اسلام اور خانقاہی نظام(قسط16)

اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔
نانگے پیر”ککڑ شاہ“کے دربار پر:(جہا ں ہندو اور مسلمان ایک ہو جاتے ہیں )سندھ کی تیسری بڑی گدی کا آنکھوں دیکھا حال- ملکانی شہر میں جامع مسجد کے خطیب مولانا محمد خان اور برادرم خالد سیف نے ہمیں بتلایا کہ” ہمارے شہر کے قریب ایک ولی کا دربار ہے جو” ککڑ شاہ کے نام سے معروف ہے-“ہم نے کہا-”ارے بھائی-:کاواں والی سرکار ‘ کتیاں والی سرکار ‘ بلیاں والی سرکار ٹالی والی سرکار وغیرہ سنی دیکھیں ہیں -لاہور میں چھٹانکی پیر اور گھوڑے شاہ کو بھی دیکھا ہے تو چلئے اب ککڑ شاہ کو بھی دیکھ لیتے ہیں-“چنانچہ ہم ککڑ شاہ کے دربار کی جانب چل دئیے-جب ہم دربار پر پہنچے تو یہ جمعرات کا دن تھا‘ جسے یار لوگ پیروں فقیروں کا دن کہتے ہیں-اس روز ہم بھی حضرت”ککڑ شاہ ولی “کے دربار پر گئے-ہر طرف ککڑ ہی ککڑ( مرغ ہی مرغ) دکھائی دے رہے تھے-عورتوں نے بھی ککڑ اٹھائے ہوئے‘مردوں نے بھی ککڑ بغل میں دبائے ہوئے‘بچوں نے بھی میں رسی باندھ کر ککڑ تھامے ہوئے-یوں ہر طرف ککڑ ہی ککڑ نظر آرہے تھے-پھر ایک اور امتیاز بھی اٹھ چکا تھا‘وہ اس طرح کہ یہاں مسلمان اور ہندو ککڑ شاہ کے دربار پر ایک ہو چکے تھے-مسلمان کہلانے والے تو تھے ہی-ہندو عورتیں ‘ہندو مرد اور بچے بلکہ ان کے خاندانوں کے خاندان بھی ککڑ اٹھائے ہوئے یہاں حاضری دینے آئے تھے-نذرانہ پیش کرنے آئے تھے-آخر کیوں کر ہندو و مسلم ایک ساتھ جمع نہ ہوں کیونکہ دونوں کے عقائد و نظریات جو یکساں ہوئے.کافر اگر اپنے مردہ دیوتاوں کو خوش کرنے کیلئے نذرو نیاز دیتا ہے تو مسلمان بهی اپنے مردہ بزرگوں کو خوش کرنے کیلئے نذرو نیاز اور ککڑ پیش کرتا ہے.کیونکہ مسلمان ان پیروں/سرکاروں/ولیوں کو اپنا مدد گار سفارشی اور قبروں میں زندہ سننے والا اور مرادیں پوری کرنے والا مشکل کشا مانتا ہے. اور یہی عقیدہ ہندو (کافر)اپنے دیوی دیوتاؤں کے متعلق رکهتا ہے.اکثر لوگ کہتے ہیں ہم کہاں شرک کرتے ہیں ہم تو ان ولیوں کو صرف سفارشی(وسیلہ)بناتے ہیں لیکن ان ولیوں/پیروں کو سفارشی اور وسیلہ بنانا ہی سب سے بڑا شرک ہے.《جس کی تفصیل آگے آئے گی. بہر حال:یہاں دو چیزیں اور دیکھنے میں آئیں کہ سب ککڑ ہی ککڑ تھے‘ککڑی کوئی بهی نہ تھی ...-ہماری یہ حیرانی اس وقت دور ہوئی جب پتہ چلا کہ بابا جی چونکہ ککڑ ہی پسند فرمایا کرتے تھے-اس لئے ککڑ ہی یہاں لائے جاتے ہیں-یہ سن کر میرے ذہن میں فورا خیال در آیا کہ کہیں کوئی منچلی مجذوبہ نہ سامنے آ جائے اور وہ ککڑن شاہ یا ککڑی شاہ بن کر کوئی گدی بنا ڈالے-کیونکہ ایسا کرنے کیلئے ان لوگوں سے بعید بهی نہیں ...... ....اور یہاں جتنے بھی ککڑ تھے سب دیسی تھے اور اصیل تھے-خوب پلے ہوئے تھے-معلوم ہوا کہ ککڑ شاہ کے مرید جو مرغ یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں‘ان کی پرورش اور نگہداشت خصوصی طور پر اور اہتمام سے کرتے ہیں جبکہ برائیلر(فارمی) یہاں پیش نہیں کئے جاتے-لہٰذا ککڑ شاہی سلسلہ میں کوئی” برائیلر شاہی سلسلہ“شروع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور برائیلر شاہ بن سکتا ہے.یہ سوچیں سوچتے ہوئے کہ ایسے لوگوں سے ایسے کام کچھ بھی بعید نہیں بلکہ قریب تر ہیں..خیر !--ہم دربار کی بغل میں اس جگہ جا پہنچے جہاں محکمہ اوقاف کا ملازم محمد سلیمان بیٹھا تھا- ابتدائی گفتگو کے بعد بابا کی کرامتوں کی بات شروع ہوئی تو مجاور کرامتیں بیان کرنے لگ گیا -اسی طرح اس بزرگ کی زندگی پر جو کتاب ”تذکرہ اولیاء سندھ “ کے نام سے شائع ہوئی ہے اور محمد اقبال نعیمی نے اسے لکھا ہے- اس کے صفحہ 80 پر لکها ہوا ہے اور دیگر رسائل نے جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: جب ککڑ شاہ صاحب جنت بی بی پرعاشق ہوگئے:سائیں کا نام سمن سرکار ہے-آپ شروع ہی سے حسن و جمال کے دلدادہ‘خوبصورت لباس کے رسیا‘میلوں ٹھیلوں میں شریک ہو کر سازو سرود کی محفلوں میں شریک ہونے والے تھے-پھر ایسا ہوا کہ سمن سرکار کی نظر ایک لڑکی پر پڑ گئی-اس کا نام جنت بی بی تھا-یہ جھڈو کے قریب مٹی کے برتن بنانے والے ایک شخص کی بیٹی تھی-یہ بڑی خوبصورت اور حسین تھی-سائیں نے اسے جونہی دیکھا-پھر کیا تھا! ”اک نگاہ پہ ٹھہرا فیصلہ دل کا“ کے مصداق ہوش وحواس کھو بیٹھے-اب حضرت دن رات اس کی فکر میں مگن رہتے-حتی کہ کئی بار لوگوں نے حضرت کو جنت بی بی کے ساتھ دیکھا-مگر یہ بات جنت بی بی کے ماں باپ اور عزیزواقارب کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے دونوں کا ملنا ملانا مشکل بنا دیا-حضرت بھی ہر طرح کے وسائل بروئے کار لاکر”جنت بی بی “حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے-مگر جب جنت ہاتھ نہ آئی تو حضرت کا عشق جو مجازی تھا-حقیقت کے روپ میں ڈھلنا شروع ہوا---
حضرت ککڑ شاہ کے معمولات مبارکہ:چنانچہ آپ نے کپڑے اتار دئیے-بالکل برہنہ اور ننگے ہوگئے-جنگل میں پھرا کرتے تھے-اکثر وپیشتر آگ کا بڑا ال (مچ)روشن کرتے-اس کے قریب بیٹھ جاتے-کسی نے کچھ دیا تو کھا لیا وگرنہ کھانے سے بے نیاز رہتے-البتہ مرغ شوق سے کھاتے اور آنے والے زائر اور مرید سے پہلا سوال یہ کرتے کہ”ککڑ لائے ہو؟“کیونکہ حضرت ککڑ کا سالن بڑے شوق سے کهاتے تهے-اور حقہ بهی خوب پیتے اور اس کا پانی بھی نوش فرماتے-ان کے جسم کے سارے بال بڑھے ہوئے تھے-انہیں بالکل نہ مونڈتے-اور اس درگاہ میں جو تالاب آپ نے دیکھا ہے-اس میں پڑهے رہتے-وہ اب ولی مجذوب اور ابدال بن چکے تھے-شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوگئے تھے-انہوں نے 26 رمضان کو اپنے تمام مریدوں کوروزہ توڑنے کا حکم دیدیا تھا-《حقہ سے یاد آیا راقم تالیف کے گاوں چهوہرانوالہ سے دو کلو میٹر دور لسوڑی کلاں ضلع منڈی بہاوالدین ایک دربار بہار شاہ کا ہے پیر بہار شاہ اور اس کے مرید رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں سر عام حقہ پیا کرتے تهے میں نے خود اپنی آنکهوں سے مشاہدہ کیا ہے》.اور بهی کافی بے حیائی اور خرافات ہوتی تهیں.زندگی نے وفا کی تو ہم پهر کبهی قلم بند کریں گے.چونکہ یہ سلسلہ صوبہ سندھ کے حوالہ سے ہے جب ہم پنجاب کے مختلف مزاروں کے مناظر قلم بند کریں گے تو ضرور پنجاب میں دین خانقاہی یعنی درباری دین کی جھلکیاں پیش خدمت کریں گے...... ...جاری ہے....
عمران شہزاد تارڑ
About the Author: عمران شہزاد تارڑ Read More Articles by عمران شہزاد تارڑ: 43 Articles with 42532 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.