’ایف ․آئی․آر․‘

آج سے ہزاروں سال پہلے’ہابیل ‘اور ’قابیل‘ میں جنگ ہوئی ، ’ہابیل‘ قتل کر دیے گئے اورقاتل ’قابیل‘ بے فکری کے ساتھ ٹہلتے رہے۔انسانی تاریخ کا یہ پہلا قتل تھا۔اس وقت کوئی ضابطہ نہیں تھا اور بہت بعد تک بھی نہ رہا ہوگا۔لیکن آج کے دور میں ضابطہ ہے اور سخت سزاؤں کے باوجودقتل ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہر طرح کے جرم ڈنکے کی چوٹ پر کیے جاتے ہیں۔جرائم پر قابو رکھنے کے لیے قانون بنائے گئے اور انکے نفاذکے لیے پولیس اور تھانے وجود میں آئے۔

کسی بھی جرم کے ارتکاب پر تحریری یا فون سے زبانی اطلاع پولیس کودی جاتی ہے۔پولیس کو دی جانے والی پہلی اطلاع کو ایف․آئی․آر․ یعنی FIR- Information Report Firstکہتے ہیں۔ ایف․آئی․آر․درج ہونے کے بعد پولیس جانچ کرتی ہے، شہادتیں یکجا کرتی ہے اور پھر ملزم کو گرفتار کر کے کاغذات کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیتی ہے۔ اور عدالت میں جرم ثابت ہونے پرملزم کو سزا ہو تی ہے۔
جرم دو طرح کے ہوتے ہیں (۱)غیر دست اندازی اور (۲) دست اندازی۔

۱)-غیر دست اندازی جرم:
اس طرح کے جرائیم بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں جیسے معمولی مارپیٹ وغیرہ۔ان جرائم کی ایف․آئی․آر․ پولیس میں نہیں درج کروائی جا سکتی۔ ایسے معاملات میں عدالت میں شکایت کی جاتی ہے اور عدالت کے مطمئن ہونے پر ملزم کے نام سمّن جاری کیا جاتا ہے۔ پولیس بغیر عدالتی وارنٹ کے کسی کی گرفتار ی نہیں کر سکتی ہے۔

۲)- دست اندازی جرم:
اس طرح کے جرائم بہت سنگین ہوتے ہیں جیسے قتل، لوٹ، ڈکیتی، اغوا، زِنا، چوری ، نقب زنی، جعل سازی او ر دھوکہ دہی وغیرہ اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان معاملوں میں پولیس براہ راست ملزم کو گرفتار کر سکتی ہے ۔عدالت کے احکام کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ملزم تفتیش کنندہ کے بلائے جانے پر حاضر نہیں ہوتا اورفرار ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف مفروری کا مقدمہ الگ سے قائم کیا جاتا ہے۔

دست اندازی پولیس کے مقدموں کو تھانوں پر درج کرانا یعنی ان کی FIRکرنامشکل کام ہوتا ہے کیونکہ مقامی نیتا گیری کام کرنے لگتی ہے اور سیاسی پارٹیاں حرکت میں آجاتی ہیں۔کچھ نیتا FIRلکھے جانے کے حق میں آتے ہیں اور کچھ مخالفت میں۔ پولیس بھی ایف․آئی․آر․ نہ لکھے جانے کے حق میں ہی رہتی ہے کیونکہ اس سے ’کرائم کنٹرول‘ کی شاباشی ملتی ہے، تفتیش کی پریشانیوں ، عدالتی الجھنوں ، ایک لمبے وقفہ تک شہادت کے لیے بھاگ دوڑ وغیرہ سے بچت اور رشوت کے خوبصورت دروازے کھل جاتے ہیں۔

اگر کسی تھانے پرسنگین جرم کی شکایت آتی ہے تو پولیس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ FIR درج کرے بھلے ہی جرم کسی اورجگہ ہوا ہو۔پولیس کو جرم کی اطلاع فوراً دی جانی چاہئے تاکہ شہادت اورثبوت ختم ہونے سے پہلے ہی تفتیش کر لی جائے۔جو بھی FIR درج کی جاتی ہے اُس کا نمبر شمار ، سال سنہ کے ساتھ، درج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرتھانہ غازی پور،لکھنؤ میں سال ۲۰۱۶؁ء میں جو پہلی FIR لکھی گئی ہوگی اس کا نمبر ہو گا ’’مقدمہ اپرادھ سنکھیا 1/16زیر دفعہ(انتر گت دھارا) ․․․․․․․․․․، تھانا غازی پور، ضلع لکھنؤ‘‘۔

اگر جس تھانے پر مقدمہ لکھایا جا رہا ہے اور واردات اس تھانے کے حلقہ کی نہ ہو کر ملک بھر میں کسی دوسری جگہ پر ہوئی ہے تو ایسی حالت میں مقدمہ تو لکھ لیا جائگا لیکن FIR پر کوئی نمبر نہیں ڈالا جائے گا۔ اس طرح کی FIR زیرو نمبر کی کہلاتی ہے۔ اس FIR پر متعلقہ تھانہ اپنا نمبر ڈالے گا۔

مقدمہ قائم کرنے کی بابت بڑے واضح احکامات ہیں، سپریم کورٹ سے ہدایت بھی جاری ہوتی رہتی ہیں اس کے باوجود تھانوں پر ایمان داری اور انصاف نام کی کوئی چیزنہیں دیکھنے کو ملتی۔کسی کا بچہ اغوا کر لیا جا تا ہے، مقدمہ نہیں لکھا جاتا، کسی کی بیٹی جہیز کی چتا پر جلا دی جاتی ہے، مقدمہ نہیں لکھا جاتا۔شہری اور شہر سے ملے ہوئے تھانوں پرایمان داری اور انصاف سے ہٹ کر تھوڑی بیداری تو ہے لیکن دور دراز کے تھانوں میں من مانی اپنی انتہا پر پہنچی رہتی ہے۔

اﷲ اپنے ہر نیک بندے پر کرم کرے اور تھانہ سے دور رکھے۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح سے تھانے سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے۔اس وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
٭
ذاتی دشمنی میں کسی کو پھنسانے کے لیے جھوٹ پر مبنی رپورٹ درج نہ کرائیں ورنہ غلط اطلاع اور پولیس کو گمراہ کرنے کے الزام میں آپ کے خلاف بھی ایف․آئی․آر․ ہو سکتی ہے۔
٭
³ایف․آئی․آر․میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیا جائے اور نہ ہی حقیقت چھپانے کی کوشش کی جائے۔
٭
پولیس کو بیان دینے میں گول مول باتیں نہ کی جائیں۔جو بات کہی جائے آسان اور صاف الفاظ میں کہی جائے۔
٭
اگر آپ کی اطلاع پولیس تھانے میں درج نہیں کی جاتی ہے تو آپ اپنی شکایت ’سرکل آفیسر‘سے لیکر’ڈائرکٹر جنرل آف پولیس‘ تک سلسلہ وارکر سکتے ہیں۔
٭
عدالت کا دروازہ بھی کھٹ کھٹا سکتے ہیں اس کے علاوہ ریاستی اور مرکزی ’حقوق انسانی کمیشن‘ میں بھی اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی کے لیے شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
ایف․آئی․آر․کون کر سکتا ہے:
٭
کوئی بھی شخص جو دست اندازی جرم کے ارتکاب ہونے کی معلومات رکھتا ہے وہ ایف․آئی․آر․ درج کرا سکتا ہے۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مظلوم ہی ایف․آئی․آر․درج کرائے۔
٭
دست اندازی جرم اگر کسی پولیس آفیسر کی جانکاری میں آیا ہے تو وہ بھی ایف․آئی․ آر․درج کرا سکتا ہے۔
٭
اگر کسی کے خلاف کوئی جرم کیا گیا ہے تو وہی شخص بھی ایف․آئی․آر․ درج کرا سکتاہے۔
٭
•وہ شخص بھی ایف․آئی․آر․ درج کر ا سکتا ہے جو جرم ہونے کی جانکاری رکھتا ہو۔
٭
وہ شخص بھی ایف․آئی․آر․درج کرا سکتا ہے جس نے جرم ہوتے ہوئے دیکھاہو۔
ایف․آئی․آر․لکھائے جانے کا طریقہ :
٭
جب کسی جرم کے سرزد ہونے کی اطلاع پولیس تھانے کوزبانی دی جاتی ہے تو پولیس اسے درج کرے گی۔
٭
اگر کسی کی زبانی اطلاع پرپولیس نے ایف․آئی․آر․درج کی ہے تو اطلاع دینے والے کا حق بنتا ہے کہ اُسے مضمون پڑھ کر سنایا جائے۔سننے کے بعد مطمئن ہونے پر ہی دستخط کرنے چاہئے۔
٭
ایف․آئی․آر․درج ہونے کے بعداسکی ایک کاپی حاصل کر لینی چائے۔

ایف․آئی․آر․ میں درج کی جانے والی باتیں:
۱) نام،ولدیت و پتہ ۲) تاریخ، وقت اور جائے واردات، ۳)واردات کی حقیقت ۴) واردات میں شامل لوگوں کے نام و تفصیل۔(اگر نام نہیں معلوم ہیں توجن پر شک ہو ان کے نام، یا کالم خالی بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔)

پولیس تھانہ کا نام آتے ہی اچھے اچھے لوگ ہل جاتے ہیں، اگر خدا نہ خواستہ کسی کو تھانے پر جانا ہی پڑ گیا تو وہ ’جل ّ تو جلال تو‘ کا ورد کرتا ہوا جاتا ہے۔اور جب تک عزت کے ساتھ وہاں سے واپس نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کے خیالات بڑے مذہبی رہتے ہیں جس طرح قبرستان میں لوگ مذہبی خیالات والے ہو جاتے ہیں۔

میں تو یہ دعا کر تا ہوں کہ اے اﷲ! اپنے فضل و کرم سے ہر شریف انسان کو ’ پولیس تھانوں سے بچائے رکھے‘۔ تھانوں سے ڈر آج کے انسان کے دِل میں ہی نہیں ہے بلکہ آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے ، پولیس تھانوں کے بارے میں شوقؔبہرائچی بھی بہت اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے۔
وہ گلی ہے بدعتوں کی، وہ جگہ ہے زحمتوں کی
وہ ہے منڈی رشوتوں کی جسے کہہ رہے ہو تھانہ
……
بجائے بارشِ انصاف سیم و زر برستا ہے
یہ دولت خانہ بنتا ہے فقط تھانہ نہیں بنتا
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.