سگریٹ کی شدید طلب ہورہی ہے
۔۔۔۔۔۔ پلیز جلدی سے مجھے کیس کے بارے ساری تفصیل سناؤ میں یہاں آتے ہوئے
کوٹھی سے ایک لفظ بھی پڑھ کر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔میری تو بہ میرے فرشتوں کی بھی
توبہ ۔۔۔۔۔۔۔" میں نے باقاعدہ اپنے کانوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے اس کے سامنے
دو تین دفعہ تو بہ کی اور کمال ایکٹنگ کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے اسے یہ یقین
دلایاکہ اب کی بار میں واقعی سنجیدہ رہونگا اور اسے شکایت کا موقعہ ہر گز
نہیں دوں گا۔۔۔میرے چہر ے کی سنجیدگی دیکھ کر وہ جلد ہی قائل ہوگیا اور پھر
اس نے سائیڈ ٹیبل پر موجود برقی کتیلی سے چائے انڈیل کر دو کپوں میں انڈیلی
اور پھر مسکراتے ہوئے مجھے کہنے لگا۔
"تمہاری تو بہ سے مجھے یقین ہوگیاہے کہ تم اب واقعی مجھے تنگ نہیں کروگے
،تمہاری اسی توبہ کو قبول کرتے ہوئے میں تمہارے لئے اپنی زہریلی چائے کپ
میں انڈیل کر تمہارے حوالے کر رہاہوں۔اگر تم اسے پی کر پھڑک کر مر نہ گئے
تو پھر تمہیں میں تمہارے جانے کے بعد کی روئیداد سناؤں گا۔تب تک تمہیں مجھے
سگریٹ پلانی ہوگی۔۔۔"
"ہاں ہاں کیوں نہیں سگریٹ تو پیارے تم جتنی مانگو گے اتنی حاضر کر دوں گابس
تم راضی ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔"میں نے خوش دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنی اندرونی
جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور اس کا منہ کھول کر میں نے مرزا منصور کے
سامنے کردیااس نے جواباًمسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھاکر ایک سگریٹ نکالااور پھر
اسے ہونٹوں میں دبالیااس کے بعد میں نے اسے لائٹر پیش کیا تو اس نے ہاتھ کے
اشارے سے مجھے روکتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے اپنا لائٹرنکالا اور پھر اسے
سلگالیاجبکہ اس دوران میں نے اپنا لائٹر نکال کر اپنے لئے ایک سگریٹ نکالی
اور پھر اسے ہونٹوں میں دباتے ہوئے میں نے بھی آگ لگائی اور پھر دونوں
چیزیں جیب میں رکھ کر میں نے دو تین گہرے کش لئے اور انہیں کچھ دیر اپنے
منہ میں رکھنے کے بعد فضا میں دھواں شان بے نیازی سے چھوڑدیا۔اس دوران وہ
بھی اپنا کش لگاکر سگریٹ کو ایش ٹرے میں رکھنے کے بعد میری چائے میں اس نے
تین چمچ چینی کے ڈالے اور پھر اس میں چمچے سے گھماتے ہوئے چائے میرے سامنے
کردی۔کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر اس نے سکوت توڑا۔
"یہ بتاؤ کہ اب کچھ صحت بحال ہوئی تو میں کچھ عرض کروں یاتم ابھی کچھ ٹائم
لیناچاہوگے؟"اس نے مسکراتے ہوئے کہاتو میں بھی اس کے ساتھ اخلاقاًمسکرانے
لگاوہ واقعی مہمان نواز تھا۔اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ بھی بڑی جچتی
تھی۔میری طرح والدین کا اکلوتا بیٹاتھااور سرتاپاوطن کی محبت سے
سرشارتھا۔باقی ہلکی پھلکی نوت جھونک تو چلتی ہی رہتی تھی۔
"ہاں منصور یار کچھ بتاؤ بھی صحیح یہ لیبارٹری میں اتناہو کاعالم کیوں ہوا
ہوا ہے عمارت کے اندر تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ نہ بندہ ہے نہ بندے کی ذات
۔۔۔۔مجھے وہ ہیڈکواٹر سے پراسرار دھمکی آمیزچیختی ہوئی آواز والی کال آئی
اور ہمیشہ کی طرح کوڈورڈز میں گفتگو کرکے رفوچکر ہوگئی ۔یقین کرو اگر وہ
مجھے سچ میں کسی دن مل گیاجو یوں آوازیں نکال نکال کر ڈراتاہے تو میں اس کی
گردن دبادوں ۔۔۔ بہت منحوس آواز ہے کانوں کے پردے تک پھاڑ دیتی ہے۔"
"اس کی آواز کوسن کر تو میری بھی یہی حالت ہوتی ہے کمبخت ملے صحیح تو اس کی
گردن میں بھی کسی دن دبوچ لوں ۔پتہ نہیں کیا کھاکر آواز بھاری کرکے اپنے
ڈیلے باہر نکال کر ہمارا خون نچوڑنے کی ناکام کوشش کرتارہتاہے۔حالانکہ
منحوس کیکڑا جانتانہیں نرازہر لگ رہاہوتاہے۔مجھے بھی جب اس کی کال آتی ہے
اور موصوف جب اپنے احکامات صادر فرماتے ہیں تو میرا دل کرتاہے کہ اسے کھری
کھری سناہی دوں اور وہ دن دور نہیں ہے جب میں نے ایساکربھی لیناہے۔اسے وہ
سنانی ہے نہ کہ اسے اس کی مری ہوئی نانی یاد آجانی ہے۔تم تو لحاظ کرلیتے
ہوگے کافی ڈپلومیٹ قسم کی طبیعت ہے تمہاری مگر میں اب اسے ہرگز برداشت نہیں
کرنا،حد ہے ویسے اس کی ۔۔۔۔۔۔۔"وہ چند لمحوں توقف کرتے ہوئے سگریٹ اپنی
ہونٹوں میں دباکر تین چار کش لینے لگا۔میں بظاہر اپنے چہر ے پر سنجیدگی
پیداکرتے ہوئے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لینے لگا۔وہ اندر ہی اندر سے اس
ہیڈکواٹر والے بھائی سے جلاکٹابیٹھاتھاغصہ تو نکال نہیں سکتاتھااس پر تو
میرے سامنے ساری جھاگ اتار رہاتھا۔
"کہانی کا ڈراپ سین ہوچکاہے اور اگر تمہیں واقعی کہانی کا نہیں پتہ تو
تمہیں سن کر بہت حیرانگی ہوگی ۔اتنی فول پروف اسکیوریٹی کے باوجود وہ لوگ
اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے میرے سامنے قدرے جھکتے
ہوئے سسپنس بڑھاتے ہوئے انتہائی راز داری سے چند فقرے اپنی زبان سے ادا کئے
اور پھر وہ دوبارہ اپنی کرسی کے ساتھ ٹیک لگاکر گہرے کش لینے لگاگیا۔میں نے
گرم گرم چائے کا ایک بڑا گھونٹ حلق میں اتارا اور پھر چائے کی پیالی والی
رکھتے ہوئے ہوئے بیزار لہجے میں کہا۔
" کیوں خام خواہ سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہو۔۔۔۔۔۔سیدھی طرح بتاتے
کیوں نہیں کہ آخر اندر خانے گیم کیاچل رہی ہے ۔۔"میں نے منہ بناتے ہوئے
کہااور ایک بار پھر چائے کی پیالی اٹھاکر اپنے ہونٹوں سے لگالی۔
"یار عابد اور ڈیوڈ دونوں پکڑے گئے ہیں اور اس وقت ہماری کسٹڈی میں
ہیں۔نیچے تہہ خانے میں ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر مدارت ہورہی ہے ۔ڈیوڈتو اپنی
دھن کاپکا ہے ابھی تک کچھ نہیں اگلااس نے بالکل وہی حال عابد کا بھی ہے وہ
بھی تاحال کچھ نہیں بولا۔۔۔۔"میں نے ایک دو چسکیاں لیں اور پھر چائے کی
پیالی واپس رکھتے ہو ئے حیرت سے کہا۔
"تو کیاتم لوگوں نے ان پر ہاتھ ڈال دیا؟کیاتم لوگ میرا گیم تو چوپٹ کرنے پر
نہیں تلے ہوئے ہو؟ تم جاتے نہیں کہ ڈیوڈاور عابدڈان کی باقاعدہ امریکی اور
بھارتی جاسوس نگرانی کررہے ہیں اور ان کی ایک ایک نقل و حرکت پر ان کی کڑی
نظر ہے۔۔۔۔"
"جانتاہوں پیارے ۔۔۔۔۔۔تم نے ہمیں احمق سمجھ لیاہے کیا؟وہ لوگ غار سے اس
لیبارٹری تک سرنگ کھود کر آج صبح ہی لیبارٹری میں داخل ہوئے تھے تو ہماری
اسپیشل لیزر لائٹس کی وجہ سے پیرالائز ہوگئے ۔اسی لئے وہ لوگ اس وقت ہماری
کسٹڈی میں ہیں ان کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے۔شکرکرو کے وہ ڈاکڑڈمی تھے
ورنہ تو وہ ان کی شہ رگ تک پہنچ جاتے کیونکہ ہم نے ڈمی ڈاکڑ کے روم میں
خصوصی طور پر لیزر لائٹس لگائی ہوئی ہیں جو بھی غیر مطلقہ شخص آتاہے تو
پیرالائیزہوجاتاہے اور حیرت انگیز طور پر ان کے پاس تمام لیبارٹری کا مکمل
نقشہ بھی
موجو د تھا۔بحرحال جس مقصد کے لئے یہ مصنوعی لیبارٹری بنائی گئی تھی وہ
مقصد پورا ہوگیا۔ہمار ے مخبروں نے اطلاع کرنے میں لیٹ کردی تھی۔ورنہ وہ جس
راستے سے اندر داخل ہوئے تھے وہ راستہ خوب ڈھونڈ کر نکالاتھاانہوں نے
۔۔۔اور وہ مکمل طور پر جدید ترین سامان سے لیس تھے ۔یہاں آتے ہی انہوں نے
یہاں پر موجود خودکار اسکیورٹی کے نظام کو بھی فیل کردیاتھا۔"
"کیامطلب وہ کس راستے سے اندر داخل ہوئے تھے اور انہیں یہاں کی کمزوری کا
کیسے پتہ چلا؟اور اصلی ڈاکڑاس وقت کہاں ہیں؟"
"اصلی ڈاکڑ بالکل محفوظ ہیں بلکہ ان کی جگہ جسے ہم نے ڈمی ڈاکڑ رکھاتھاوہ
بھی محفوظ ہے دراصل یہ لیبارٹری خاص طور پر دشمنوں کو ٹریپ کرنے کے لئے
بنائی گئی تھی اور جیساکہ تم جانتے ہوکہ یہ لیبارٹری مصنوعی ہے اس کی
کنسٹرکشن اس وقت کی گئی تھی جب امریکیوں نے ہمارے خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کو
پکڑلیاتھا۔ہمارے ہتھیاروں اور لیبارٹری کی پکڑائی میں آنے کی وجہ سے ہم نے
اصل لیبارٹری شفٹ کرکے جنوبی پنجاب میں لے گئے تھے البتہ ہم نے اصلی
لیبارٹری کے ساتھ ہی یہ مصنوعی لیبارٹری تعمیر کرالی تھی اور امریکیوں کو
دھوکہ دینے کے لئے اس میں ہم نے اپنے فوج سے کمانڈوز بھی طعینات کردیئے
تھے۔انہیں لوکیشن کی تبدیل کا اس لئے اندازہ نہیں ہوا کہ پرانی لیبارٹری
یہاں سے کوئی پانچ کلومیٹرکے فاصلے پر تھی اور پھر ہم نے اسے خاموشی سے
زیرزمین ڈائنامائیٹ سے اڑا دیاتھا۔وہ چیزپکڑائی میں نہ آسکی اور مزے کی بات
یہ کہ یہ شروع دن سے ہی شیڈو لیبارٹری کہلاتی ہے جو پرانی کی تعمیرکرانے کے
ساتھ ہی اسے بھی الگ سے کمپنی کو ہائرکرکے تعمیرکرادیاگیاتھا۔ اگر امریکیوں
کو اپنی ٹیکنالوجی پر بڑا مان ہے تو ہمیں امریکیوں کو کس طرح بے وقوف بنانا
ہے اس پر بڑا مان ہے اور یہ فو ل بنانے والی ٹیکنالوجی ابھی تک امریکیوں نے
ایجاد نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ویسے کافی حیرت انگیزمعلومات دے رہے ہوتم اور تمہاری بات سے ایک بات مجھے
اب سمجھ آرہی ہے کہ کیوں عابد گینگ نے خاص طور پر غار شہرچھوڑکرآباد کی تھی
کیونکہ وہ غاریہاں سے تقریباً بیس پچیس کلومیٹرکے فاصلے پر ہے وہاں سے سرنگ
کھود کر یہاں تک آنے میں اتنے دن لگادیئے اور ان کا پلان یہاں پر ڈاکڑعباس
کو قتل کرناتھااور پھر اسی سرنگ سے انہوں نے چلے جاناتھا۔۔ٹھیک ٹھیک مگر
تمہیں ان کی خفیہ کاروائی کا بروقت اندازہ کیوں نہیں ہوسکا؟ویسے ایک بات ہے
تمہیں اگر ان کی خفیہ کاروائی کارتی برابر بھی نہ شک ہوا اور نہ ہی کوئی
خبر ملی تو یہ ایک لحاظ سے اچھاہی ہوگیانہ اگر وہ یہاں نہ پہنچتے تو وہ
ٹریپ بھی ہرگز نہ ہوتے ۔جب ٹریپ نہ ہوتے تو میں ڈیوڈ کی جگہ کیسے لے
لیتا۔۔۔لیکن میرے ذہن میں ڈیوڈ کی جگہ لینے کادوسرا پلان تھااور وہ بھی
کافی فول پروف تھامگر خیر۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں ناں کہ وہ جو ہوا اچھاہوا۔۔۔انت
بھلاتو سب بھلا۔۔۔۔"میں مسلسل بول رہاتھالہذا فوراً اپنی بات مکمل کرکے
چائے کے بڑے بڑے گھونٹ حلق میں اتارے اور اس کے ساتھ ہی سگریٹ پھر سے اپنے
ہونٹوں پر سجالیا۔
"وقار تم واقعی جینئیس ہو میں نے تو ابھی تمہیں پوری بات بتائی بھی نہیں ہے
اس کے باوجود تم نے کہانی مکمل کرلی گریٹ یار میں تو سمجھاتھاکہ تمہیں ایک
ایک بات سمجھانی پڑے گی اور نہ صرف سمجھانی پڑے گی بلکہ بڑے بڑے لیکچرز بھی
دینے پڑیں گے ۔تم تو میری سوچ سے بھی دو تین ہاتھ آگے ہو۔۔۔۔۔درحقیقت تمہیں
ہی ڈیوڈ کی جگہ پر ہوناچاہیے ۔اگر میں تمہاری جگہ پر ہوں تو شاید ہرگزہرگز
وہ رول نہ ادا کرسکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واقعی اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔"
"تو کیا تم نے مجھے اپنی طرح سمجھ لیا ہے ۔۔۔۔ یہ اپنااسٹائل ہے ۔۔۔۔۔"میں
نے ایک آنکھ دباکر مسکراتے ہوئے کہاتو وہ بھی بے اختیار مسکرادیا۔اس دوران
وہ اپنی چائے مکمل کرچکاتھاالبتہ میں تاحال چسکیاں لینے میں مشغول تھا۔
"بس بس زیادہ اچھل کود کرکے خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔اپنی چائے
مکمل کرو اور سگریٹ بھی ۔۔۔۔چائے تو تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے ٹھنڈی
ہوجائے گی۔"مجھے مسکراتے دیکھ کر شاید اسے بھی دل میں یہ احساس ہوا ہو کہ
وہ بھی تو کتناقابل ہے آخر اسے ڈیوڈ کا رول ادا کرنے کے لئے کیوں نہیں
منتخب کیا گیا۔پروفیشنل جیلیسی تو ہر جگہ ہوتی ہی تھی مگر شاید اس کی ٹھنڈی
آہوں میں وہ مجھے کچھ زیادہ ہے نظر آرہی تھی۔۔۔۔
"مجھے بھلا اچھل کود کی کیاضرورت ہے ۔۔۔۔۔کیاخیال ہے باقی کی کہانی تمہارے
شکاروں سے نہ سن لی جائے اور جلد ازجلد ان کو فارغ کروتاکہ میں اپنے کام پر
نکل سکوں ۔مجھے یہاں سے سیدھاافغانستان جاناہے لیکن اگر تم نے مجھے اسی طرح
باتوں میں لگاکر رکھاتو پھر میں کبھی بھی نہیں پہنچ سکوں
گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے اسے جلتادیکھ کر تھوڑا سانمک مرچ اس کے جذبات پر
مزید چھڑکا تاکہ سالن کاسواد مزید دوبالا ہوجائے۔ویسے بھی ہیڈکواٹر کی جانب
سے جس بھیڑیئے کی چیختی ہوئی آواز میں مجھے جو حکم صادر فرمایا گیاتھاکہ وہ
یہ تھاکہ کھاناتیار ہے اور میں نے نمک مرچ چیک کرناہے۔۔۔۔۔ بھلا میں کہا ں
باز آنے والاتھا۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے ایک ہی گھونٹ میں اپنی چائے مکمل
کی اور پھر اسے گھورتے ہوئے دیکھنے لگا۔
"تم بہت شریرہو،جلتی پے تیل کا کام کرتے ہومیں نے تمہیں بھلا کہاں باتوں
میں لگایاہوا ہے اگر مجھے ہیڈکواٹر سے حکم نہ ہوتاتو میں یقیناتم سے بات کر
نے سے قبل ہی تمہیں شوٹ کردیتا۔۔۔۔۔۔۔۔ہف" ایک دم سے اس کا پارہ ہائی
ہوگیامیں نے سگریٹ کا آخری کش لگایااور پھر دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے
گویاہوا۔
"دھرج رکھو میرے پیارے مہاراج اتناتاؤ کیوں کھاتے ہوتم سے چھوٹاموٹا مذاق
کیا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں اپنے جذبات پر قابو رکھو۔ویسے تمہاری چائے
بہترین تھی تم بلاوجہ اسے زہر کہنے پر تلے ہوئے ہواور واقعی تمہارے ہاتھوں
میں تاثیرہے کیاخیال ہے پارٹ ٹائم چائے کاکھوکاکھولنے کااردہ ہوتو مجھ نہ
چیزکو ضروریاد کرلیناامریکہ سے دوڑا دوڑا آؤں گا صرف تمہاری خاطر ۔۔۔۔"میں
نے ایک بار پھر سے آنکھ دباکر اس شان سے کہاکہ وہ بے اختیار ہنسناشروع
ہوگیا۔۔۔۔وہ واقعی بھلا مانس تھااوپر سے جتناکبھی کبھی سخت دکھائی
دیتاتھااندر سے اتناہی نرم تھا۔اپنے جذبات پر قابونہیں رکھ پاتاتھا۔۔۔
"تم واقعی شیطان کے ماموں جان ہوبالکل نہیں سدھرو گے چلوتمہیں کچھ
دکھاتاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے ہنستے ہوئے کہااور پھر ہاتھ بڑھا کر میزکی دراز
کھول کر اس میں سے ایک ریموٹ کنٹرل نکال لیااور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے
ایک بٹن پریس کرکے تمام لائٹس آف کردیں۔اس کے بعد اس نے دائیں جانب دیوار
پر ریموٹ کارخ کرکے ایک اور بٹن پریس کیاتو ایک اسکرین روشن ہوگئی جہاں پر
ایک تہہ خانے کا منظر روشن ہوگیا۔ مگر وہ منظر دیکھتے ہی میرا منہ حیرت سے
کھلے کا کھلارہ گیامیرے ساتھ ساتھ مرزا منصور کی بھی یہی حالت تھی سامنے
کامنظر انتہائی حیران کن تھا۔۔۔۔۔ مرزا تو وہ سین دیکھ کر بے اختیار اپنی
سیٹ سے ایسے اچھلاجیسے اسے کسی بچھو نے ڈنگ ماردیاہو۔۔۔
*******
ایک بار پھر وقت کی ڈور ان نامعلوم افر اد کے ہاتھوں میں تھی جو مجھے اغوا
کرکے نہ جانے کس دیس میں لے آئے تھے۔میں نے گزشتہ تمام واقعات کو اپنے ذہن
سے وقتی طور جھٹک دیاکیونکہ سوچنافضول تھا۔اب میری نظریں صرف ااور صرف حال
پر تھیں اور اب جو ہونے جارہاتھامیں اس سے نپٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار
تھا۔وہ نامعلوم افراد جو کوئی بھی تھے وہ یقینامیرے دوست نہیں ہوسکتے
تھے۔ہر لمحہ میرے تجسس میں اضافہ ہوتاجارہاتھاانتظارکی گھڑیاں طویل ہوتی
جارہی تھیں لمحے سست روی کا شکار ہوگئے تھے۔میراصبر کا پیمانہ اب آخری حدوں
کو چھورہاتھا۔
ہر گزرتالمحہ میرے سر پر ایک طاقت ور ہتھوڑے کی کاری ضرب لگاکر جارہاتھااور
ہتھوڑا بھی ایساکہ ہر دفعہ میری کھوپڑی کی ہڈیوں کو توڑ پھوڑ دیتاتھا۔اب یہ
آنکھ مچولی کا کھیل میری برداشت سے باہر ہوگیاتھاوہ جو کوئی بھی تھے نہ تو
صاف طور پر چھپتے تھے اور نہ ہی خود کو ظاہر کرتے تھے۔حالات کتنے ہی دگرگوں
کیوں نہ ہوجائیں ایسے موقعوں پر صبر کادامن ہرگزاپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا
جاسکتاتھا۔کیونکہ مجھے جو کوئی بھی یہاں لایاتھاوہ مجھے اعصابی طور پر
کمزور کرنے کے لئے ہر داؤ کھیل رہاتھاتاکہ میں اس کے سامنے بے بس اور مجبور
ہوکر خود کو اس کے حوالے کردوں۔مگر یہ میرے جیتے جی تو ہو نہیں سکتاتھااور
جب جنگ ہو تو ہر داؤکھیلاجاسکتاہے کیونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتاتو
نفسیاتی داؤ تو بالکل جائزتھا۔
پھر جب جنگ ہو تو کوئی قائدہ ،کوئی قانون اور کوئی اصول ہرگزکوئی معنی نہیں
رکھتا۔اگر وہ نامعلوم افراد مجھ پرجسمانی تشدد کرناچاہتے تو مجھے وہ بھی
برداشت کرنے کاپورا حوصلہ اور سلیقہ ہوناچاہیے تھا،یہ سارا کھیل تھاہی
برداشت کا۔۔۔اچانک کمرے کا اکلوتادروازہ ایک دھماکے سے کھلااور پھر اس کے
ساتھ ہی دو تین لمبے تڑنگے روسی اندرداخل ہوئے اور پھر ان کے پیچھے اپنی
تمام تر شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ وہ ہستی اندر داخل ہوئی جسے دیکھ کر میں
چونکے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بورس اسپاسکی المروف میجر ڈریگن اندر داخل
ہوااور اپنی تیزنظروں سے مجھے گھورنے لگا اس کی آنکھوں میں خون
اتراہواتھاوہ بہت بھیانک معلوم ہورہی تھیں۔ پھر اپنی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ
شان بے نیازی سے چلتاہواخالی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔بہت سے لوگوں کے دلوں
میں موت اور خوف کی علامت میجر ڈریگن میرے سامنے اپنی تمام تر رونقوں کے
ساتھ براجمان تھا۔۔۔وہ میجر ڈریگن جسے موت بھی دیکھ کر تھر تھر کانپتی تھی
وہ میرے سامنے تھامجھ سے بہت قریب مجھ سے چند گزکے فاصلے پر۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے) |
|