محبت چار دن
(Farheen Naz Tariq., Chakwal)
وہ روز گلی کی نکڑ پہ کھڑا اسے سکول سے
لوٹتا دیکھتا تھا وہ اسے بہت پسند کرنے لگا تھا بہت ہمت کر کے آخر اس نے
گلی سے گزرتے اس کے پیروں میں رقعہ پھینک دیا اب وہ ڈر بھی رہا تھا اگر اس
نے وہ رقعہ اپنے باپ بھائی کو دکھا دیا تو ... محبت پر خوف بھاری آرہا تھا
ایک پورا دن اسی خوف میں گزر گیا جب پورا دن کوئی اس کو مارنے پیٹنے نہ آیا
تو وہ بہت ہمت کر کے دوسرے دن پھر صبح صبح اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا اس کا
انتظار کر رہا تھا وہ آئی اور گزر گئی اس کے مہکتے دوپٹے کا آنچل دور تک
کرنیں بکھیرتا جا رہا تھا اس کے گزر جانے کے بعد اشرف نے مایوس ہو کر سر
جھکا لیا قریب تھاکہ وہ وہاں سے گزر جاتا کہ اس کی نظر اپنے پاؤں میں پڑے
معطر رنگین چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑی اس نے اٹھا کر دیکھا اس پر اک فون
نمبر درج تھا اور دل کے نشان کے اندر سنبل لکھا تھا اس نے خوشی سے جھومتے
کئی بار اس کاغذ کو ناک سے لگا کر اس کی مہک محسوس کی سارا دن آوارہ گردی
کرتے اور اس کی واپسی کا انتظار کرتے گزر گیا واپسی پر وہ اکیلی تھی آج اس
کے ساتھ اسکی سہیلی نہیں تھی وہ اس کی طرف بڑھ آیا آج رقعہ زمین پر پھینکنے
کی بجائے سرخ مہکتے گلاب کے ہمرہ اسکے ہاتھ میں تھما دیا وہ ادا سے مسکراتی
گلاب تھام کر آگے بڑھ گئی -
چڑھتی جوانی کے جوش میں اسے کسی لڑکے کا خود کو ہمیت دینا بہت اچھا لگ رہا
تھا وہ فون پر آدھی رات تک باتیں کرتے کبھی کبھی وہ موبائل سکول لے جاتی
اور یوں رات کو باتھ روم میں چھپ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے کی بجائے وہ
کلاسز بنک کر کے اس سے رومانس بگھارتی رہتی وہ خود تو پہلے ہی سکول سے
بھاگا ہوا تھا سارا دن آوارہ گردی کرنے کے سواء کوئی کام دھندا نہ تھا اکثر
سکول بنک کر کے وہ گھومنے نکل جاتے نتیجہ جلد ہی نکل آیا سکول کے پری بورڈ
امتحانات میں فیل ہوجانے اور بہت زیادہ غیر حاضریاں کرنے کی بدولت اسے سکول
سے نکال دیا گیا اب تو انکی چاندی تھی وہ سکول جانے کے لیئے تیار ہو کر اس
کے ساتھ یہاں وہاں نکل کھڑی ہوتی جلد ہی دونوں کے گھر والوں کو معلوم ہو
گیا اور ان پر پابندیاں لگ گئی سنبل کوگھر سے نکلنے سے روک دیا گیا اشرف کو
اس کے باپ نے کریانہ کی دکان پہ بٹھا دیا اب موبائل فون انکی واحد ملاقات
تھا وہ اسے بیلنس بھروا دیتا رات رات بھر فون پر باتیں کرتے رہنے سے
کمخوابی کے آثار نمایاں تھے کام دھندا عدم توجیہی کا شکار تھا- بالآخر اشرف
کے ماں باپ اس کی حالت اور ضد سے تنگ آکر سنبل کے گھر رشتہ لے گئے جسے فورأ
مسترد کردیا گیا - اس کی کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس نے عین
نکاح کے وقت رشتے سے انکار کر دیا جس پر اس کے باپ نے غصے میں آکر اشرف کے
گھر والوں کو بلا کر دونوں کا اسی شام نکاح پڑھوا کر دو جوڑوں میں رخصت کر
دیا ساتھ ہی دوبارہ اپنے گھر قدم نہ رکھنے دینے کی تلقین بھی کر دی گئی -
اشرف کے گھر بھی اس کا خاطر خوہ استقبال نہ ہوا وہ بھی محض دشمنی سے بچنے
اور بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر اسے بیہ لائے تھے مگر اس رشتے پر دل سے راضی
نہ تھے مگر ان دونوں کو پروہ نہ تھی انہیں تو گویا ہفت اقلیم کی دولت میسر
آئی تھی دونوں ہواؤں میں اڑتے پھر رہے تھے مگر کچھ ہی دن میں دونوں کے گن
کھلنے لگے اشرف دکان بند کیے گھر بیٹھا رہتا اور سنبل بھی گھر میں کسی کام
کو ہاتھ نہ لگاتی کچھ مہینوں تک تو پکا پکایا کمرے میں آتا رہا اور وہ محبت
کی پر فریب وادیوں میں غوطے کھاتے رہے مگر جب دو سال بعد بھی یہی معمول رہا
تو گھر میں فساد سر اٹھانے لگے بہنوں نے گھر کے کام سے اور بھائیوں نے کما
کر ان ہڈ حرام میاں بیوی کو کھلانے سے صاف انکار کر دیا ماں باپ نے جب گھر
کا ماحول بگڑتا دیکھا تو ان پر سختی کرنے لگے مگر دونوں پر ہنوذ کوئی اثر
نہ ہوا جھگڑے بڑھتے گئے اور بالآخر انہیں گھر چھوڑ کر کرائے کے مکان میں
جانا پڑا اب ان کے صحیح معنوں میں چودہ طبق روشن ہوئے تھے محبت کے چونچلوں
کی جگہ کرائے اور قرض والوں کے جھگڑوں نے لی تو اشرف جا اپنی دکان پہ بیٹھا
جو اس کی عدم توجیہی کا شکار ہو کر اب گہکوں کی عدم توجیہی کا شکار ہوچکی
تھی راشن پانی گھٹنے لگا جھگڑے ہونے لگے بھوک کی بدولت بچے کی ریں ریں نے
سنائی دیتی رہتی محبت کی رہ کے ساتھی اب مشکل کی رہ میں اک دوسرے کا ساتھ
دینے سے کنی کترانے لگے سکھ کے ساتھی تو بہت ہوتے مگر دکھ میں ساتھ کوئی
کوئی ہی دیتا ہے - وہ اس دن جھگڑ کر گھر سے نکلا تھا - " تجھ بدبخت کی شکل
دیکھ کر مت مار ی گئی تھی کہ آج فاقوں مرنے کی نوبت آگئی ہے-" اتنی کہتا وہ
تو گھر سے نکل گیا اور وہ بچہ اٹھائے اپنی سہیلی کے گھر جانے کے لیئے نکلی
کہ اور ہر جگہ کے دروازے تو وہ اپنے لیئے بند کر چکی تھی ابھی دو قدم ہی
چلی تھی کہ سامنے والے گھر کے عمار صاحب نے اس کا راستہ روکا وہ ان کی بک
بک جھک جھک سنتے رہتے تھے اور ان کے گھریلو حالات پہ اپنا الو سیدھا کرنے
کے چکر میں تھے اس نے رک کر دو پل سوچا عمار صاحب ثروت بال بچے والے آدمی
تھے اور وہ اب بھی اتنی ہی خوبصورت - اگر دونوں اک دوسرے کے کام آسکتے تھے
تو کیا نقصان تھا - اب اس کا گھر اجناس سے بھرا رہتا اشرف کو پہلے پہل گھر
کی ریل پیل دیکھ کر حیرانگی ہوئی پھر دکھ ہوا مگر جب وہ اس کی عیاشیوں کے
لیئے سگریٹ پانی کے لیئے چند پیسے اسے تھمانے لگی تو وہ بھی بنا سنورا
گھٹیا سا چشمہ لگائے گلیوں میں یہاں وہاں پھرتا آتی جاتی لڑکیوں پر آوازیں
کستا پایا جاتا- اور سگریٹ ،پان کے ٹھیلوں پر منڈلاتا اور لڑکیوں کے نمبروں
پر بیلنس بھرواتا گپیں ہانکتا رہتا اک دوسرے کے معمول میں دخل دینے کا کس
کے پاس وقت تھا اور اگر اک دوسرے سے کبھی سامنا ہو جاتا تو بوڑھے کرگس جیسی
فریبی ہنسی ہنس کر نظریں چرا جاتے- |
|