سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس (آخوان ستہ

گل زیب انجم کے طویل مضمون “سیری نالا بان“ سے لیا گیا اقتباس بعنوان آخوان ستہ
سیری نالا بان سے
لیا گیا اقتباس
تحریر :- گل زیب انجم

ابهی سیری کے سین کی بات بهی نہیں ہو پاتی کہ الفاظ ختم ہو جاتے ہیں.

ایک صدی کا اگر آدمی خود ہو اور نصف صدی کے بیل تو پیسینہ پهر کیسے آئے گا.

ساری زندگی لاری کا سفر نہیں کیا.

پیشانی پر چاند اور ہاتھ کی پشت پر تارا کندہ تها.

چلتے چلتے رک کر کچھ سوچنے لگ جاتے .

نابو سے دوستی اتفاق ہی سمجھ لیں.

سردیوں کی رات ہو تنہائی ہو اس میں تو پهر.....!

صیلو کی خوراکیں ہی اس کی مستی کا سبب بنی.

گوبر کا ٹوکرا سر پر ہوتا اور سبک رفتاری قابل دید ہوتی.

حق کہتے ہوئے جلی لگاتے .

اعادہ کرتے تو چہرہ انگارے کی طرح دہکتا نظر آتا.

سیری کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان کرنا اگر آسان ہوتا تو مکتب خانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی . سیری کے سین کی بات ہی شروع ہوتی ہے تو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ذخیرہ الفاظ سے الفاظ ناپید ہوئے لگتے ہیں تو نگاہیں متلاشی متلاشی سی لگتی ہیں زبان کچھ ادا کرنا چاہتی ہے لیکن لفظوں کی کمی کے باعث شرمندہ شرمندہ سی لگتی ہے ہاتھ دل دماغ اور زبان کے محتاج ہیں بهلا ان کی اجازت بنا کیا کر سکتے ہیں . سیری کا ہر ہر پہلو اتنا ہی حسین دلنشیں اور دلآویز ہے کہ ہر کسی کو زیر بحث لا کر آپ اپنے دل کو سیراب کر سکتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے پاس وہ فن نہیں جس سے ہم دوسروں کو اپنے احساسات سے مطلع کر سکیں . جانے لوگ کیسے الف لیلہ داستانیں بیان کر لیتے ہیں جب کہ ہم سہ حرفی بیان کرنے سے بهی عاجز ہیں .
سیری میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی طرز حیات کو ہم اپنی بساط کے مطابق بیان کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو ان سے آشنا کر سکتے ہیں بزرگوں اور بچوں میں ایک مماثلت یکساں پائی جاتی ہے کہ یہ گهروں محلوں اور پینڈ تهاں کی رونق ہوتے ہیں ان کے دم سے غریب سے غریب گهر بهی محل لگتے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں. آج کی اس تحریر کا مقصد اپنی سیری کے چند بزرگوں بابیوں سے متعارف کرانا ہے. یہ بابے کبهی سیری کی رونق ہوتے تهے دور جا کر بهی ہم سے جدا نہیں ہوئے بلکہ آج منوں مٹی کے نیچے سو کر بهی اپنے ہونے کا احساس بخشتے ہیں.
آخوان ستہ:-
آج جن بزرگوں کی داستان حیات کے چند پہلو کو سیری نالا بان کی خوبصورت داستان سے مرصع کرنے لگا ہوں وہ خاندان سیف کے درخشندہ بابے ہیں . مصنف کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ وہ ان کی اچھائیاں مکمل بیان کر سکتا ہے
بلکہ یہ تو صرف وہ باتیں یا خوش اخلاق پہلو ہیں جو بندہ ناچیز گاہے گاہے خود دیکهتا اور سنتا رہا . مصنف سیری نالا بان یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ خاندان سیف کے آخری بابے کو بهی اس وقت دیکها ہے جب وہ چاندی نما ریش کو سینے پہ لیے پهرتے تهے . ہو سکتا ہے ان بابیوں کے بہت سے ایسے پہلو رہ جائیں جنهیں وہ یا ان کے خاندان والے فخریہ بیان کرتے ہوں. چونکہ یہ مصنف کی اپنی تخلیق ہے اس لئے اس میں کچھ باتوں کا پس پردہ رہ جانا مضائقہ نہیں. اخوان ستہ کا بلترتیب ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر ترتیب میں اونچ نیچ ہو گئی ہو تو رہنمائی کا مستحق ہوں
1. بابا غلام قادر :- بابا سیف کشمیری کی پہلی اولاد تهے یہ گیائیں والی کسی کے کنارے توتوں والی گہل کے اپرلے پاسے رہتے تهے درمیانے قد کے بزرگ تهے ماشاءاللہ ایک صدی سے کچھ زیادہ عمر پائی ہے لیکن آخری دم تک آپ صحت مند رہے میرپور اور جہلم تک کا سفر پیدل چل کر طے کرتے رہے کبهی لاری یا کسی دوسری سواری کو زیر استعمال نہیں لائے سفید کڑتا سفید ہی رنگ کا چهوٹا سا تہبند لباس میں پہنتے سر پر پرنہ صافحہ کے طریقے سے باندهتے کبهی طبیعت سردی محسوس کرتی تو کالے رنگ کا بڑا سا کوٹ پہن لیتے پاوں میں غرگابی پہنتے لیکن اکثر ایڑی ننگی رکهتے یکے بعد دیگرے چار ازواج پائی بارہ اولادیں ہوئی جن میں آٹھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئی لیکن سلسلہ نسب صرف ایک ہی بیٹے سے چلا .
قربانی عید پر قربانی کے لیے روزہ رکها جب قربانی کے بعد روزہ افطار کرنے لگے تو کباب کی ایک بوٹی حلق میں پهنس گئی بہت کوشش کی لیکن بوٹی نہ نکلی آخر کار گاڑی بک کرائی بابا جی کو ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میرپور لے گے تین چار گھنٹے کی مسافت کے بعد میرپور پہنچے ابهی صدر دروازے کے قریب ہی پہنچ پائے تهے کہ چهینک آئی اور بوٹی دو گز دور جا پڑی بابا جی مسکراتے ہوئے کہنے لگے ایویں قسم پنهائی اے اس بوٹی .....یعنی گاڑی میں نہ بیهٹنے کی جو بات تهی وہ آج ختم ہو گئی ہے. وہاں برادری کے کافی لوگ تهے ادهے میرپور ہی کے مقیمی تهے وہ سب بابا جی سے اصرار کرنے لگے کہ اگر آپ اس بہانے سے میرپور آ ہی گے ہیں تو اب ایک ایک رات ہمارے پاس رہ ہی جائیں کہنے لگے جس طرح میں کبهی گاڑی میں سوار نہیں ہوا تھا اسی طرح کبهی کسی کے ہاں رات نہیں رہا چلو وہ سوار نہ ہونے والی بات گئی ہے تو یہ بهی کر لیتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ بس اک رات .
ایک ہی رات بسر کرنے کے بعد واپس آ گئے لیکن زندگی کے دونوں ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب عمر شریف ایک سو تین یا چار سال ہو چکی تهی .
اپ تقریباً ایک ہی سال اور زندہ رہے اور اس کے بعد وفات پا گئے.
آپ انتہائی نیک اور ہمدرد قسم کے بزرگ تھے یہ ہمدردی نہ صرف انسانوں تک محدود تهی بلکہ جانوارں کو بهی حاصل تهی .آپ کہ پاس کهیتی باڑی کے لیے جو بیل تهے وہ ہو بہو اردو کی تیسری کتاب کے "دارا کے گاؤں" والے تهے یعنی بڑے بڑے سینگوں والے اور نہایت ہی سست روی کے شکار لیکن آپ انہیں بهی آخیں، ہو، گوریا اور ہا کے بغیر کچھ نہ کہتے.
آپ کی ایک بهنیس ہوا کرتی تهی جو بورے رنگ کی تهی کمزور اتنی کے ہڈیاں گنی جا سکتی تهی پورا دن کسی میں بیٹهی رہتی یا تو گهاس وغیرہ اسے پسند نہیں تها یا پهر اسے چرنے کا یارا نہ تها کسی کی چکنی مٹی اس پر جب سوکھ کر اکڑتی تب وہ کسی سی اٹهتی کسی کی جونکوں سے اس کی کافی شناسائی تهی وہی جونکیں منت ترلہ کر کے اسے اٹهنے پر مجبور کرتیں ہم ویسے ہی کچھ اس کسی سے ڈرتے تهے لیکن جب جونکیں لٹکتی اس بهینس کو دیکھتے تو ہماری چیخیں نکل جاتی تھیں.
بابا جی جب ایک سو ایک سال کے تهے تب بھی ہل چلایا کرتے تهے اور تھکاوٹ کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا تها، لوگ دس گیارہ بج گے ہیں کا کہہ کر بیل کهول دیتے لیکن بابا جی اس وقت کهولتے جب سہ پہر کو لوگ دوبارہ جوتنے کا ارادہ کر رہے ہوتے. اگر بابا جی اس وقت سو سال کے تهے تو بیل بهی تقریباً چالیس پچاس سال کے ہو گئے ہونگے اسی لیے کسی کو بھی پسینہ نہیں آتا تھا . بابا جی چار بار رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور ماشاءاللہ چوتھی زوجہ اب بهی بقید حیات ہیں اور سودا وغیرہ لینے کے لیے سیری بازار آتی جاتی ہیں.
2 :- بابا سخی محمد
آپ بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر تهے بڑا اونچا قد تها اور مضبوط قسم کے مرد تهے موٹے موٹے نین نقش کے مالک تهے داہنی آنکھ سے کچھ اوپر ماتهے پر ہرے رنگ کا چاند بنوایا ہوا تها اور داہیں ہاتھ کی پشت پر تارا کندہ تها یہ اس زمانے کے لوگ چاہے کسی بهی دهرم کے ہوں اپنی جوانی یا پہلوانی دکهانے کے لیے چاند تارے یا عاشق مجاز گلاب کے پھول کندہ کرایا کرتے تهے ہندو تو ہنو مانت، گن پتی اور ویشنو کا ٹاٹو بهی بنوا لیتے تھے مسلم صرف چاند تاروں یا گلاب کے پھولوں تک ہی محدود رہتے تهے . انہوں نے بهی چاند تارا بنوایا ہوا تها یہ کرتے کیا تهے اس کا کچھ وثوق سے کہہ نہیں سکتے لیکن ایک شنید ہے کہ آپ محکمہ شاہرات میں رہے ہیں کب سے کب تک رہے مصنف بتانے سے قاصر ہے. ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے تگڑے مرد تهے آنکھوں میں ہمیشہ ایک انوکها سا جلال رہتا تها بهاری بهاری ہونٹ سخت طبیعت کی غمازی کرتے تھے اکثر رنگدار کپڑے مثلاً سفید قمیض کے ساتھ آسمانی نیلا تہبند زیب تن کرتے سر پر صافحہ یا سعودی عرب والا پرنہ رکهتے چلتے ہوئے ہاتھ میں اپنے ہی جتنی لاٹھی رکهتے اور پاوں کے پنجے اندر کی طرف موڑ کر چلتے، آپ کا انداز یہ بهی تها کہ چلتے ہوئے ران اور گهٹنے اندر کی طرف رکهتے پنڈلیاں اور پاوں باہر کی طرف رکهتے(اسی انداز میں آپ کےبڑے بیٹے اور ایک نواسہ قادری بهی چلتے ہیں) بڑهاپے کی وجہ سے گهٹنوں میں خم بھی آ جاتا, چلتے چلتے رک کر کچھ سوچتے نگاہ اٹھا کر دور تک دیکهتے اور پهر چل دیتے .
آپ کی جوانی کے قصوں میں ایک قصہ ہم نے یہ بهی سن رکها ہے کہ آپ چارپائی پر التی پالتی مار کر بیهٹتے اور چارپائی کو دونوں اطراف سے پکڑ کر اچهالتے اور چارپائی آپ سمیت دو چارپائیوں کے اوپر سے گزرتی ہوئی تیسری چارپائی کی جگہ جا کر پڑتی. یہ آپ کے ایام شباب کے جوہروں میں سے ایک جوہر تها. آپ طویل قد کے مالک تهے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بهرا ہو جسم تها چہرے مبارک پر حنا سے رنگی ہوئی داڑھی تهی جس کا رنگ کبھی پهیکا نہیں پڑنے دیتے تهے. آپ کے ہاتهوں کی پشت پر چهوٹے چهوٹے تل نما داغ بهی تهے. آپ نے تین شادیاں کر رکهی تهی تینوں میں سے تین تین اولادیں تهی لیکن پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں جبکہ دوسری ازواج سے ایک بیٹی اور دو دو بیٹے تهے لیکن عزت و شہرت اسی کے حصے آئیں جس کی دو بہنیں تھیں.
آپ بھی بڑے بھائی کے ساتھ گیائیں ہی رہتے تهے لیکن جیسا کہ دستور دنیا ہے کہ آخر الگ ہونا ہی پڑتا ہے آپ بهی اسی سلسلے میں الگ ہوئے اور اپنا مکان سیری کی دائیں جانب اک کسی کے اس پار بنوایا وہاں جو جگہ انہوں نے مکان کے لیے منتخب کی وہ بڑے بٹے پتھروں پر مشتمل تهی اس لیے آپ سخی پڑاٹاں والے مشہور ہوئے . حالانکہ ان پڑاٹوں کے ساتھ ہی ان کی بیٹی کا گهر ہے اور وہ جگہ کہوٹہ میں آتی ہے عقب پر دوسری بیٹی کا گهر ہے اس جگہ کو لوگ بگلہ کہتے ہیں لیکن ان کے مسکن کو پڑاٹ کہہ دیا.
آپ کی پہلی دو بیویاں آپ کی حیات میں ہی راہی عدم ہوئی اور تیسری کی موجودگی میں خود اگلے جہاں کو سدھار گئے.
آپ کی موجودگی میں ہی آپ کی ساری اولادیں عش و عشرت کی زندگی گزارنے لگی روپیہ پیسہ اور عزت سب کچھ میسر رہا . یعنی اللہ نے زر و زمین اور اولاد کی نعمت سے خوب نوازا. ان کی آخری زوجہ کہتی ہوتی تهیں کے ہم نے ایسا بهی وقت دیکها کہ ہمارے پاس اتنا اثاثہ بهی نہ تها کہ دونوں میاں بیوی اپنے لیے الگ الگ رکابی ہی خرید لیتے .اللہ نے کرم کیا وہ وقت بهی دکهایا جب سونے کا نوالہ بھی میسر رہا. آپ کے بڑے بیٹے اپنے پورے علاقے کے چیرمین رہے اور خوب نام عزت و شہرت پائی.
آپ نے طویل عمر پائی لیکن سو کے ہندسے کو عبور نہ کر سکے . سردیوں کی یخ بستہ رات تهی جب آپ کو سفر زندگانی کو خدا حافظ کہنے کا سندیس ملا، جسم یک دم ٹهنڈا ہوا پهر سخت ہونا شروع ہوا اور اک ہچکی کے ساتھ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی لوگ کہتے رہ گئے فالج ہوا.

3 :- حسن محمد
اخوان ستہ کے رکن ثالث بابا حسن محمد تهے یہ اسم گرامی ہم نے موصوف کی تربت سے ہی پڑها لیکن جب تک زندہ رہے ہم نے یہ نام نہیں سنا کیوں کہ جناب کو وجہ شہرت کچھ دوسرے ناموں سے حاصل تهی اور وہی نام زد عام تهے . موصوف کا پہلا نام باوا ریکا تها ..... اب یہ ریکا نام نہیں کام ہوتا ہے بہت بعد ہم سمجھ پائے لیکن اس وقت ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ نام ہے.
دراصل آپ بازار میں چوکیدار کے فرائض سرانجام دیتے تهے بڑی سی لٹھ اور بڑے سے شیشے والی ہاتھ میں لالٹین ہوتی اس لالٹین کی تعریف میں وہ زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے تهے کہتے یہ میں نے لنڈی کوتل سے منگوائی تھی تیل تو بلکل ہی نہیں جلاتی بس چوروں کے دل جلاتی ہے. اسی چوکیداری سے منسوب کرتے ہوئے آپ کو لوگوں نے ریکا کہنا شروع کر دیا . بہت عرصے تک ہم ریکا کے معنی نہیں سمجھ پائے ایک دن اپنے دوست وقار چوہدری سے تبادلہ خیال ہو رہا تها باتوں باتوں میں اس لفظ ریکا پر بات چل نکلی آخر دونوں کی ڈسکیشن ( Discussion) سے اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ لفظ لفظ ریکی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کسی جگہ کی خاص نقطہ نظر سے دیکھ بهال کرنا. باوا ریکا چونکہ دکانوں کی دیکھ بهال کرتے ہیں اس لیے ان کو ریکا کہا جاتا تھا.
پهر آپ ولی جی کے نام سے مشہور ہوئے . یہ نام اس وقت کے نوجوان محمد عالم بٹ اور چوہدری جاوید کا دیا ہوا ہے جو اس وقت کے پڑهے لکهے لوگوں میں شمار ہوتے تھے . وہ رات کو کبهی ان کے پاس آکر بیٹهتے دونوں گهر والوں سے چهپ کر سگریٹ پیتے تهے ایک تو سگریٹ نوشی ہو جاتی اور دوسرا وقت پاس ہو جاتا ولی جی بهی ان کی رفاقت سے محظوظ ہوتے اور ساتھ اپنی رات بیتانے کے لیے ان دونوں کو مذید باتوں میں لگائے رکهنے کے لیے کچھ حقیقت پر کچھ مذاق پر مبنی باتیں سناتے ساری رات ہنسی مذاق میں گذرانے کے بعد ولی جی اپنی چارپائی سر پر اٹها کر گهر کی طرف جاتے ہوئے کہہ دیتے اوے نماج وی پڑے کرو . وہ دونوں اگے سے ہنستے ہوئے کہتے چنگے ویلے اپر تساں کی ولائت یاد آئی اے .
ان دونوں نے اپنے دیے ہوئے لقب کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کیا کیا حربہ نہ کیا، کہ اگر کسی سے ان کے متعلق پوچهتے تو یہی کہتے ولی جی دیکهے ہیں ہوٹل والے کو چائے کا بتاتے ہوئے کہتے ولی جی چائے کا کہہ رہے ہیں بس یہاں سے ہی یہ ایسے ولی مشہور ہوئے کہ پهر ان کی بہوئیں اور پوتے پوتیاں بهی ان کو ولی جی کہنے لگے بلکہ جو اس وقت چهوٹے تهے ان سے اگر آج بهی ان کے دادا کا نام پوچها جائے تو کہتے ہیں ولی جی.
اپ کے ساتھ ایک کم سن نابو رہا کرتی تھی آپ سے اسے اس قدر محبت تھی کہ اگر آپ اسے نظر نہ آتے تو وہ کهانا پینا چھوڑ دیتی تهی .آپ جب بھی پہرہ داری کے لیے آتے گهر والوں سے کچھ چهپا کر نابو کے لیے لے آتے بہوئیں جنهیں پہلے آپ پر کچھ کچھ شک تها اب آپ کی باندهی ہوئی پوٹلی بھی ٹٹول لیتی نابو سے اتنا پیار دیکھ کر بہوئیں جلتی کڑهتی لیکن کچھ کر نہ سکتی ہاں اگر ولی جی کی غیر موجودگی میں نابو گهر آ جاتی تو اس کی خاطر داری لاتوں جوتوں اور ڈنڈوں سے ہوتی وہ بے چاری ولی جی کی محبت میں سارا ناروا سلوک ہنس کر سہہ لیتی لیکن کبهی بهی شکوہ نہ کرتی. ولی جی سے سائے کی طرح چپکی رہتی آپ جہاں بهی جاتے نابو آپ کے ساتھ ہی رہتی آپ اسے کہتے نابو بوسی تو وہ آپ کے پاؤں چاٹنے شروع کر دیتی لوگ بھی ان دونوں کی محبت پر رشک کرتے کے...،
نابو گاہے بگاہے ہی ولی جی کے بغیر کہیں جاتی لیکن کبهی اداس ہوتی تو بابے معمے کی دکان پر چلی جاتی وہ بهی اس وقت جب ان کا منڈا بلا نہ ہوتا، بابا لوگوں سے آنکھ بچاتے ہوئے تھوڑا سا گوشت دے دیتے اور وہ گوشت لے کر وہاں چلی جاتی جہاں کسی کو خوشبو بهی نہ آئے . گوشت کے معاملے میں وہ تھوڑی سی کمینی تهی کسی کو دینا پڑ جاتا تو موت دکهائی دینے لگتی کہیں بار لینے دینے کے معاملے میں اپنے بہن بھائیوں سے بهی لڑ پڑتی. لیکن ولی جی پهر بهی اسی کی طرفداری کرتے ہوئے اس کے بہن بھائیوں کو ایک ایک ڈنڈا مار دیتے . کہیں بار لوگ شکوہ بهی کرتے لیکن ولی جی کو نابو کی کوئی غلطی غلطی ہی نہ لگتی.
نابو جوان ہوئی تو گلی محلے میں پونجهال سا آ گیا کبهی ادهر شور کبھی ادهر شور لوگ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو نابو سے دور رکهنے لگے اور تو اور گهر والے ہی کب کوئی موقع ایسے جانے دیتے جب ولی جی سے شکایت نہ کر رہے ہوں گهر میں کوئی برتن بهی آگے پیچھے ہو جاتا تو بہوئیں سارا گهر ہی سر پر اتها لیتیں. ولی جی بهی نابو کے دن رات کے چالے دیکھتے اور سوچتے میں نے یہ کیا مصیبت اپنے گلے لے لی ہے. کہتے ہیں نا کہ کبهی کبهی نیکی بهی گلے پڑ جاتی ہے بس ایسا ہی کچھ ولی جی سے ہوا سردیوں کی اندھیری رات تهی ہوا یوں چل رہی تھی کہ جونکا گذر جانے کے بعد بھی دیر تک کان سائیں سائیں کرتے رہتے سوکهے پتے کچی سڑک کے پتھروں سے ٹهکراتے تو دل میں خوف سا آنے لگتا گپ اندهیرے میں ہاتھ کو ہاتھ دکهائی نہ دیتا تها . ولی جی ایک دکان کے برآمدے میں لیٹے کبهی لحاف موڑ مراڑ کر لیپٹتے اور پهر تھوڑی دیر کے لیے مونہہ لحاف سے نکال کر آنے والی آہٹ پر کان لگاتے پهر دل کو تسلی دینے کے لیے کہتے کچھ بھی نہیں ہے لیکن ذمہ داری نبھانے کے لیے لیٹے لیٹے ایک لمبی سی آواز لگاتے ... خبر دار او. ....... ! یہ آواز اس بات کا پتہ دیتی تھی کہ چوکیدار الرٹ ہے. ولی جی نے آواز لگا کر ابهی رضائی (لحاف) لپیٹی ہی تهی کہ چارپائی کی پائنتی کچھ گڑبڑ سی محسوس ہوئی سخت سردی میں بھی ولی جی کو پیسنے چهوٹنے لگے تھوڑی دیر پہلے جو بڑی کراری سی آواز لگائی تهی وہ اب یوں بند ہوئی کے اپنے کانوں کو سنائی نہ دیتی تھی ہاتھ پاوں سوجنے لگے کچھ کلمے یا خوف کے اذکار یاد تهے لیکن اب وہ بهی بهول چکے تهے پھر بھی بسم اللہ زبان پر جاری ہو ہی گئی اسی کے آسرے پر پہلے ہاتھ نکال کر اندازے سے ہی لنڈی کوتل والی لالٹین پکڑی چابی گما کر بات(اس کے اندر جلنے والی بتی) اونچی کی پہلے ایک آنکھ سے داہیں باہیں کا جائزہ لیا جب کچھ دکهائی نہ دیا تو اللہ کو پهر یاد کیا مونکی کیپ نما ٹوپی کو کچھ اور کهینچا مونہہ لحاف سے باہر نکال کر نگاه داہیں باہیں دوڑائی دیکهتے ہیں کہ ایک کمسن سی بچی چارپائی کے نیچے بیٹهی ہوئی پہلے تو آسیب کا سوچ کر اوسان خطا ہوئے پهر قابو پاتے ہوئے اس کو لاٹھی سے ڈرا دھمکا کر چارپائی کے نیچے سے باہر نکالا غور سے دیکھا تو وہ کچھ خوف سے اور کچھ سردی سے بری طرح کانپ رہی ہے ولی جی نے ترس کهاتے ہوئے اس کو تسلی دی برآمدے میں دیکها بوری کا ایک ٹکڑا ملا جو نہ جانے کہاں سے اڑ کر آیا تھا اٹھا کر اس کو اوڑهنے کو دیا دیکها کہ بهوکی لگا رہی تھی اپنی چنگیر میں سے روٹی والا کپڑا اٹها کر دیکها تو ادهی روٹی ملی وہ بھی اس کو دی بس یہی پہلی ملاقات ہی دوستی کا سبب بنی اور پهر ایک نہیں کہیں راتیں اگهٹی گزرنے لگی بس جب بٹ عالم اور چوہدری جاوید آتے اس وقت ولی جی نابو کو کہیں آگے پیچھے بهیج دیتے نابو کی دوستی کا چرچا سب سے پہلے عدالت مٹهائی والے نے کیا جو سرگی ( سحری) ہی دکان پر آ جاتا تھا اور کبهی کبهی ولی جی اس سے جلیبی کا ایک چهلہ لے کر نابو کو دے دیتے تهے.
بہت عرصہ تک آپ کا اور نابو کا دامن چولی سا ساتھ رہا. اس دوستی میں دراڑیں تب پڑی جب نابو امید سے ہوئی کیونکہ اب وہ ولی جی کے ساتھ پہرا داری کرنے سے قاصر رہنے لگی ولی جی اس کی اس مجبوری کو مغروری سمجهنے لگے . لیکن برسوں کی دوستی پل بهر میں توڑی بهی نہ جا سکتی تهی آخر نابو بهی خاندان سگاں سے تهی جس کی وفاداری ضرب المثل ہے ولی جی بےرخی برتتے بهی تو پاوں پڑ جاتی آخر دونوں کی مشاورت سے بات پکی ہوئی کہ بچے گہاڑے میں ہی جنم دینے ہیں . وقت بچوں کی پیدائش کا آن پہنچا نابو بے یارو مددگار گہاڑے میں لیٹی اور ایک ایک کر کے سات بچوں کو جنم دیا . جهاڑے کی لمبی راتیں اور چهوٹے دن پهر ایسے موسم میں بهوک بھی دو گنا زیادہ لگتی . ولی جی کو اب کچھ زیادہ ہی ترس آنے لگا اس لیے ولی جی نے پهر سے اس کی خیر خبر لینی شروع کر دی . بچےہی جدائی کا سبب بنے ماں کی مامتا پاوں کی زنجیر بن گئی، اب اس کو محبت کے سوا، کچھ اور ذمہ داریاں بهی پڑ گئی تھی جن کو پورا کرنا بهی وفا میں آتا تھا.
ولی جی کی محبت کی داستانیں ہمارے قلم کی دسترس سے باہر ہیں کوئی ایک محبت ہوتی تو یاد رکهتے اب محبتیں ہی اتنی ہیں کہ کسے یاد رکهوں کسے بهول جاوں ، نابو اپنے گهر بار کی ہوئی تو ولی جی چسکا پورا کرنے کے لیے صیلو سے سمبند باندهنے لگے لیکن اب یہ دوستی ویسی بهی نہ تھی، بلکہ خرچے والی تهی بادام سواگی پستہ اور تازہ مکهن چوکیدارے کی ساری تنخواہ میں بهی کم ملتے تھے لیکن کچھ دکاندار تھوڑی بہت چیزیں صیلو کے لیے فری بهی دے دیتے تهے. مفت کا مال کها کها کر صیلو کٹا بنتا جا رہا تها جوانی بڑی مستانی ہوتی ہے جب یہ کسی پہ آتی ہے تو رنگ تو دکهلاتی ہے . سیانے کہتے ہیں جوانی جب اندهے پر بھی آتی ہے تو وہ بھی سرمہ ڈالتا یا ڈالتی ہے. خیر صیلو بهی جوان ہوا تو وہ تمام کرتب دکھانے لگا جو جوانی دکهاتی ہے ولی جی جب اس کی حرکات دیکهتے تو دل میں ہی کڑهتے لیکن ایک دن جب دل برداشتہ ہوئے تو شفیع کفش دوز سے چمڑے کا پٹہ بنوا لائے اور اس کو باندھ دیا . اب جوانی دن رات پٹے میں جهکڑے ہوئے گزرنے لگی تو آزادی کی قدر محسوس ہوئی.ولی جی نے عبرت کے طور پر اسے باندها بھی وہاں جہاں سے رستہ گزرتا تھا . پستہ اور باداموں سے پلا پوسا خوبصورت لش پش کرتا لمبی گردن اور سڈول جسم والا بانکا سجیلا پنجابی زبان کا پٹها جب گرمی اور غیرت کے پسینے سے شربور ہوتا تو راہگیروں کی توجہ کا مرکز بن جاتا کچھ ہم عمر کڑ کڑ کر کے پاس سے گزرتے جیسے کہہ رہے ہوں ہن آرام ای اور کچھ دوشیزائیں کوکو کاک کرتی اور اس کی اسیری پر ماتم کرتی لیکن ولی جی کے ڈر سے کچھ کرنا تو درکنار اونچا بول بهی نہ پاتی تھیں کوئی بغاوت کا سوچتی بھی تو ولی جی تیز دھار والی چهری دکهاتے اور کہتے بہوں کڑوں کڑوں کیتی ناں تے اسے نال ناساں کپسوں . وہ بہوئیں جو نابو سے جلتی تهی اس کی جوانی پا بہ زنجیر دیکھ کر کہتی اس بچارے ناں قصور کہہ آ ولی جی تیکی نظروں سے دیکهتے ہوئے کہتے ٹھہرو ٹھہرو تساں کی دسنا آں.
ولی جی نابو کی بڑی بڑی کوتاہیاں درگزر کر دیتے تهے لیکن صیلو کی ایک خطا معاف کرنا ان کے لیے انا کا مسئلہ بنا ہوا تها. کبهی داڑھی کو کهجاتے ہوئے کہتے اسکی بردا فروشاں نے حوالے کرساں .آخر ایک دن وہ بهی آ گیا جب راہ گزرتے فوجیوں کی نظر اس پر پڑه گی انہوں نے کچھ خفیہ زرائع سے اس کی عین ایام شباب میں اسیری کی معلومات حاصل کی اور پهر اس کے آقا کے ارادوں کی کهوج لگائی جب سب معلومات فراہم کر لی تو پھر انہوں نے برائے راست ولی جی سے رابطہ کیا . جب ولی جی کو پتہ چلا کے یہ اس کی رہائی کے لیے کچھ رقم بهی دیں گے تو ولی جی نے اس کے قصیدے بیان کرنا شروع کیے اور جب دیکهتے کے فوجی اس کی نسل پر کچھ شک کرتے ہیں تو پهر انہیں اس کا نسب بتانے کے لیے کہتے اہمان نال اے اصل اصیل اے تساں یقین کرو صاب میں اپنے ہتهی پالے آ میغی کسطرح پیلخہ پئ سکنا. فوجی بھی شاطر تهے قیمت گٹهانے کے لیے کہتے بابا انیج لگدا تے نئیں، اس وقت وہ کوزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تے فیر وجو(وضو) کری تے دساں، فوجی آپ کے برجستہ جواب پر گڑاکا لگا کر ہنستے یوں ولی جی اپنے موقف پر کامیاب ہو جاتے اور فوجی جو بہت تیز بنتے تهے لمبی کلغی والے اصلی جدی پشتی اصیل کو لے جاتے ہوئے پهر آنے کا یوں کہتے بابا سانوں اک ہور وی چاہدا جے اس دهوکا نہ دتا تے وت آو ساں، ولی جی ان کے اس جملے پر کہتے آخو آخو جرور اچهو وت چنگا دیوساں .
ولی جی برجستہ بات کہنے والے بڑے دانا شخص تهے ہلکی سی مسکراہٹ آنکھوں میں ہمیشہ پنہاں رہتی تهی بارشوں کے دنوں میں دال آٹے کی بوری سیمنٹ کا تهیلا یا بڑے سے مومی کاغذ کو برساتی کوٹ (رین کوٹ) کے طور پر استعمال کرتے سردیوں میں اپنی اتنی پروٹیکشن کرتے کے ادهے گهر کے کپڑے خود پہن لیتے ایک دو ٹوپیاں ان کے اوپر پرنے سے مداسا لگا لینا ہاتھوں پر محکمہ برقیات والے داستانے اور پلاسٹک کے بڑے سے بوٹ پہن کر سودا لینے یا پہرہ دینے جاتے تو تب تک پہچانے نہ جاتے جب تک بولتے نہ.
آپ ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ پختہ عزم کے مالک بھی تهے اور پانچ وقت کے نمازی اور روزے سے رہنے والے تھے. آپ کی نماز باجماعت کا یہ عالم تها ایام بیماری میں بھی مسجد آتے نماز تراویح کا پورا اہتمام کرتے اور پوری بیس رکعت پڑهتے . پہلی رکعت کهڑے ہوکر ادا کرتے باقی بیٹھ کر .کمزوری اور بیماری کے باوجود بھی مذاق آپ کے لبوں پر مچلتی رہتی اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دن شام کی نماز کے وقت جماعت کے لیے اقامت کا چن منشی کو کہا ،( ہماری یہ کم علمی ہے یا ہم نے اس کو اپنا مذہبی حصہ سمجھ لیا ہے ہم دنیا جہان کی باتیں بڑی اونچی اونچی کریں گے ہر کام میں پہل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن جہاں مسئلہ نماز اقامت دعا آذان یا کلمے کا آ جاتا ہے وہاں بھاگیں گے دوسرے کو دهکا دے کر آگے کریں گے خود آگ نہ ہونے کا عذر پیش کریں گے جبکہ ہمیں ایسی جگہوں پر بڑه چڑه کر حصہ لینا چاہیے اگر کچھ غلط بھی ہو تو اصلاح ہو جاتی ہے) وہ کچھ ویسے ہی آستہ بولتے تهے تو اقامت کچھ اور ہی دهیمی ہو گی یہاں تک پاس کهڑا آدمی بهی نہیں سن سکتا تھا تو ولی جی کہنے لگے منشی آستہ، آستہ، کل وی رمضان سن کر آ گیا تها ( رمضان مسجد کے بلکل ساتھ جڑے گهر کے آدمی کا نام تھا لیکن جماعت سے اکثر ان کی نماز رہ جاتی تهی ) موقع محل کی مناسبت سے ولی جی نے یوں فقرہ کسا کے سب کی ہنسی نکل گئی لیکن جلد ہی ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روک لیا کہ مسجد میں ہنسنا منع ہے. ولی جی بات کہہ دیتے تهے لیکن ہنستے نہیں تهے اگر کوئی دوسرا ہنستا تو پوچهتے تهے کیا ہوا ؟
آپ درمیانے قد اور توانا جسم کے مالک تھے کڑتا تہبند اور سر پر پرنہ سردیوں میں کالا کوٹ جس کی پاکٹوں میں کشمش اور بهنے ہوئے چنے ہوتے تهے .داڑھی مبارک سرخ اور تیل سے چپڑی ہوتی کهانے پینے کے شوقین اور چسکورے تهے . آپ کی شریک حیات آپ کو کب اور کہاں داغ مفارقت دے گئی پتہ نہ چل سکا لیکن ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دوسری شادی بهی کی تهی لیکن ان کی رخصتی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان سے آپ کی کوئی اولاد ہے. تاہم زوجہ اول سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں. ایک بیٹا ملبوسات ڈریسر دوسرا ڈرائیور اور تیسرا شتربان ہوا. زندگی بس زندگی کی حد تک ہی چلتی رہی.
آپ کو آخری ایام میں فالج کا اٹیک ہوا اور یہی فالج آپ کی موت کا سبب بنا. آپ پہلے پہل کهنٹی سب بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے بعد ازاں جب بٹوارا ہوا تو اپ اپنے منجهلے بیٹے کے ساتھ سیری بازار آ گئے ڈاکخانے والے موڑ کے ساتھ ہی آپ کا گهر ہوتا تھا جو صرف ایک ہی تکون نما کمرے پر مشتمل تها آگے چهوٹا سا برآمدا تها فصیل کے طور پر کچی سی دیوار ہوتی تهی. لیکن اس وقت دلوں کی وسعت کچھ ایسی تهی کہ دو بہوئیں مع بچوں کے ایک ساتھ اس مکان میں رہتی تھیں. آج بهی وہ مکان پینٹر نعیم آرزو کی دکان کے بالمقابل ہے.

4:- اخوان اربعا
مولوی نذر محمد بابا سیف محمد کے چوتھے چراغِ چشم تهے آپ نہایت برگزیدہ انسان تهے آپ کو صوم و صلوٰۃ اور نعت خوانی سے خاص شغف تها . اکثر امامت اور موذن کے فرائض بهی آپ ہی انجام دیتے نہایت ہی تزکیہ نفس بزرگ تهے گفتگو میں حلیمی چال میں میانہ روی لباس میں نفاست آپ کا وصف تها . بھائیوں میں کیا بلکہ خاندان بهر میں آپ سا خوبصورت بزرگ کوئی دوسرا نہ تها . سفید رنگت پتلے نقش و نگار درمیانہ قد و قامت آپ کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے تهے ریشم سی سفید داڑھی سفید سر کے بال آنکھوں پر گول شیشوں والی نازک سی بصری عنیک حفاظتی تدابیر کے تحت فریم کے ساتھ اسودی ڈوری ہاتھ میں ہمہ وقت جسم ہی کی طرح کا نازک سا عصا پاوں میں برون چمڑے کا پلین کهوسہ جسم پر کبهی بادامی شلوار کڑتا کبهی لنگی اور سفید قمیض بعض اوقات سلکی دهوتی جس کی کناری پر نیلی لائینیں ہوتی اور بوسکی کی قمیض جس کا گلا سفید دهاگے سے کڑهائی کیا ہوا سلیٹی واسکٹ جسے آپ کوٹی یا بسکاٹ بهی کہتے تهے سر پر اکثر نماز والی ٹوپی رکهتے اور کبهی کبهار محمد علی جوہر والی گول ٹوپی رکهتے (جس دن گول ٹوپی رکهتے اس دن محسوس ہو جاتا کہ آج آپ کو کہیں جانا ہے) کاندھے پہ سفید ہی پرنہ رکهتے گلابی ہونٹ ہونٹوں کے اندر موتیوں جیسے دانت ہر وقت مسواک کیے ہوئے ہونٹوں کے اوپر پتلی سی مونچھوں کی لائین داڑھی خط کی ہوئی گویا آپ ہر وقت یوں رہتے جیسے کسی بارات کے ساتھ آپ کو جانا ہے. یا آپ کو یہ علم تها کہ صفائی نصف ایمان ہے. آپ کا زیادہ وقت یاد الہی میں گزرتا تاہم دنیاداری بهی خوب نبهانا جانتے تهے .
آپ کی عادت مبارکہ تهی کہ آپ آذان کے اول و آخر درود پاک پڑهتے ایک بار میرپور(لفظ میرپور سے یاد آیا کہ آپ میرپور کو دو حصوں میں بولا کرتے تھے یعنی میر.......پور اور اسی طرح لائلپور کو لائل .....پور کہتے تهے . یوں کہتے ہوئے آپ بہت پیارے لگتے تهے اور ہمیں یہ تجسّس پیدا ہوتا تها کہ یہ شہر ہم بڑے ہو کر ضرور دیکھیں گے. ) سٹاف کالونی کی مسجد میں آذان دینے لگے تو آپ نے حسب عادت دورد شریف پڑها وہاں کچھ لوگ ایسے تهے جن کو دودر شریف سے عادتاً الرجی تهی یا یوں کہہ لیں جن کے نصیب میں سننا نہیں تها انہوں نے اعتراض کیا تو آپ نے کہا میرا کام پڑهنا ہے میں پڑھوں گا اگر آپ کو کوئی مشکل ہے تو نہ سنا کریں آپ کے اس جواب سے ان لوگوں کو اور تکلیف ہوئی لیکن کچھ کہہ نہ سکے.
آپ دورد پاک چلتے پهرتے پڑهتے رہتے تهے فرض نماز کے بعد کلمہ طیبہ بلند آواز میں پڑهتے ،اس پر بهی بہت سوں کو تکلیف ہوتی لیکن آپ اپنے انداز میں چلتے رہتے.
آپ بچوں کے ساتھ بڑی شفقت کے ساتھ پیش آتے تهے یہی وجہ تهی کہ بچوں کی تعداد آپ کی جماعت میں زیادہ ہوتی تهی اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو آپ پہلے اپنے چہرے پر تبسم لاتے پهر اس کو پاس بلا کر کہتے ایسا ہو ہی جاتا ہے لیکن اچها کرنے کی کوشش کرنی چاہیے . مصنف کو آپ کی جماعت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل رہا اکیلے مقتدی کا امام کے دائیں کهڑا ہونا دوسرا مقتدی آ جانے کی صورت میں مقتدی کے ساتھ مل جانا انہی سے سیکھا ہوا ہے . کبهی کبهار نمازیوں کی کم تعداد پہ آپ کا دل کڑتا لیکن اس کے سوا اور کیا ہو سکتا . بعد نماز آپ کا قبرستان میں جانا روز کا معمول تها خاص کر بعد نماز فجر اہل قبور کی بخشش کی خوب دعائیں مانگتے کبھی اپنے لیے دعا مانگتے تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی کاندھے پر رکهے پرنے سے سرخ ہوتی ناک کو پونچھتے آنکھوں کی پتلیاں صاف کرتے کسی گہری سوچ کے بعد لمبا سا ہوکا بهرتے آخر پر توبہ استغفار کرتے ہوئے گهر چلے جاتے جہاں بیٹی رضیہ کو اپنا منتظر پاتے . پتہ ہوتا کہ دیر سے آنے پہ بیٹی کا گلہ سننا پڑے گا پہلے ہی کہہ دیتے سوچیا سی اشراق پڑهی تے جولاں فیر یاد آئی ریضیہ(رضیہ) رہ تکنی ہوسی . ہمیشہ کی فرمانبردار بیٹی ہنستے ہوئے کہتی پہاپا جی میں تے اس ماریاں رہ تکنی ساں کہ اچهو تے تساں کی نہاری کراں ، آلہ کینی آنو نالے آپوں وی کری کینو . بیٹی باپ کو ناشتہ کرتے اتنے غور سے دیکهتی کے جیسے آنکھوں میں فوٹو اتار رہی ہے. ناشتہ ختم ہی ہوتا تو گرم گرم چائے کی پیالی تهماتے ہوئے کہتی پہاپا جی آج یہ کوٹی اتار دیں وہ کیا ہوا بیٹی ، بس ذرا میلی جئ لغنی اے اج باناں جاساں تے اسکی وی تهوئی آنساں. آخو تساں باناں لغے جاسو تے میں کلہہ(اکیلا) کہہ کرساں ، تساں سوئی جائے میں کیڑا دیاڑ لاساں چہٹ مڑی اچهساں ، باپ بیٹی کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر بےجی بجیر سوچتیں کاش میرے پہاپا بهی زندہ ہوتے. مولوی جی کے گهر اور مسجد کے درمیان بس ایک قبرستان ہی کا حاطہ تها یا صوفی فقیر محمد ہوراں کا گھر تها جہاں ان کی بھتیجی فاطمہ رہتی تھی وہ بھی بہت زور دیتی کے چاچا جی ناشتہ کر لیں لیکن چچا جی اپنی بیٹی کا عذر پیش کرتے ہوئے کہہ دیتے ایکہ گل اے بس تساں کرو .
مولوی جی کو مولوی جی منڈی والے بھی کہا جاتا تها وہ اس لیے کے جہاں ان کا گهر تها وہ جگہ ایک دندا (کلف) نما تهی نیچے سے ایک گلی گزرتی جسے منڈی آلیے نی گہل کہتے ، گہل کے اوپر خط استوا پر بنے گهروں کو منڈی کہتے تهے، ان کے گھر سے لے کر باوا شیر کنی والوں کے گهر تک کے تمام گهروں کو منڈی کہا جاتا تها . یہ دو بهائی اسی منڈی پر رہتے تهے اس لیے ایک کو لالہ منڈی والے اور دوسرے کو چاچا منڈی والے کہا جاتا تها. اتفاق کی بات ہے کہ صوفی فقیر محمد جن کا گهر ان گهروں کے ساتھ جڑا ہوا تها اس گهر کو کبھی منڈی والے گهروں میں شامل نہیں کیا جاتا تها شاید وہ سطح مرتفع پر واقع تھا .
مولوی جی اکثر سفر کیا کرتے تهے میرپور اور لائلپور(فیصل آباد) ان کے بیٹے اور ایک بیٹی رہتی تهی ان سے ملنے جایا کرتے تھے . آپ کے جانے سے ان کے گھروں میں رونق آ جاتی . وہ بهی بہت آو بهگت کرتے مولوی جی کے تین چار ماہ نہ نہ کرتے بهی گزر جاتے واپس آتے تو ایک ایک پوتے پوتی کا نام لے کر زکر کرتے بڑا مزا تب آتا جب آپ پنجابی میں کہہ دیتے پپا ( نواسہ ذوالفقار) وی آندا ہوے گا . ان کے ساتھ بولتے بولتے کچھ الفاظ ایسے ازبر ہو جاتے کے پهر دیر تک وہی بولتے رہتے .
ایک بار آپ نے صبح کی نماز گول ٹوپی پہن کر پڑهائی تو مقتدیوں کو شک ہو گیا کہ آج مولوی جی کہیں جانے والے ہیں. ماسٹر مہندی جی اور صوفی بیرو جی نے پوچھا کہ ہج کدرے تیاری تے نئیں ،کہنے لگے ہاں آج میں بچوں کے پاس جا رہا ہوں کچھ دن میرپور رہ کر لائلپور چلا جاوں گا . آپ نماز کے بعد سب مقتدیوں سے ملے جو نہیں آئے تھے ان کے لیے سلام چهوڑا اور قبرستان تشریف لے گے دیر تک فاتحہ خوانی کرنے کے بعد گهر گے اتنی دیر تک کافی محلے دار اور برادری والے جمع ہو چکے تهے فرداً فرداً سب سے ملے اور عازم سفر ہوئے ؛ پتہ نہیں اس وقت ایسا کیا تها کہ گهر سے کہیں جانے والے کے ساتھ لوگ دور تک چلتے تھے اور جانے والا بهی کیا کیا باتیں کرتا کہ سارے سانسیں کهنیچ کر اس کو سنتے! صدیق پڑوسی نے بیگ اٹهایا اور دوسروں سے کچه تیز چلتے ہوئے سڑک کنارے کهڑا ہو گیا کہ گاڑی بھی روکنی ہے
مہینوں کو ہفتوں اور ہفتوں کو دنوں میں سمٹتے چلے گے فیصل آباد اپنے بیٹے محمد خان کے پاس تهے کہ گردوں کے ارضہ لاحق ہوا. ایک دو ماہ تک علاج کروایا کچھ آفاقہ ہوا تو رخت سفر واپسی کے لیے باندھ لیے. گهر آئے تهوڑے چلتے پھرتے لیکن کمزوری بڑه چکی تھی اس لیے بس منڈی سے ہی سیری کا نظارہ کرتے . کچھ دنوں کے بعد ہی آپ کے مثانے خراب ہو گئے تو اس بیماری کے باعث آپ کو پیشاب پر بھی کنٹرول نہ رہا علاج کے لئے ڈی ایچ کیو کوٹلی ایڈمٹ کرائے تمام دهیاں پتر دوہتر پوتر چوبیس گھنٹے ہسپتال رہتے ایک اشارے پر سب دوڑ کر حاضر ہوتے لیکن لکهے کو کون ٹال سکتا ہے آخر آپ کا وہ وقت آ ہی گیا جب آپ سب کو آہیں سسکیاں اور ہنجوں سونپ کر خود اللہ کی رضا پہ لبیک کہہ گئے.
آپ کی موت کی خبر چار چوفیرے آناً فاناً پهیل گئی ہر کوئی جہاں تها جیسا تها فوراً بهاگا لیکن جانے والے کب لوٹ آتے ہیں. جیسا ہوتا آیا ہے کہ مٹی کا پہلا بیلچہ وہی ڈالتا ہے جو سب سے قریبی ہوتا ہے بہت ہی پیارے بیٹوں نے ایک ایک بیلچہ ہی ڈالا تها کہ چار بیلچے بن گئے تهے جہاں اپنے مٹی ڈال دیں پهر دوسرے کب کسر چهوڑتے ہیں دیکهتے ہی دیکهتے مٹی کا اک ڈهیر سا بن گیا جسے بعد میں سارے پہاپے جی نی قبر کہنے لگے. مسجد سے آپ کو خاص محبت تهی اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں میاں بیوی کو بلکل مسجد کے ساتھ مسکن عطا فرمایا.
مولوی جی نے بڑے بھائیوں کی ریت توڑتے ہوئے صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کیا اور انہی سے آپ کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہوئیں سب اولاد ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی ثابت ہوئی، ایک نور چشم سرکاری افسر ہوئے باقی تینوں اپنے اپنے اکتساب پر رہے . ساری اولاد خوبصورت اچهے اخلاق شائستہ گفتگو اور اعلیٰ اوصاف کی عامل رہی . مولوی جی کے ایک نواسے کو پبلک ریلیشن آفیسر اور دو پوتوں کو حافظ قرآن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے . مولوی جی کے بعد پھر کسی نے ویسی آذان نہ دی آج بهی جب مسجد کا لوڈ اسپیکر ان ( on) ہوتا ہے تو آپ کی یاد ایسے ہی آ جاتی ہے جیسے بس اسی بٹن کے ساتھ ہی کنکشن تها.

5. اخوان خمسہ :-
صوفی اللہ دتہ اپنے بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھے . آپ بهی اپنے بڑے بھائیوں کی طرح باریش تهے لیکن لفظ صوفی صرف آپ سے منسوب تها آپ نہایت پهرتیلے جسم اور پهرتیلی طبع کے مالک تهے زمیندارا آپ کا پسندیدہ مشغلہ تها . سرخ اور سپید رنگت درمیانہ قد کلام میں سبکی اور دوران گفتگو مخاطب سے کم بلکہ دور دور نگاہ رکهنا آپ کے خصائل میں شامل تھا. تہبند اور قمیض زیب تن کرتے لیکن کہیں جانا ہوتا تو شلوار پہنتے سر پر اکثر چٹا پرنہ رکهتے لیکن خوشی غمی کے موقع پر کالی شینیل کی بنی ہوئی گول ٹوپی رکهتے جو آپ کے سفید بالوں اور سفید ہی چہرے کی وجہ سے اچهی لگتی . نماز روزے کے پابند تهے لیکن کبهی آذان دیتے نہیں سنا اور نہ ہی جماعت کراتے دیکها . عصر کی نماز کے بعد اکثر تلاوت قرآن پاک کرتے اس کے لیے دهپری ان کے لیے پسندیدہ جگہ تهی.
دهپری ایک چوبارہ نما مکان تها پہلے پہل اس کے آگے برآمدا نہیں تھا بعد میں نیچے والے کمرے کے آگے بڑے بیٹے عدالت کی ایماء پر برآمدا بنوایا تو کچھ اس طرح سے کہ اوپر والے کمرے کا ادها دروازہ برآمدے میں آ گیا اب برآمدے کی چهت سے اوپر والے کمرے میں جانے کے لیے بهی دو سٹیپ والی پوہڑی بنانا پڑی . اوپر والے کمرے کی عقبی دیوار میں لکڑی سے بنی کهڑکی لگی تهی جس کے کهلنے سے تازہ اور ٹهنڈی ہوا کا جھونکا اندر آتا تھا ایک تو کچے مکان ویسے ہی ٹهنڈے ہوتے تهے اس پر یہ کهڑکی اے سی سا کام دکهاتی تهی. اس لئے اپ اکثر یہاں بیٹھا کرتے تھے. کهڑکی کے ٹیڑھے میڑے آہنی راڈوں سے گذر کر آنے والے صبا کے جهونکے آپ کو کبهی ایسی راحت بخشتے کہ آپ تلاوت کے دوران ہی سو جاتے . جاگتے پهر بهی لمبی لمبی جمائیاں لیتے نیچے آتے مغرب کے لیے دوبارہ وضو کرتے . آپ پهونک پهانکا بهی کیا کرتے تھے خاص کر سر درد پر آپ کا دم بڑا پراثر ثابت ہوتا . لیکن دم کرانے والے کا صبر آزما مرحلہ وہ ہوتا جب آپ کچھ پڑهنے کے بعد اس پر پهونکتے زود اثر کرنے کے لیے ساتھ تهو تهو بھی کرتے جیسے حجام شیو کے بعد فوارے سے پانی مارتا ہو ، لیکن عقدت مند مریض وہ تهوک لعب شفا سمجھ کر اپنے چہرے پر خوب تهوکاتا. خاص کر وہ حصہ اور آگے کرتا جہاں درد ہوتا. بچے روتے ہوئے چپ نہ کرتے ہوں یا بهنیس دوده بروقت نہ دیتی ہو تو آپ کی دو پهونکیں ہی کافی ہوتی .
آپ کو کهیتی باڑی پر بهی عبور حاصل تھا آپ جانتے تهے کہ قمری مہینے کی کن تاریخوں میں کون سا بیج بویا جاتا ہے بہتر زرخیزی کے لیے گوبر کا کهاد استعمال کرتے تهے اس کے لیے آپ خود بڑا سا ٹوکرا اٹهاتے جس کے اندر پلاسٹک پیپر لگا ہوتا آپ اس میں گوبر اگهٹا کرنا شروع کرتے اس کے لیے آپ اپنے گھر کے سامنے سے لے کر نالا بان تک کا سفر منٹوں میں کر جاتے،(کرتے بھی کیوں نہ کہ اگر آپ سستی دکهاتے تو باوا سید آٹها کر لے جاتے دوسرا خطرہ بابے حسن دین کا بهی ہوتا) اور سارا گوبر اپنی باڑی میں ڈهیر کرتے پهر اس ڈهیر کو بهی چاند کی مخصوص تاریخوں میں ہی بکهیرا کرتے . آپ چونکہ سبک رفتار تهے اس لیے ہمیشہ پنجوں کے بل چلتے، چلتے چلتے منہ میں گرمی سردی کی وجہ سے اگر تهوک آ جاتا تو یوں تهوکتے کے دس گز دور جا کر گرتا .
آپ کو چائے بہت پسند تهی وہ بهی دوده کے بغیر آپ پیالہ بهر کر پیتے یہ عمل دن میں تین چار بار فرماتے . اگر کوئی مہمان آجاتا تو اس چائے کو اضافی نعمت سمجها جاتا . آپ دنیا کی ہر بات مانتے تهے لیکن چائے گرم اور نقصان دہ ہوتی ہے یہ ہر گز نہیں مانتے تهے ؛ ایک بار آپ ڈاکٹر شفیع صاحب کے پاس پیشاب کی زیادتی کی شکایت لے کر گے تو انہوں نے کچھ ادویات دینے کے بعد چائے کم کرنے کا مشورہ دیا . آپ نے غور سے ان کی طرف دیکها پهر دوائیاں وہی رکهی اور اٹھ کھڑے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے پوچها کیا ہوا ! آپ نے کہا تس ڈاکٹر او انہوں نے کہا جی ہاں آپ نے پوچها چائے نقصان دہ ہوتی ہے ڈاکٹر نے کہا جی ہاں. آپ نے کہا اے دوائیاں تے اے مشورے اپنے کول رکهو تے مڑی کسے کہ اے نہ آخے چاہ وی نقصان دہ ہونی اے.
آپ اپنی دهپری سے یوں مشہور ہوئے کہ جہاں بهی کوئی آپ کا نام لیتا وہاں دهپری ساتھ ضرور کہتا . اکثر ہوتا یوں ہے کہ جگہیں مکینوں سے مشہور ہوتی ہیں لیکن یہاں ایسا نہ ہوا بلکہ مکین جگہ سے مشہور ہوئے صوفی جی تقریباً ادهے خاندان کے ماموں خالو اور پهوپها تها لیکن سب ہی ان کو چاچا دهپری والے کہتے تھے اور آپ کی اہلیہ کو پوا (پهوپهو) دهپری والی کہتے تهے . ان کا تفصیلی ذکر" دهپری والوں کا کهنہار" میں گذر چکا ہے.
آپ وضو فرماتے اس کے بعد دیر تک داڑھی کا خلال کرتے رہتے سینے تک پهیلی ہوئی داڑھی بہت ہی خوبصورت لگتی. آپ اکثر چهوٹی چهوٹی باتیں بتاتے رہتے تھے گندم کتنے دنوں میں پک جاتی ہے چاند کی کون سی تاریخ کو درانتی ڈالنی چاہیے کاٹنے بیٹھیے تو مونہہ کس سمت ہونا چاہیے یہ ارشادات اکثر فرمایا کرتے تهے . آپ کی ان باتوں سے سنت کے مطابق کام کرنے کی توفیق بهی مل جاتی تهی اور فوائد بھی ان باتوں میں پوشیدہ ہوتے تهے. بعض اوقات معصوم سوالوں کا جواب بھی اس دور اندیشی سے دیتے کہ عقل دنگ رہ جاتی ایک دن آپ وضو کر رہے تھے کہ پاس کهڑے مرغ نے وضو کا پانی پیا میں اور ان کا بیٹا پہپی (خانود) پاس کهڑے مرغ کو دیکھ رہے تهے مرغ پانی کو چونچ میں لیتا اوپر دیکهتا اور پهر پانی کو حلق میں اتار لیتا . ایسا اس نے دو تین بار کیا تو میں نے پہپی سے پوچها مرغ ایسے کیوں کرتا ہے کہنے لگا پہاپے جی سے پوچهتے ہیں. میں نے کہا ٹھیک ہے تم پوچهو اس نے شرماتے ہوئے مونہہ پر ہاتھ رکھ کر کہا پہاپا جی زیبا پوچهنا اے ککڑ پانی پی تے مونڈی اپر کیاں کرنا اے . انہوں نے داڑھی میں انگلیاں پهیرتے ہوئے ہماری طرف دیکھا اور کہا تمہیں نہیں پتہ کہ مرغ ایسے کیوں کرتا ہے ہم دونوں نے بیک وقت کہا نہیں کہنے لگے یہ مرغ جب پانی منہ میں لیتا ہے تو اس کی تشنگی میں کمی ہو جاتی ہے تو یہ آسمان کی طرف دیکهتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے . یعنی آسمان کی طرف دیکهنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان یا حیوان ارض و سما کے مالک کی طرف اشارہ کر رہا ہے . ہم یہ جواب پا کر مطمئن ہو گئے ان کے اس جواب کے بعد میں نے بہت پڑھے لکهے لوگوں سے مرغ کی اس عادت کے متعلق پوچھا لیکن وہ اس طرح کا جواب نہ دے پائے. آج بهی جب کسی مرغ کو پانی پیتے دیکهتا ہوں تو آپ مع وضو اور اس جگہ کے یاد آ جاتے ہیں. آپ میں دوسرے بھائیوں میں سے ایک دو عادات ایکسٹرا تهیں ایک تو آپ حقہ اور سگریٹ کا شوق فرماتے تهے دوسرا آپ بڑی مونچھوں کو پسند کرتے تھے . حالانکہ آپ نے داڑھی بهی اپنے بهائیوں کی بانسبت بڑی رکهی ہوئی تهی لیکن اس کے ساتھ مونچھیں بهی ویسی ہی بڑی تهیں. غصہ بهی آپ کو دوسروں سے کچھ زیادہ تها لیکن اس سے بھی زیادہ آپ خوش موڈ رہتے تهے . گپ شپ میں بهی بڑی مہارت تهی .
زندگی کی انتہا آپ نے بهی بیماری کے باسبب کی میرپور بن خرماں ہی قیام پذیر تھے کہ اجل کو لبیک کہنے کا وقت آن پہنچا .
اپ نے بھی دو شادیاں کیں پہلی بیوی سے دو بیٹیاں اور دوسری سے چھ بیٹے ہوئے. دوسری زوجہ نے آپ کی وفات اور تین بیٹوں کی وفات کے دکھ جهیلے اور ابهی کہانی(یہی کہانی) مکمل نہ ہوئی تھی کہ آپ کی یہ زوجہ بھی اللہ کی پیاری ہو گئی یوں دهپری والی پوا اور چاچا دهپری کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گئے.
آپ کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے عدالت (جو کے آپ کا بڑا بیٹا تها) کو خوب عزت و شہرت سے نوازا اس برادری میں چیرمین عزیز بٹ کے بعد اگر کسی کا کوئی مقام تها تو وہ آپ کے بیٹے کا تها . عدالت ان لاکھوں کروڑوں میں سے ایک تها جو اپنوں سے زیادہ دوسروں کے کام آتے ہیں اس انسان میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیاں رکهی کہ وہ لاکھوں کی دعاؤں کا موجب بن گیا بہت سے بے سہاروں کا وہ سہارا بنا بہت سے غمزدوں کا غم خوار بنا اس کی نیکیوں کی گنتی مثل حاتم طائی ہے جن کا شمار شاید ہی کوئی انسان کر سکتا ہو . اس کی وفات اچانک برادری اور احباب کو ایسا دکھ دے گئی جس کا کسی سے مداوا نہ ہو سکا . اتنی خوبیوں والا جب بیگانوں کے دل لے گیا تو ماں کے جسم میں کیا چهوڑا ہو گا . آخر ماں اسی دن سے خالی مکان سی ہو گئی جس دن اتنی خوبیوں والا بیٹا داغ مفارقت دے گیا تھا.

اخوان ستہ :-
مولوی محمد نذیر بابے سیف محمد کشمیری کے آخری چشم و چراغ تهے. نہایت سرخ و سفید رنگت درمیانہ قد اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے چٹے سفید اور قدرتی خلا والے دانت آپ کے گلابی ہونٹوں میں ایسے ہی لگتے جیسے سرخ دهاگے میں کسی نے موتی پرو دیے ہوں .مولوی نذر محمد جی کے نہ صرف ہمسایہ تهے بلکہ امامت کے فرائض میں بهی آپ ان کے معاون اعلیٰ تهے مولوی جی کی عدم موجودگی میں آذان و صلوٰۃ آپ ہی کی ذمہ داری میں تهی . آپ ماشاءاللہ کافی بلند آواز رکهتے تهے سپیکر کے بغیر بھی آپ کی آذان پارلہ موڑا اور گیائیں تک سنائی دیتی تھی. آپ بچوں کو درس بهی دیتے یہ کام آپ اور آپکی اہلیہ مل کر انجام دیتے .
پنوں مغل اور چن منشی کا شمار آپ کے صف اول کے متعلمین میں ہوتا ہے. آپ میں آپ کے بڑے بهائیوں والی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور موجود تهی جیسا کہ طویل سفر پیدل کرنا بهائی غلام قادر، ناک اور ہونٹوں سے غصہ ظاہر کرنا بهائی سخی محمد، امامت اور آذان بهائی نذر محمد، ہنسی مذاق بهائی حسن محمد، زمینداری، سبک رفتاری اور پهونک پهانکا بهائی اللہ دتہ سی صفات آپ میں شامل تهیں. آپ کی پسندیدہ نعت "نمی نمی چولدی ایں پرے دی ہواے نی آکهی نبی پاک تائیں روزے تے بلائے نی" تهی یہ نعت پڑهتے ہوئے آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے . آپ جب کہتے چٹے چٹے دند والا حبشی بلال سی رتبہ اہدا بڑا ہی کمال سی تو اس کے ساتھ آپ "حق" کی لمبی سی جلی لگاتے چوہدری شیر محمد گردن جهکا کر آنکھیں بند کیے نعت سن رہے ہوتے تو حق کی آواز پر وہ کانپ کر اوپر دیکهتے اور پهر حق کہتے ہوئے دوبارہ گردن جھکا لیتے مولوی ارشاد اور حاجی طیفا دونوں ایک جرجری سی لیتے اور دوبارہ بحر فکر میں غرق ہو جاتے. آپ نعت کے پہلے اشعار کا اعادہ فرماتے اور تمام سامعین آپ کے چہرے کی طرف دیکهتے جو دہکتے انگارے کی طرح سرخ ہو چکا ہوتا. آپ نعت پڑھتے ہوئے یوں مسجد کے کونوں اور چهت کی طرف دیکهتے جیسے آپ کی مطلوبہ منزل یہی کہیں ہے یا جس کو پیغام بهیج رہے ہیں وہ ابهی کسی کونے سے نکل کر سامنے آ جائے گا.
آپ نے زندگی کسمپرسی میں گزاری لیکن ہمیشہ خدا کو یاد رکها . آپ اپنی زندہ دلی سے یوں مفلسی کو شکست دیتے کے مفلسی بهی شرمندہ شرمندہ ہو جاتی . تھوڑی سی کهیتی باڑی سے جو حاصل ہوتا اسی پر اکتفا کرتے .آپ کی ایک شادی ہوئی اور بہت ہی مختصر سی اولاد ہوئی یعنی ایک بیٹی اور ایک ہی بیٹا ان دونوں کی دو دو شادیاں ہوئی اور دونوں کی دوسری ہی شادی سے اولادیں ہوئی بیٹے کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں یعنی اللہ نے ایک سے چه کر دکهائے . آپ کو بهائی نذر محمد کی طرح یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ آپ تین حفاظ کے دادا بهی تهے. آپ کا وہ پیغام آپ کی پیامبر ہوا شاید اس دنیا میں نہ پہنچا پائی جو اکثر اس کو دیا کرتے تھے ..........آکهی نبی پاک تائیں روزے تے بلائے نی.
آپ کا بیٹا اسلم جو نانگا فرم کے نام سے مشہور ہوا وہ بهی آپ کی طرح ہنس مکھ اور رضا الہی پر شاکر رہنے والا تھا کینسر کا مریض ہونے کے باوجود چہرے پر ہر وقت تبسم رکهتا تها تکلیف کے دنوں میں بھی کوئی عیادت کو جاتا تو ہنستا ہوا لوٹتا ہر کوئی نانگا فرم کی زندہ دلی کی بات کرتا . نانگا نانگا ہی ہے کہ ہر بات ہنس کر کرتا ہے بیشک یہ انہی لوگوں کا شیوا ہے جو اللہ کی قدرت پر کامل یقین رکھنے والے ہوں.
آپ بهی منڈی پر ہی مقیم تهے کوئی بیماری ہی بہانہ موت بنی اور آپ سدا کے لیے کوچ کر گئے. آپ چهوٹے تهے اور ہر لحاظ سے ہی دوسروں سے چهوٹے رہے. شادیاں دولت اولاد حتیٰ کہ عمر بهی کم ہی پائی.
آپ لباس میں دهوتی اور کڑتا استعمال کرتے سر پر ٹوپی رکهتے اور کندهے پر سفید رومال رکهتے اگر کہیں جانا ہوتا تو شلوار قمیض پہنتے کالے سے تسموں والے بوٹ صرف سفر کے لیے ہی وقف تهے . آپ سے بهی قبرستان کا فاصلہ بس دو گهروں کی مختصر مسافت پر تها جسے پلک جھپکتے ہی طے کر گئے.
سیری نالا بان کے پانیوں نے سیری کے کیا کیا رنگ دیکهے ان کا شمار اتنا ہی مشکل ہے جتنا نیکو کاروں کی نیکیوں کو شمار کرنا مشکل ہے . تا ہم بہتی بان ہم سے ہمارے بزرگوں کی یادیں چهیننے میں ناکام رہی بلکہ اس کے ہلکی ہلکی لہریں یادوں کو اور مہمیز کرتی رہی .
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 55958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.