’ اسلام‘ امن و شانتی ، انسانی ہمدردی اور رواداری کا علمبردار مذہب

ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی
آل انڈیا امام کونسل صدر شہر اورنگ آباد
لیکچرر شعبہ عربی ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن نوکھنڈہ اورنگ آباد

دنیا کے سارے انسان اﷲ کا کنبہ ہے اور اﷲ کے نزدیک سب سے بہتر وہی ہے جو کنبہ کے ساتھ بہتر ہو۔ رواداری ، عدم تحمل کی ضد ہے۔ موجودہ حالات میں رواداری ، مذہبی رواداری اور عدم تحمل ، عدم برداشت جیسے الفاظ ہندوستانی میڈیا پر بکثرت بولے ، پڑھے اور سنے جارہے ہیں۔ عظیم جمہوری ملک ہندوستان کے صدر جمہوریہ نے نصف درجن سے زائد بار سیاستدانوں کو رواداری کا سبق پڑھایا ہے لیکن فسطائی طاقتیں چکنے گھڑے ہیں ، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور یہ کیونکر ممکن ہو جن کے گھٹی میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور مخالفت رچ بس گئی ہو ،ایسا لگتا ہے جب یہ لوگ پیدا ہوئے تھے جنم گھٹی کے بجائے انھیں مسلم دشمنی کی دواپلائی گئی ہو ، لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئے جو اوروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے ایک نہ ایک دن اسی گڑھے میں گرنا ان کا مقدر ہوتا ہے۔ محاورے اور ضرب الامثال یوں ہی نہیں بنتے ۔ یہ آزمودہ اور صدفیصد صحیح ہوتے ہیں۔ اسلام دشمنوں اور مسلمان دشمنوں کو ابھی بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ کبھی بادصبا تو کبھی صرصر۔ کبھی آندھی کبھی طوفان۔ یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ آتے رہتے ہیں۔ آج ہماری تو، کل تمہاری باری ہوگی۔ گردش ایام اور شب و روز کی تبدیلی یقینی ہوتا ہے۔ رات کا اندھیرا ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ تاریکی کا پردہ چاک کرکے صبح کی سفیدی کا نمودار ہونا جس طرح یقینی ہے اسی طرح ظالموں اور مظلوموں کا چکربرار چلتے رہتا ہے۔ مذہبی عدم رواداری سے دنیا بھر میں ہندوستتان کی شبیہہ بگڑ گئی ہے۔ سینکڑوں ہندوستانی ادیبوں ، مصنفوں ، شاعروں اور سماجی خدمت گاروں اور سائنسدانوں نے اپنے بیش بہا ، وقیع ایوارڈس احتجاجاً صرف اسی لئے لوٹا دیئے ہیں کہ یہاں عدم رواداری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گائے کی محبت میں انسانیت کا قتل اور صرف شک ہونے کی بنیاد پر ہنستے کھیلتے گھرانے کو تباہ و برباد اور معصوم جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اور یہ سب وحشیانہ حرکتیں مذہب کی آڑ میں ہورہی ہیں۔ ان وحشیانہ حرکتوں کی وجہ سے ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ بگڑ گئی اور ہر جگہ تھوتھو ہونے لگی ہے۔

آفاقی و آسمانی مذہب اسلام میں مذہبی رواداری کی تعلیمات ایک روشن باب ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ انسانیت اور مذہبی رواداری کی بے شمار روایات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ مذہب اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک ، انسانوں کی خدمت اور دنیا کی ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے اور دنیا میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اﷲ کے اس کنبے کے ساتھ بہتر ہو۔

قرآن مجید میں رواداری ، فراخدلی اور انسان دوستی کی جو تعلیمات دی گئیں ان پر رسول خدا حضرت محمد ﷺ نے عمل کر کے دکھایا۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۹؍ اس طرح ہے : ’’اﷲ کے فضل ہی سے تم ان کے لئے نرم ہو،ائے محمد اگر تم کج خلق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ جو تمہارے اردگرد جمع ہیں تمہارے درمیان سے ہٹ جاتے۔‘‘ اسی طرح سورہ توبہ آیت ۱۶ اس طرح ہے کہ : ’’آپؐ بھلائی کے شدید متمنی ہیں اور اہل ایمان کے حق میں نہایت رقیق القلب اور نرم دل ہیں۔ ‘‘ حضورؐ کا ارشاد گرامی بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے ، ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے، اس کے نزدیک سب سے پسندیدہ انسان وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔ اچھا برتاؤ کرے ۔ حضورؐ کی تعلیم یہ بھی رہی کہ ایک دوسرے سے تعلقات ختم نہ کئے جائیں۔ ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرا جائے۔ ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھا جائے۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کیا جائے۔ بس سب کی سب آپس میں خدا کے بندے بن کر رہنا چاہئے۔

آپؐ نے بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا ، اس پر خدا بھی رحم نہیں کرتا۔ اسلام کے دشمنوں کے مظالم سے تنگ آکر ایک مرتبہ صحابہؓ نے آپؐ سے ان کے لئے بددعا کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا : ’’میں لعنت اور بددعا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ رسول اﷲ ﷺ نے نبوت کے فرض منصبی کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے رواداری ، فراخدالی دکھائی۔ وہ انسانی تاریخ کی بہت روشن اور تابناک مثالیں ہیں۔ قریش ، یہود اور نصاریٰ سب ہی نے آپؐ کو ہر طرح کی ایذائیں پہنچائیں، مگر آپؐ نے ان سب کو نہایت صبروتحمل اور بردباری سے برداشت کیا۔ یہودی ، عیسائی اور کفارومشرکین کی جانب سے ایذاء رسانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن مشہور نعت کے یہ الفاظ ہمیں اچھی طرح ہیں ؂
کیا مرتبہ بتاؤں صلِّ علی نبی کا
حق نے بنایا جن کو افضل پیمبری کا
حضرت کا جانی دشمن تھا ایک یہودی کافر
کچھ دن نظر نہ آیا جبکہ علیل ہوکر
بے چین ہو کے پہنچے حضرت یہود کے گھر
سکھلا دیا طریقہ دشمن کو دوستی کا

اسی طرح حضورؐ کی راہ میں یہودن بوڑھیا کا کچرا ڈالنا ، پھر اس کا بیمار پڑ جانا ، اس کی عیادت و تیمارداری کے لئے آپؐ کا کا پہنچنا، اس طرز عمل کو دیکھ کر بوڑھیا کا ایمان لانا ۔ یہ وہ واقعات ہیں جو نہ صرف حقیقی ہیں بلکہ مشہور زمانہ ہیں۔

اسلام میں مذہبی رواداری کے واقعات اس قدر کثرت سے ہیں کہ انھیں یکجا کیا جائے تو ایک بڑی ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر چند واقعات قلمبند کئے جاتے ہیں:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ کا ایک لشکر نجد کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے قبیلۂ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ لیا جو پہچانا نہیں گیا۔ رسول ﷺکے پاس وہ لایا گیا۔ فرمایا کہ تمھیں معلوم ہے یہ کون ہے؟ یہ قبیلہ بنوحنیفہ کا ثمامہ بن اثال ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ پھر اپنے گھر تشریف لے گئے اور کہا کہ جس قدر بھی کھانا ہو سب ثمامہ کے پاس بھیج دو۔ اپنی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو بھی صبح شام ثمامہ کے پاس دودھ کے لئے بھیج دیا کرو۔ پھر بھی ثمامہ سیر نہ ہوتا تھا۔ رسول ﷺثمامہ کے پاس آکر فرماتے : ائے ثمامہ اسلام قبول کرلو۔ تو وہ جواب دیتا : اے محمد آپ کو اختیار ہے ، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جو واجب القتل ہے اور اگر فدیہ چاہتے ہوں تو جس قدر درکار ہو فرما دیجئے ، وہ دے دیا جائے گا۔ کچھ اور وقت گزرا تو ایک دن رسول اﷲ صلعم نے فرمایا کہ ثمامہ کو رہا کردو۔ رہائی کے بعد ثمامہ وہاں سے چل کر بقیع پہنچے۔ شام ہوئی تو کھانا ان کے سامنے رکھا گیا ، جس میں سے اس نے تھوڑا ہی کھایا۔ اونٹنی کا دودھ بھی تھوڑا ہی پیا۔ اس پر مسلمانوں کو حیرت ہوئی۔ رسول اﷲ صلعم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فرمایا : لوگو اس بات پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟ یہ آدمی صبح کو ایک ہی آنت کھا کر شکم سیر ہوگیا۔ کافر سات آنتوں میں کھا کر شکم سیر ہوتا ہے اور مومن ایک ہی آنت میں کھا کر آسودہ ہوتا ہے۔

خیبر کی لڑائی ۷؍ہجری میں ہوئی۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے جانور اور مال و دولت لوٹ لئے۔ اس پر آنحضرت ﷺ کو نہایت غصہ آیا۔ تمام لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ خدا نے تم لوگوں کے لئے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں گھس جاؤ ، مگر یہ کہ بااجازت اور نہ یہ کہ ان کی عورتوں کو مارو ، اور نہ یہ کہ ان کے پھل کھاؤ ۔ جب کبھی وہ تم کو وہ ادا کریں جو ان پر فرض ہے۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جب قبیلہ بنو تغلب مغلوب ہوئے تو وہ اپنے قدیم مذہب کو ترک کرنے کے لئے راضی نہ تھے حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے اور وہ اپنے مذہب کی پیروی میں آزاد ہیں۔ البتہ اگر ان میں سے کسی شخص نے اسلام قبول کرنا چاہا تو کوئی شخص مزاحمت کا مجاز نہ ہوگا۔

قبیلہ بکر کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا۔ حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا حوالے کیا گیا اور اس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ (الفاروق ج ۲ ص ۱۳۸)

حضرت عمرؓ کے دور ہی کا ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ ایران کے باشندے ہرمزان نے حضرت عمرؓ کے سپہ سالار اور حضرت سعدؓ سے صلح کی تھی اور اس کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنے اقرار سے پھر جاتا۔ اس کے ہاتھوں دو مسلمان بھی شہید ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ اس کے قتل کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اسے بلایا اور استفسار کیا۔ اس کے بعد ہرمزان نے پینے کے لئے پانی مانگا۔ پانی کا پیالہ ہاتھ میں لے کر درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاؤں۔ حضرت عمرؓ نے اس کی بات مان لی۔ اس پر اس نے پانی کا پیالہ لیا اور نیچے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور لگائی گئی شرط کے مطابق اب تم مجھے قتل نہیں کرسکتے۔ حضرت عمرؓ اس کی اس چالاکی سے حیران اور مغالطے میں پڑ گئے۔ پھر ہرمزان نے کلمہ توحید پڑھا اور کہا کہ میں پہلے ہی اسلام لا چکا تھا لیکن یہ تدبیر میں نے اس لئے کی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا۔ (الفاروق۔ جلد ۱۔ ص ۶۴ ۔ بحوالہ العقد افلرید لابن عبدویہ)

عہدحاضر کے وہ خردماغ جو اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے ساتھ خصومت پر اتر آئے ہیں اگر وہ نفرت ، عداوت ، حقارت اور تعصب کی عینکیں اتار کر اسلامی تعلیمات کا سرسری جائزہ لیں تو انھیں ضرور محسوس ہوگا کہ مذہب اسلام کی تعلیمات دنیائے انسانیت کے لئے ابررحمت سے کم نہیں۔ امن و سلامتی ، انسانیت کے ساتھ نرمی و ہمدردی ، رواداری اس مذہب کی اعلیٰ اور ممتاز خصوصیات ہیں۔

لیکن یہاں یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ اسلام رواداری ، محبت و شائستگی ، شرافت اور انسانیت کی تعلیم تو ضرور دیتا ہے لیکن ایسی عاجزی ، بے بسی ، مجبوری اور لاچاری کا درس نہیں دیتا جس سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوں اور وہ ظلم و بربریت پر جری و بیباک ہوجائیں بلکہ ان ظالموں کے ساتھ نہ صرف نبردآزما ہونے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ان کے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور ان کے حساب سے جواب دینے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اور قرآن حکیم کا بھی یہی حکم ہے: وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یَاوُلِی الْالبَابِ تمہارے لئے قصاص یعنی بدلے میں زندگی ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ دفاع مد مقابل کو اقدام کرنے سے باز رکھتا ہے اور دفاع انسانی بشری ، فطری اور جمہوری حق ہے۔ ایکشن کا ری ایکشن ہر عمل کا ردعمل یہ بھی فطری عمل ہے۔ پانی کا سر سے اونچا ہوجانا اور پھر خاموش تماشائی بنے رہنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوسکتی۔ جمہوری طریقے سے اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے مشاہدات و تجربات سے حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسّی فیصد مسائل مدافعانہ کوششوں سے حل ہوئے ہیں۔ شبنم مزاجی سے بھی مسائل حل ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی مسئلہ کو سلجھاتی ہے آگ والا شعر بھی ہماری نظروں سے گذرا ہوگا۔شرافت اور بزدلی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عام طور پر شرافت کو بزدلی پر محمول کیا جانا حماقت و نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ ایمان اور بزدلی ایک مومن کے دل میں یکجا ہو نہیں سکتے۔ جہاں ایمان ہے وہاں بزدلی نہیں ہوسکتی اور جہاں بزدلی ہے وہاں ایمان کا تصور کرنا محال ہے۔
٭٭٭
 
Syed Farooq Ahmed Syed
About the Author: Syed Farooq Ahmed Syed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.