پاکستان میں ایک بڑا طبقہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے اور
لاعلمی کے سبب یہ طبقہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہا ہے- وٹامن ڈی کی کمی
کا زیادہ تر شکار بچے ہیں اور اس کمی سے بچاؤ یا اس کو دور کرنے کے لیے
ضروری ہے کہ والدین کو وٹامن ڈی کی کمی کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل ہو-
والدین کو وٹامن ڈی کی کمی سے متعلق آگہی اور مکمل معلومات فراہم کرنے کے
لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر مبینہ آگبٹوالہ سے
خصوصی بات چیت کی- وٹامن ڈی کی کمی سے متعلق ڈاکٹر مبینہ سے حاصل کردہ اہم
معلومات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ ہمارے ہاں وٹامن ڈی کے شکار بچوں کی ایک بڑی
تعداد پائی جاتی ہے اور وٹامن ڈی کیا ہے اور کہاں پایا جاتا ہے یہ جاننا
ضروری ہے؟
|
|
“ وٹامن ڈی ایک ایسا وٹامن ہے جس کا تعلق براہ راست سورج کی شعاعوں سے ہے-
وٹامن ڈی کو Cholecalciferol کہتے ہیں اور یہ ڈیری مصنوعات مثلاً دودھ٬ دہی
اور پنیر میں پایا جاتا ہے- اس کے علاوہ وٹامن ڈی مچھلی٬ انڈہ اور ہری
سبزیوں میں بھی موجود ہوتا ہے“-
“ آجکل کے بچے دودھ کم پیتے ہیں یہاں تک کہ 3 سے 4 سال کی عمر کے بچے جب
اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو ان کا دودھ کا استعمال صرف 1 گلاس رہ جاتا ہے-
اس کے علاوہ انڈہ بھی اکثر بچے نہیں کھاتے“-
|
|
“ یہی تمام عوامل بچوں میں وٹامن ڈی کی کمی کا سبب بنتے ہیں“-
ڈاکٹر مبینہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ “ اکثر ماؤں کی غذا میں بھی ڈیری مصنوعات
اور سبزیوں کو استعمال کم ہوتا ہے اور جب وہ بچے کو دودھ پلاتی ہیں تو
چونکہ وہ خود وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوتی ہیں اس لیے ان کا بچہ بچپن سے
ہی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار بن جاتا ہے“-
|
|
“ اس کے علاوہ وٹامن دی مذکورہ تمام غذاؤں کی ذریعے جسم میں پہنچتا تو ہے
لیکن یہ غیر فعال ہوتا ہے اور اسے فعال بنانے کے لیے سورج کی شعاؤں کی
ضرورت ہوتی ہے- صبح 10 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک کی سورج کی شعاعیں وٹامن ڈی
کو فعال بنانے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں“-
“ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ یا بچے اس لیے بھی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار بن
جاتے ہیں کہ ان کے گھروں یا فلیٹس میں دھوپ بالکل نہیں آتی یا پھر بہت کم
آتی ہے- اس کے علاوہ اکثر بچے باہر نہیں جاتے اور گھر کے اندر ہی گیم
کھیلتے ہیں یا پھر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں اور یوں وٹامن ڈی کی کمی کا
شکار بن جاتے ہیں کیونکہ یہ بچے بھی سورج کی شعاؤں سے محروم رہتے ہیں“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ اگر بچے کو روزانہ 2 گلاس دودھ دیا جائے اور
انڈہ کھلایا جائے تو وہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار نہیں بنے گا“-
“ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے reckitt نامی بیماری لاحق ہوتی ہیں اور اس کی
کئی علامات ہیں“-
“ جیسے کہ اگر بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کا سر بڑا ہونے لگتا ہے٬ بالخصوص
ماتھے کے اوپر کا حصہ آگے بڑھنے لگتا ہے- بچے کی ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں٬
کلائی چوڑی ہوجاتی ہے اور جب بچے کی ہڈیوں کا ایکسرے کروایا جاتا ہے تو وہ
کمزور اور بھربھری دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ہی ہڈیوں کے کونے بھی ٹوٹے ہوئے
ہوتے ہیں“-
|
|
“ اس کے علاوہ پسلیاں ظاہر یا نمایاں ہوجاتی ہیں اور ان پر تسبیج نما دانے
بن جاتے ہیں- وٹامن ڈی کے شکار بچے جب بھاگنا دوڑنا شروع کرتے ہیں تو ان کے
پاؤں ٹیڑھے ہوجاتے ہیں یعنی یا تو باہر کی جانب یا پھر اندر کی جانب مُڑ
جاتے ہیں- بچے پاؤں میں درد کی شکایت بھی کرتے نظر آتے ہیں“-
“ بعض اوقات یہ ہڈیاں اس حد تک کمزور ہوجاتی ہیں کہ چھوٹی سی چوٹ لگنے کی
صورت میں بھی فریکچر ہوجاتا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ وٹامن ڈی کی کمی جانچنے کے لیے ٹیسٹ کروایا
جاتا ہے جس سے وٹامن ڈی کی سطح معلوم کی جاسکتی ہے اور اس سطح کے اعتبار سے
ہی علاج کیا جاتا ہے“-
“ اگر وٹامن ڈی کی کمی زیادہ ہوتی ہے تو انجکشن لگائے جاتے ہیں- اس کے
علاوہ مارکیٹ میں وٹامن ڈی کے قطرے بھی دستیاب ہیں جو بچوں کو پلائے جاتے
ہیں- یہ قطرے 1 سے 2 ماہ تک پلائے جاتے ہیں اور اس طرح وٹامن ڈی کی کمی
پوری ہوجاتی ہے“-
|
|
“ ضرورت کے بغیر یا وٹامن ڈی کی سطح جانچے بغیر وٹامن ڈی کے قطروں کا
استعمال درست نہیں کیونکہ وٹامن ڈی کی مقدار کا اضافی ہوجانا بھی خطرناک
ثابت ہوتا ہے“-
“ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار نہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خوراک اور طرزِ
زندگی تبدیل کیجیے- بچے دودھ زیادہ سے زیادہ پئیں- مثال کے طور پر اگر 3 سے
4 سال کا بچہ ہے تو کم سے کم 3 گلاس دودھ تو پئیے- اس کے علاوہ خورک میں
انڈہ٬ دہی٬ مکھن٬ پنیر اور تازہ سبزیاں ضرور استعمال کریں“-
“ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھوپ میں کچھ وقت ضرور گزاریں تاکہ ان غذاؤں سے
حاصل ہونے والا غیر فعال وٹامن ڈی فعال ہوسکے“- |
|