آج سے تقریبا پندرہ۔۔۔ بیس سال پہلے شہر کراچی میں ہر محبت و بھائی چارے کا دور
دورہ تھا۔ لوگ آپس میں محبت سے اور ایک فیملی کی طرح رہتے تھے۔ایک دوسرے کے دکھ
درد کا خیال رکھتے تھے۔ محلے میں کبھی کوئی بزرگ ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے اور ہم
روتےہوئے گھر آتے تھے تو گھر میں اور ڈانٹ پڑتی تھی۔ ایک دوسرے کے عزتوں کے
محافظ ہوتے تھے۔ بڑے چھوٹے کا ادب کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ روزی۔ روزگار و
رزق میں بےانتہا برکت تھی۔ کھانے میں ذائقہ ہوتا تھا۔ کبھی کسی گھر میں دال
بگھاری جاتی یا شام کی چائے بنتی تھی تو چار پانچ گھر دور تک اس کی خوشبو معلوم
ہو جاتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب سے انڈین فلمیں اور ڈرامیں کیبل و ڈش کے
ذریعے تقریبا ہر گھر میں (میرا گھر الله کر شکر ہے اس میں شامل نہیں ہے) پہنچی
ہیں اس وقت سے کراچی شہر میں مندرجھ بالا روایتیں ختم ہو گئی ہیں۔
لوگ ایک دوسرے سے بدظن ہو گئے ہیں۔ عریانیت نے گھروں سے نیکی کے فرشتوں کو نکال
باہر کیا اور شیطان نے نہیں بلکہ شیطانوں نے ڈیرے جمالئے ہیں۔ جن گھروں میں صبح
ہی صبح نماز پڑھی جاتی تھی۔ قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی تھی۔ اب ان گھروں سے
بلکہ ہر گلی کوچے سے صبح ۔شام و رات تک گانے بجانے کے آوازیں آتی ہیں۔
انڈین ڈرامیں انتہائی پابندی سے دیکھے جانے کے باعث ہم ایک دوسرے کے ساتھ مخلص
نہیں رہے۔ جو دل ایک دوسرے کی محبتوں میں دھڑکتے تھے اب بغض و کینہ سے بھرے پڑے
ہیں۔ایک دوسرے کے لئے جو خلوص ومحبت تھی وہ ختم ہو کر اغراض سے بھر چکی ہے۔
ایمانداری کافی حد تک خاتمہ کر کے بےایمانی نے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ مذہب سے دور
ہوتے جارہے ہیں۔ روزگار کے معاملے میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ رزق میں برکت و ذائقہ ختم ہو چکا ہے۔
ایک دوسرے کی عزتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
مگر ایک بات طے ہے کہ ابھی چند لوگ یا چند نیک خاندان ابھی نیک ہیں جہاں اس
برائی کے قدم نہیں پہنچ سکے ہیں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله تعالی ٰآئندہ بھی محفوظ رکھے۔ آمین ثمہ آمین
آخر میں میری تمام درد مند پاکستانیوں سے پر زور اپیل ہے کہ اس ناسور کو جڑ سے
ختم کرنے کا عہد کریں۔ اس ناسور کو اپنے اپنے گھروں سے نکال باہر پھینکیں۔ تاکہ
ہماری زندگیوں میں سکون آئے۔ اور ہماری زندگیوں میں پہلے والا دور واپس آجائے۔
اور اس بات کا بھی عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی میں اسلام کو سختی سے رائج
کرینگے۔ |