شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بیعت
اور اس سے متعلقہ مباحث کے موضوع پر ایک بے مثل کتاب’’القول الجمیل فی بیان
سواء السبیل‘‘تحریر کی ہے اس کتاب میں شاہ صاحب نے بیعت کی حقیقت، اس کی
اقسام، سنت سے اس کا ثبوت اور دیگر متعلقہ مسائل و مباحث پر بالتفصیل روشنی
ڈالی ہے۔ اس کتاب میں بیعت کی متعدد اقسام ذکر کی گئی ہیں، جامعیت کو مدنظر
رکھتے ہوئے ان تمام اقسام کو تین قسموں میں ذکر کیا جا سکتا ہے(۱)بیعت
خلافت (۲)بیعت طریقت(۳)بیعت جہاد، بیعت خلافت اسلام کے شروع دور تک باقی
رہی بعد ازاں جب نظام خلافت کمزور ہوایا بالکل ختم ہوگیا تب یہ بیعت رفتہ
رفتہ ختم ہو گئی اورجب تک اس بیعت کا طریقہ رائج رہا اس وقت’’بیعت
طریقت‘‘اس بنا پر رواج نہ دی گئی تاکہ بیعت خلافت سے اشتباہ پیدا ہو کر
خلفاء واہل حکومت سے ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو،مگر جب یہ نظام ہی اہل سلطنت
سے رخصت ہوگیا تب صوفیاء کرام اور صاحبان اصلاح وتربیت نے ’’سنت بیعت‘‘ کو
قائم رکھتے ہوئے ’’بیعت طریقت‘‘ کو جاری کیا۔ اس سے قبل صوفیا کے ہاں ’’خرقہ‘‘کو
بیعت کا قائم مقام ٹھہرایا گیا تھا۔ یوں اس وقت سے لے کر آج تک یہ بیعت اہل
تصوف کے ہاں چلی آرہی ہے۔ اگرچہ بہت سے نااہل مداریوں نے بھی اس سے جگاڑ
لگانے کی کوششیں جاری رکھیں مگر اس سلسلے کے ’’صادقین‘‘ بھی ہر زمانے میں
رہے ہیں اور سعادت مند روحوں نے کہاں کہاں سے پہنچ کر ان سے استفادہ کیا
اور اپنی ہمت واستعداد کے بقدر اپنے دامن میں سعادتیں سمیٹیں۔بیعت طریقت سے
جو سلاسل طریقت وجود میں آئے ان کی ذیلی شاخیں تو بے شمار ہیں البتہ ان میں
چار سلسلوں کو اللہ رب العزت نے خاص مقام قبولیت اور اعزاز جامعیت سے
نوازا،یہ چاروں سلسلے قادریہ،چشتیہ،نقش بندیہ اور سہروردیہ کے ناموں سے
مشہور ہیں ۔ سلسلہ قادریہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر الجیلانی قدس سرہ
کی جانب ،سلسلہ چشتیہ حصرت شیخ معین الدین چشتی کی جانب، نقش بندیہ حضرت
شیخ بہاؤالدین نقش بندی کی جانب اور سہروردیہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروری
کی جانب منسوب ہے۔ یاد رہے ان چار میں سے نقش بندیہ کے سوا باقی تینوں
سلسلے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی وساطت سے نبی کریمﷺ سے جا ملتے
ہیں جبکہ نقش بندی سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے واسطے کے علاوہ حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بھی نبی کریمﷺ سے متصل ہے۔
بیعت کی تیسری قسم بیعت جہاد ہے۔ یہ بیعت بھی نبی کریمﷺسے ثابت ہے اور اس
بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں ۔ فتح الجواد جلد چہارم میں اس موضوع پر
چہل حدیث کا ایک مجموعہ موجود ہے۔ ہم یہاں اپنے موضوع سے متعلق چند احادیث
کا ترجمہ پیش کرتے ہیں جن میں بیعت جہاد کا واضح ذکر موجود ہے۔
حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنے
بھتیجے کو لیکر حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!ہمیں ہجرت پر
بیعت فرما لیجئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہجرت تو ہجرت والوں کے ساتھ گزر گئی
میں نے عرض کیا پھر آپﷺ ہمیں کس چیز پر بیعت فرمائیں گے ارشاد فرمایا اسلام
اور جہادپر۔(بخاری)
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ
سے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!میرے والد کو ہجرت پر بیعت فرما لیجئے تو رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ میں ان کو جہاد پر بیعت کرتا ہوں ہجرت تو
ختم ہو چکی ہے۔
حضرت ابن الخصاصیہ(بشیر بن معبد)رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ
کی خدمت میں اسلام کی بیعت کرنے حاضر ہوا تو آپﷺ نے میرے سامنے یہ شرائط
رکھیں۔
*اس بات کی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت
محمدﷺاللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
*پانچ وقت کی نماز یں ادا کرو گے۔
*رمضان کے روزے رکھو گے۔
*زکوٰۃ ادا کرو گے۔
*جہاد فی سبیل اللہ کرو گے۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ان میں سے دو چیزوں کی میں طاقت نہیں رکھتا
ایک تو زکوٰۃ کیونکہ میرے پاس چند بکریوں اور تھوڑے سے مال کے سوا اور کچھ
نہیں اور ان سے میں اپنے گھر والوں کی ضروریات کا انتظام کرتا ہوں اور
دوسری جہاد کی(استطاعت نہیں رکھتا)کیونکہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ جو شخص
جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوتا
ہے مجھے اندیشہ ہے کہ قتال کے وقت میں موت سے ڈر جاؤں اور میرا نفس گھبرا
جائے (اور میں بھاگ جاؤں)فرماتے ہیں(یہ بات سنکر)رسول اللہﷺ نے ان کا ہاتھ
پکڑا اور اسے بلایا اور پھر ارشاد فرمایا نہ صدقہ نہ جہاد تو پھر جنت میں
کس چیز کے ذریعہ داخل ہو گے(یعنی نہ مال کی قربانی نہ جان کی تو پھر جنت
کیسے ملے گی)فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ(میں ان تمام چیزوں
پر)آپﷺ سے بیعت کرتا ہوں پس آپﷺ نے مجھے ان تمام چیزوں پر بیعت
فرمالیا۔(السنن الکبریٰ،البیہقی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہﷺخندق کی طرف تشریف لے گئے آپﷺ
نے ملاحظہ فرمایا کہ مہاجرین اور انصار سردی میں صبح سویرے خندق کھود رہے
ہیں ان کے پاس غلام نہیں تھے جو ان کی طرف سے کام کرتے جب آپﷺ نے ان کی
تکلیف اور فاقے کو دیکھا تو فرمایا
اللھم ان العیش عیش الآخرۃ
فاغفر للانصار والمھاجرۃ
تو صحابہ کرام نے اس کے جواب میں یہ کہا:
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجھاد ما بقینا ابدا
’’یا اللہ،زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت
فرمایئے‘‘صحابہ کرام نے جواب میں عرض کیا ہم وہ ہیں جنہوں نے محمدﷺ سے جہاد
پر بیعت کی ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔(بخاری)
رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا : اب ہجرت نہیں رہی اب جہاد ہے
اور نیت اور جب تم سے جہاد میں نکلنے کے لیے کہا جائے تو نکل پڑو۔(صحیح
مسلم)
دنیا میں جب سے اقوام مغرب کو عروج حاصل ہوا اور ان کے زیر سایہ پروان
چڑھنے والے اسلام کی علمی وفکری بنیادوں پر یلغار کرنے والے طبقۂ مستشرقین
کی جانب سے جو اعتراضات اسلامی احکام وفرائض پر کیے گئے ان میں ایک زیادہ
اٹھایا جانے والے سوال یا اعتراض یہ بھی تھا کہ اسلام تلوار کے زور پر
پھیلا ہے ان کے اس اعتراض کے جواب میں علماء اسلام نے مختلف اسلوب اختیار
کرتے ہوئے مختلف جوابات دیئے البتہ ایک طبقے نے ایسا اسلوب اختیار کیا جس
سے ان کی مرعوبیت واضح ٹپکتی ہے ہم یہاں اصلاً اس بحث میں نہیں جانا چاہتے
بلکہ اسی حوالے سے شاہ صاحب کی مذکورہ بالا کتاب میں موجود ایک نکتے کی
جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں جو اگرچہ ضمنی طور پر لایاگیا ہے مگر اس موضوع
کی بہت سی گرہیں کھول دیتا ہے شاہ صاحب نے بیعت کی جو اقسام ذکر کیں ان میں
ایک’’بیعت اسلام‘‘ ہے جو شروع دور میں ہی متروک ہو گئی تھی، اسی پر پیدا
ہونے والے ایک سوال کہ بیعتِ اسلام خلفاء راشدین کے دور میں کیو ں ترک
ہوگئی تھی ؟کا جواب دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
وکانت بیعۃ الاسلام متروکۃ فی زمن الخلفاء ،امافی زمن الراشدین منہم فلان
دخول الناس فی الاسلام فی ایامہم کان غالبا بالقہروالسیف لا بالتا لیف
واظہارا لبرہان ولا طوعأ ورغبۃ
’’اور مسلمان ہونے کی بیعت خلفاء کے زمانہ میں متروک تھی۔ خلفائے راشدین کے
وقت میں بیعت اسلام اس وجہ سے متروک تھی کہ ان کے زمانے میں لوگوں کا اسلام
میں داخل ہونا قہر وتلوار کے سبب تھا،تالیف قلوب اور اظہار دلیل کے ساتھ
نہیں اور نہ ہی اپنی خوشی اور رغبت پر تھا۔(القول الجمیل مترجم۱۹)
ہو سکتا ہے کسی صاحب کو یہ عبارت بہت تعجب خیز محسوس ہو اور اس کے ذہن میں
کئی سوال ابھریں لیکن جنہیں علم کی حقیقت سے کچھ حصہ ملا ہے ان کے نزدیک یہ
عبارت بالکل بے غبار ہے اور مبنی بر حقیقت ہے ۔ خلفاء راشدین کے دور میں
ہزاروں،لاکھوں افراد پر مشتمل’’جہادی قافلے‘‘ اس کی واضح دلیل ہیں۔ اگرچہ
اس سے انکار نہیں کہ جب جہاد اور تلوار کی طاقت سے سرکشوں کا سرکچل جاتا
اور وہاں کے لوگ ابتداء اسی تلوار کی قوت کی برکت سے اسلام قبول کرتے اور
پھر رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات کی حقانیت ہی انہیں اپنا گرویدہ بنالیتی مگر
چونکہ اس کا سبب تلوار تھی اس لیے شاہ صاحب نے درج بالا بے غبار جملہ تحریر
کیا۔
گزشتہ احادیث سے’’بیعت جہاد‘‘ کی مشروعیت ،اہمیت اور افادیت وبقاء واضح ہو
چکی ہے۔ نیز بیعت جہاد کی اہمیت کا اندازہ خود جہاد کی اہمیت سے لگایا جا
سکتا ہے۔ جب جہاد کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ اسے اسلام کی چوٹی کا عمل قرار
دیا گیا،قرآن کریم کی متعدد مکمل سورتیں اسی جہاد کے احکامات پر مشتمل ہیں
،خود نبی کریمﷺ نے اپنے آخری صرف دس سالوں میں۲۷ غزوات میں حصہ لیا اور ۵۶
سرایا روانہ کیے۔ اسلام کی نشرواشاعت، اسلامی احکامات کا نفاذ واجراء اور
مسلمانوں کا تحفظ وآزادی اسی جہاد سے وابستہ ہے تو پھر بیعت جہاد کی اہمیت
اور پھر اسی بیعت کو نبھانا اور امیر جہاد کو دیا ہوا عہد وپیمان پورا کرنا
نہ صرف اپنے ذاتی فوائد اور اجروثواب کے حصول کیلئے ضروری ہوگا بلکہ مندرجۂ
بالا مقاصد اصلی کے حصول کیلئے بھی ضروری ہوگا اور اگر اس عہد وپیمانِ کے
ایفاء میں کمزوری دکھلائے یا اس عہد وپیمان جہاد کو توڑ دیا جائے تو نہ صرف
بیعت توڑنے کا وبال سر پر پڑے گا بلکہ مندرجۂ بالا مقاصد اصلی کے حصول میں
درآنے والی کمی ونقصان کا وبال بھی سر ہوگا ۔ عدم اطاعت کی اسی قباحت
وشناعت کو جتلانے کیلئے حدیث میں امیر کی اطاعت کو نبی کی اطاعت اور امیر
کی نافرمانی کو خود نبی کریمﷺ نے اپنی نافرمانی قرار دیا کیونکہ اگر اسلامی
لشکر کے سپاہی بیعت جہاد کے تقاضوں سے واقف نہ ہوں اور ان تقاضوں کے پورا
کرنے میں وہ تخلف سے کام لیں تو جہاد کے فوائد کس طرح حاصل ہوں گے؟ ایک
جہادی لشکر کی مضبوطی ودلجمعی اور طاقت وغلبے کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہیں
ایک اہم سبب امیر جہاد سے کی ہوئی بیعت پر متفق ہونا،اس کی امارت پر
اطمینان وشرح صدر ہونا اور اس کی اطاعت کا والہانہ جذبہ ہے ۔ جب کسی جماعت
ولشکر میں یہ صفات موجود ہوں تو تب وہ کم تعداد اور قلت اسلحہ وغیرہ کے
باوجود پہاڑوں کو قدموں تلے روندتے اور سخت سے سخت چٹانوں کو ریزہ ریزہ
کرتے اپنی منزل پالیتے ہیں۔
بیعت جہاد سے بہت فوائد وابستہ ہیں اور ان فوائد کا حصول بیعت جہاد ہی سے
بکمال حاصل ہو سکتا ہے ۔ اتفاق واتحاد اسی بیعت کا مرہون منت ہے اور بعض
اوقات کسی اہم معاملے میں مختلف آراء وتجاویز کے پیش نظر کسی ایک تجویز
ورائے کو متعین کرنا مشکل ہوتا ہے اندریں صورت ایک ایسے صاحب اختیار کا
ہونا ضروری ہے جس پر تمام اصحاب جماعت متفق ہوں اور اسے حتمی فیصلے کا
اختیار ہو اور ایسا شخص امیر جہاد ہی ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ تمام اصحاب نے
بیعت کا عہد وپیمان دیا ہو۔ اسی طرح مختلف باصلاحیت افراد انفرادی سطح پر
کارخیر کی جو کوشش اور تگ ودو کریں اپنے تمام تر فوائدو ثمرات کے باوجود اس
میں اجتماعیت والی شان پیدا نہیں ہو سکتی،اجتماعیت کی شان پیدا کرنے اور
انہیں حسب مکان وضرورت اور حسب صلاحیت واستعداد اجتماعی دھارے میں اپنی
خدمات پیش کرنے کیلئے ایک ایسے امیر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا پڑتا ہے جو
مختلف جہات کے دینی کاموں کی سرپرستی کررہا ہو تاکہ وہ ان باصلاحیت افراد
کو محنت کو ٹھکانے لگا سکے۔
بیعت جہاد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ بیعت محض سیاسی
بنیاد پر قائم نہیں ہوتی اور نہ ہی اس بیعت سے سیاسی فوائد کا حصول مقصود
ہے بلکہ ’’بیعت جہاد‘‘ایک سنت اور عبادت والا عمل ہے حضرت شاہ صاحب القول
الجمیل میں فرماتے ہیں:
وممالاشک فیہ ولاشبہۃ انہ اذاثبت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل علی
سبیل العبادۃ والاہتمام بشانہ فانہ لاینزل عن کونہ سنۃ فی الدین
ترجمہ:’’اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ جب نبی کریمﷺ سے کوئی فعل وبطریق
عبادت اور اہتمام سے ثابت ہوتو وہ فعل سنت دینی سے کم نہیں ہوگا‘‘
اب آپ خود ملاحظہ کریں کہ’’بیعت جہاد‘‘عادتاًلی گئی تھی یا عبادت کے طور
پر؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ بیعت عبادت کے طور پر تھی اور ایک عبادت کی ادائیگی
کیلئے ہی تھی اور یہ بھی یاد رہے کہ جہاد وسائل عبادت میں سے اورنہیں بلکہ
عبادات مقصودہ میں سے یہی جمہور کا مسلک ہے جیسا کہ علامہ آلوسیؒ نے
۔۔۔۔۔۔میں تحریر کیا اسی سے جہاد کے عبادت لعینہ اور عبادت لغیرہ میں سے
ہونے کا مسئلہ بھی صاف ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ بیعت مسنون
ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب یہ بیعت جہاد متروک ہو چکی ہوتو اس
زمانے میں اس سنت کو زندہ کرنا اس ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے جو نبی کریمﷺ
نے احیاء سنت کے بارے میں بیان فرمایا کہ :’’جس شخص نے فساد امت کے وقت ایک
سنت کو زندہ کیا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے‘‘۔
ہمارے اکابر سے بھی اس بیعت جہاد کا ثبوت موجود ہے ۔ تحریک سید احمد شہید ؒ
نے لیکر حضرت لدھیانوی شہیدؒ کی بیعت جہاد تک یہ روشن سلسلہ جگمگاتا نظر
آتا ہے تو ہم بھی یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں سعادت وشہادت کے اس حسین سلسلے کی
کڑی بننا ہے یا کسی اندھیری کھائی کارخ کرنا ہے۔ فیصلہ آپ کا!۔۔۔ |