جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مکہ سے چلے آ رہے تھے تو آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ تھے۔ تمام کتب سئیر میں، کتب حدیث میں اور کتب تاریخ میں٬ اہلسنت اور
اہل تشیع کی جملہ تمام کتب میں یہی لکھا ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے اور سیدنا
صدیقِ اکبر (رض) حضور کی اس طرح حفاظت فرما رہے تھے کہ کبھی آپ آگے چلتے
کبھی پیچھے ہو جاتے، کبھی دائیں ہو جاتے کبھی بائیں ہو جاتے۔ آقا علیہ
السلام نے پوچھا: ابوبکر سمجھ نہیں آ رہی کبھی میرے آگے ہو جاتے ہو کبھی
پیچھے ہو جاتے ہو، کبھی دائیں کبھی بائیں ہو جاتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟ تو
انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) آپ کی ذات اقدس اور
جانِ پاک کیلئے دشمنوں کا خطرہ مسلسل میرے دل میں آتا ہے۔ کبھی خیال آتا ہے
کہ دشمن آگے سے حملہ نہ کردے، کبھی خیال آتا ہے کہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ
کردے۔ اسی طرح دائیں بائیں آپ کی حفاظت کرنے آپ کے آگے پیچھے آجاتا ہوں کہ
اگر خدانخواستہ اگر کوئی حملہ ہو تو پہلے مجھ پر ہو۔ سبحان اللہ! محبوبِ
کبریا کی حفاظت جانثاری اور محبت کے یہ انداز دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو
ابوبکر پر کتنا پیار آ رہا ہو گا اور خود حضور اپنے اس بے لوث دوست کی معیت
اور محبت کو کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں گے۔
سیدنا صدیقِ اکبر (رض) کی شان میں تقریباَ پندرہ ١٥ آیات نازل ہوئیں جن میں
سب سے اہم آیت جن میں آپ سے افضلیت بیان ہوئی جس میں اللہ تعالٰی فرماتا
ہے: لا تحزن ان اللہ معانا۔ الحمد سے لیکر والناس تک ایک لاکھ چودہ ہزار یا
چوبیس ہزار صحابہ کی جماعت میں سے ابوبکر واحد شخص ہیں جن کی صحابیت پر
اللہ رب العزت نے نصِ صریح کے ساتھ مہر تصدیق لگا دی۔ اب آپ کی صحابیت کا
انکار کرنے والا شخص کافر ٹھہرائے گا کیونکہ وہ آپ کی صحابیت کا منکر نہیں
بلکہ قرآن کی آیت کا منکر ہے اور جو قرآن کی آیت کا منکر ہے وہ کافر ہے۔
حضور علیہ السلام کے صحابہ سیدنا صدیقِ اکبر (رض) سے بی حد عقیدت رکھتے
تھے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سیدنا صدیقِ اکبر (رض) کے
بارے میں عاجزی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ کاش! میں (عمر
فاروق) کچھ بھی نہ ہوتا مگر صدیقِ اکبر کے سینے کا ایک بال ہوتا۔ سبحان
اللہ! کیا عقیدت ہے۔ سیدنا فاروقِ اعظم اکثر سیدنا صدیقِ اکبر کو کہا کرتے
تھے میں اے ابوبکر میری زندگی کی ساری نیکیاں لے لو بس مجھے ایک وہ غارِ
والی نیکی دے دو۔
ایک دفعہ سیدنا صدیقِ اکبر (رض) حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس تشریف
لائے اور ہنس کر فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ
جنتیوں کو جنت کی ٹکٹ جناب علی المرتضٰی تقسیم کریں گے۔ وہ بات سن کر حضرت
علی (رض) بھی ہنس دیے۔ سیدنا صدیقِ اکبر نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے
فرمایا کہ مجھے رسول اللہ کے وہ فرمان بھی یاد ہے کہ علی ٹکٹ اس کو ہی دیں
گے جس کو ابوبکر صدیق سے محبت ہوگی۔
قرآن فرماتا ہے کہ جب سیدنا صدیقِ اکبر (رض) کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں
کفار آپ کے کوئی ایذا نہ پہنچائیں تو رسول اللہ نے صدیق سے کہا کہ اے صدیق!
غمزدہ نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں سے بات قابلِ غور ہے کہ آپ نے یہ
نہیں فرمایا کہ اللہ میرے ساتھ ہے کیونکہ سیدنا صدیقِ اکبر (رض) کو اپنی
جان کو ہرگز خوف نہیں تھا اگر خوف تھا تو اپنے محبوب کی جان کا اسی لئے تو
غار میں داخل ہونے سے پہلے عرض کی کہ حضور آپ باہر رہیں میں غار کی صفائی
کر لوں کہیں کوئی کوئی چیز آپ کے نقصان نہ پہنچائے۔ لہٰذا آپ نے غار کی
صفائی کی جو بھی سوراخ دیکھا اپنے تن پر کپڑا پھاڑ کر اس سوراخ کو بند
کردیا۔ سیدنا صدیقِ اکبر (رض) رسول اللہ کے ساتھ تین دن تک غار میں رہے۔ اب
غار میں سیدنا ابوبکر صدیق کو پیاس لگی تو حضور سے التجا کی کہ پیاس لگی
ہے۔ اب یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آپ نے حضور کے ساتھ تمام سفر کیا، لیکن
پانی کہیں نظر نہیں آیا، تمام غار کی خود صفائی کی لیکن پانی کہیں نظر نہیں
آیا لیکن پھر بھی رسول اللہ سے التجا کر رہے ہیں حضور پیاس لگی ہے۔ اب رسول
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کو ابوبکر آپ نے تمام سفر میرے ساتھ کیا ہے تمام
غار کی صفائی کی اگر پانی کہیں نہیں ملا تو میں کہاں سے لاؤں اگر کہیں سے
ملے تو میرے لئے بھی لے آنا۔ قربان جائیں صدیقِ اکبر (رض) کی شان پر جو
اپنی التجا حضور کی بارگاہ میں پیش کر رہے ہیں یقیناَ یہ بات ان کے دل میں
ہوگی کہ جس ہستی سے سوال کر رہا ہوں وہ ضرور میری مدد کریں گے۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: اے ابوبکر! جاؤ غار کے ایک کونے میں اور جا کر
پانی پی آؤ۔ جنابِ صدیقِ اکبر (رض) گئے اور سیر ہو کر پانی پیا۔ اب آپ اس
پانی کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ وہ پانی کیسا تھا فرماتے ہیں کہ وہ پانی
شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور مشک و امبر سے زیادہ خوشبودار۔
جب آپ رسول اللہ کے پاس واپس آئے تو آپ نے پوچھا ابوبکر(رض) ! کیا آپ نے
پانی کی لیا ہے؟ فرمایا جو حضور پی لیا ہے۔ پوچھا پتا ہے ابوبکر کہ وہ پانی
کہاں سے آیا تھا؟ عرض کی حضور بتائیے۔ فرمایا کہ اللہ رب العزت نے جنتی
فرشتے کو حکم دیا کہ جاؤ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ خاص کے پیاس
لگی ہے جاؤ جنت کے پانی کا رخ غارِ ثور کی طرف کر دو تو یہ پانی جنت سے آیا
ہے۔ سبحان اللہ! سیدنا صدیقِ اکبر کہنے لگے فداک امی و ابی یا رسول اللہ!
کیا اللہ کے حضور میرا یہ مرتبہ ہے؟ فرمایا ہاں بلکہ اس سے بھی بلند مرتبہ
ہے اللہ کے حضور آپ کا۔ اور جو کوئی بھی آپ سے بغض رکھے گا چاہے اس کے
اعمال ٧٠ ستر نبیوں کے برابر بھی ہو جائیں کبھی جنت میں نہیں جا سکتا۔
عزیز دوستوں! ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جبریل علیہ السلام سے
پوچھا کہ اے جبریل کیا میرے ابوبکر (رض) کے بارے میں کچھ پتا ہے؟ عرض کی
حضور کچھ پتا ہے اگر میں بیان کرنا شروع کر دوں تو نوح علیہ السلام کی عمر
گزر جائے گی (یعنی ساڑھے نو صدیاں) مگر ابوبکر کی خوبیاں ختم نہیں ہو گی۔
آپ کی شخصیت کے بارے میں اگر لکھا جائے تو کتابوں کی کتابیں بھر جائیں مگر
ہم اپنی گفتگو کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سے
صحابہ سے محبت رکھنے اور ان کی سیرتِ مطہرہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم |