اصطلاحات وِفاق٬ صحیح تلفظ……لغوی پس منظر ……عرفی معنی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حامداًومصلِّیاًومسلِّماً

اس موضوع کو زیربحث لانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عموماً اردو زبان کی اکثر اصطِلاحات عربی سے ماخوذ ہیں، اور مشاہدے میں آئے روز یہ صورت حال پیش آتی رہتی ہے کہ اصطلاح کا تلفظ کچھ ہے اور ادائیگی کچھ اور، مثلاً لفظ انتِقال و انتِخاب لغۃً (بکسر التاء) ہے، مگر غلطی سے ادائیگی انتَقال اور انتَخاب (بفتح التاء)ہوتی ہے۔
نیزلغوی معنی کچھ ہیں اور اردو استعمال میں اس کے معنی کچھ اور ،مثلاً لفظ صداقت کا لغوی معنی دوستی اور فرینڈشپ کے ہیں،لیکن بعض اہل اردو اس کو سچائی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
یہی حال عرفی معنی کا بھی ہے۔ مثلاً حکومت، مملکت، دولت، امارت کے معنی عربی لغت کے علاوہ عرف عام میں بھی الگ الگ ہیں، مگر بعض لوگ ان الفاظ میں ازروئے معنی چنداں فرق محسوس نہیں کرتے، اسی لیے ہمارے ملک کو اس قسم کے لوگ مملکت خدا داد کہتے ہیں، حالانکہ مملکت کے معنی ہے شہنشاہیت (کنگڈم) جبکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، مملکہ نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
خاص کر وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق چونکہ خالص عربی مدارس و جامعات اور ان کے علماء وطلبہ کا ہے اس لیے وِفاق کی اصطلاحات تو تقریباً سبھی عربی الاصل والماخذ ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ وفاق کی اصطلاحات کو بھی ہمارے یہاں کے اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات ادائیگی میں کچھ سے کچھ بنادیتے ہیں، جو عربی زبان اور اس کے مزاج و مذاق کے بالکل منافی ہوتا ہے۔ کیونکہ عربی میں حرَکت کی معمولی تبدیلی سے بھی معنی میں زبردست تغیر آجاتا ہے، جس سے مقصود و مفہوم پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔
وفاق کے نام میں مستعمل تینوں عربی کلمات کو لیجیے، لوگ ادائیگی میں ان کا کیا حشر کرتے ہیں۔
وِفاق (بکسر الواو) کو وَفاق (بفتح الواو) ہی ادا کریں گے ۔ علی ھذا القیاس لفظ مدارس کا کوئی مدارَس (بفتح الراء) اور کوئی مدْراس اور اس کے واحد کا مدرِسّہ یا پھر مدرَسّہ مَدَرْسَہ اور مندرسَہ سے تلفظ کرتے ہیں۔ حالانکہ صحیح تلفظ مَدْرَسَۃُٗ ج مَدَارِس ہے۔رہا کلمہ عربیۃ تو اس کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی عَرَبِیَّۃُٗ (بتحریک الراء) ہے، جبکہ بہت سے ہمارے پڑھے لکھے مہربان اسے عَرْبِیّہ (بتسکین الراء) اداء کرتے ہیں۔
عربی زبان میں الفاظ معانی کے ساتھ اہمیت میں شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔چنانچہ عربی علوم و فنون میں کئی کا تعلق صرف الفاظ سے ہے اسی لیے ان الفاظ کو ہرگز ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بناء بریں مذکورہ تحقیق کی ضرورت پڑرہی ہے:
وِفاق:
(وِفَاق) اردو میں اس کے معنی ہیں: اتحاد، اتفاق، کئی اداروں، صوبوں، ولایتوں کا مرکزی ادارہ، مرکزی حکومت۔ انگریزی ترجمہ اس کا ہے: فیڈریشن (Federation) آرگنائزیشن (Organization) عربی میں۔ وِفَاق (بکسرالواو) باب مفاعلۃ کا مصدر ہے(وَافَقَ، یُوَافِق، مُوَافَقَۃً، وَوِفَاقاً) اس باب کی خاصیت میں’’ باہمی مشارکت‘‘سب سے اغلب ہے۔ اس کے آسان ترین معنی یہ ہیں کہ یہ ’’خِلاف‘‘ کی بالکل ضدہے۔مجرد میں باب حَسِبَ سے آتا ہے: (وَفِقَ، یَفِقُِ، وَفْقاً) وَفِقَۃ: وجدہ وصادفہ موافقاً موافق پانا ۔باب تفعیل سے بھی اس کا استعمال مشہور و معروف ہے (وَفَّقَ……تَوفِیقاً) موافق بنادینا، صلح کرنا، توفیق دینا۔ (والتوفیق: Œجعل الأسباب موافقۃ للمطلوب  تسہیل طریق الخیر، وسدّ طریق الشر، والخذلان عکسہ۔Žوعند البعض ھو: جعل التدبیر موافقاً للتقدیر) نیز اِفعال، اِستِفعال اِفتِعال تفعّل اور تفاعُل سے بھی آتا ہے، جن میں سے افتعال سے بمعنی اتحاد، موافقت اور اچانک، زیادہ وقوع پذیر ہے ، تفعُّل سے تفوُّق :فائق علی الآخرین اور سبقت لے جا نے کے معنی میں آ تا ہے ۔
(رَابِطۃ) بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کا اردو معنی تو مشہور ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ لیگ سے کیا جاتا ہے اس طرح تنظیم بھی اسی معنی میں ہے۔ جس کا انگریزی ترجمہ آرگنائزیشن ہے۔(او، آئی ،سی)آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن کو عربی میں (منظمۃ التعاون الإسلامی) کہتے ہیں۔مسلم لیگ : رابِطۃ المسلمین۔لیگ آف نیشنز : رابِطۃ الاقوام ۔مسلم ورلڈ لیگ : رابِطۃ العالم الاسلامي۔
مدارس:
(مَدَارِس) مدرسہ کی جمع، مدرسے، مکاتب، درسگاہیں، سکولز۔ یاد رہے کہ اردو کی مشہور ڈکشنری ’فیروزاللغات‘‘ نے اس لفظ پر یوں اعراب لگایا ہے (مُ۔دَا۔رِس) اور اس کے ساتھ ایک دوسرے لفظ ’’مدارج‘‘ کو بھی (بضم المیم) منضبط کیا ہے۔ جبکہ یہ دونوں (بفتح المیم)ہیں، میم کے ضمہ سے یہ دونوں لفظ جمع کے بجائے اسم فاعل بن جاتے ہیں۔ ان کے بعد ان سے پیوست دو اور لفظوں (مَدافَع، مَدافِع) کے اعراب میں بھی فحش غلطی کی ہے۔ انہیں (بفتح المیم) ضبط کیا ہے۔ جبکہ یہ دونوں ہی (بضم المیم):مُدافَع ومُدافِع بالترتیب اسم مفعول اور اسم فاعل کے صیغے ہیں۔
مَدَارِسُٗ:
عربی میں مَدْرَسَۃُٗ کی جمع ہے۔المورد الوسیط میں منیربعلبکی نے اس کا ترجمہ لکھا ہے مَکَانُ التعلیم (School, College, Academy) ’’عربی میں بمعنی مذھب و مسلک بھی استعمال ہوتا ہے۔ مدارس کے اقسام کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے۔ اِبْتِدَائیَّۃُٗ:ایلمنٹری سکول، نرسری سکول(اس کو رَوْضَہْ بھی کہتے ہیں)…… ثَانَوِیَّۃُٗ : سکنڈری سکول، ہائی سکول۔کالج (اس کو ……کُلِّیَّۃُٗ بھی کہتے ہیں)…… حَرْبِیّۃُٗ: ملٹری سکول / ملٹری اکیڈیمی…… رَسمِیَّۃُٗ : پبلک سکول ،…… مُتَوَسِّطَۃُٗ:جونیر ہائی سکول، انٹرمیڈیٹ سکول…… مِھْنِیّۃُٗ: ٹریننگ سکول/ٹریڈسکول۔مَدْرسيُّٗ: اکیڈیمک/سکولسٹ۔ ہمارے یہاں مدارس کے ساتھ اسلامیۃ اور عربیۃ وغیرہ کا لاحقہ اس لیے لگتا ہے کہ یہاں سکول عصری تعلیم گاہ کو اور مدرسہ دینی تعلیم گاہ کو کہتے ہیں۔ عرب دنیا میں سکول کے بجائے مدرسہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں کے مدارس عصری اور حکومتی ادارے ہی ہوتے ہیں اور ان میں عربی اور اسلامیات کی تعلیم تقریباً سب ہی میں لازم ہوتی ہے ،وہاں یہ تمیز نہیں ہے۔ جبکہ برصغیر ومضافات اور عربستان کے علاوہ خاص کر غیراسلامی دنیا میں ابتدائی تعلیم گاہوں کو مدرسہ کا ہم معنی لفظ سکول ج أساکیل، ہی کا نام دیا جاتا ہے۔ وہاں مدرسہ زیادہ متعارف نہیں ہے۔
تعلیمی مراحل کے حوالے سے مدارس کے نام علی سبیل الترقی ملاحظہ ہو:۱۔ کُتَّابُٗ: مکتب (جہاں بالکل ابتدائی تعلیم ہو) ج: کَتَاتِیب۔۲۔ رَوْضَۃُٗ: نرسری/ابتدائی مدرسہ ج۔ رَوْضَات: ۳۔ مُتَوَسَّطَۃُٗ:مڈل اسٹیج مدرسہ / درجہ اعدادیہ لیول/جونیرہائی اسکول۔ ج: مُتوَسَّطات۔۴۔ثَانَوَیَّۃ:رابعہ تک کا مدرسہ/سیکنڈری سکول/ ہائی سکول/کالج۔ ج: ثَانَوِیَّات۔ اس کی پھردو قسمیں ہیں (الف) ثَانَوِیَّۃ عَامَّۃ: میٹرک لیول/درجہ ثانیہ تک (ب) ثَانَوِیَّۃ خَاصَّۃ: ایف ۔ اے لیول/درجہ رابعہ تک۔ ۴۔عَالِیَۃُٗ: بی۔ اے کے برابر ، ج:عَالیاَت۔ لیکن یہ ہمارے یہاں اکثرجامعہ میں ضم ہوتا ہے۔ عالیہ کی سند کے حامل کو’’صَاحِبُ الفَضِیلَۃ اور بکالوریوس‘‘ کہتے ہیں جو بچلر کا معرب ہے۔ ۶۔ جَامِعۃُٗ: یونیورسٹی دورہ ٔ حدیث تک کے اسباق جہاں ہوتے ہوں۔ ج: جَامِعَات ۔
جامعہ:
جامعہ کی تشریح کرتے ہوئے سیدقاسم محمود لکھتے ہیں :
((جامعہ /یونیورسٹی: اصطلاح میں اس کا اطلاق اعلی مذہبی تعلیم کے قدیم اداروں مثلاً جامعۃ الأزھر وغیرہ پر ہوتا تھا، موجودہ دور میں سرکاری طور پر اس لفظ کا اطلاق جدید طرز کی ایسی یونیورسٹی تک محدود ہے جسے مغربی نمونے پر چلایا جارہا ہو۔
جامعہ کی اصطلاح پہلی بار انیسویں صدی کے وسط میں استعمال کی گئی، یونیورسٹی کے معنوں میں جامعہ کا لفظ پہلی بار ۱۹۰۶ء میں استعمال ہوا، جب الجامعۃ المصریۃ کے قیام کے لیے مصر کے چند دانشوروں اور مصلحین نے ایک تحریک کی ابتدا کی۔ اسی زمانے سے اسلامی ملکوں میں جامعہ یونیورسٹی کے ہم معنی قرار پائی، بعض اسلامی ممالک میں جامعہ کے علاوہ چند اور اصطلاحات بھی استعمال کی جانے لگیں…… جو یا تو قومی زبانوں سے ماخوذ تھیں یا پھر یورپ سے مستعار لی گئی تھیں………… پچھلے چند برسوں میں یونیورسٹی تعلیم نے اسلامی ممالک میں نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔ قائم شدہ یونیورسٹیوں میں مختلف شعبوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور نئی نئی یونیورسٹیوں کا قیا م عمل میں آرہا ہے۔))
(اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۵۹۶ تا ۵۹۸)

جَامِعَۃُٗ:
اسم فاعل کا صیغہ ہے ، بمعنی جمع کرنے والی۔ لیگ اور رابطہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (جامعۃ الدول العربیۃ:عرب لیگ)سید جمال الدین افغانی رحمۃ اﷲ علیہ کے پین اسلام ازم کو عربی میں (الجامعۃ الاسلامیۃ) کہتے ہیں۔ یہ مادہ (ج۔م۔ع)باب افتعال، تفعل، تفعیل، اِفعال، مفاعَلہ، تفاعل سے ان ابواب کی خاصیات کے مطابق معنی دیتا ہے۔
جامعہ کے فاضل کو دی جانے والی سند کو عرب دنیا میں شہادۃ العالِمیۃ یا شھادۃ الماجستیر کہا جاتا ہے۔ماجستیر ماسٹر کی معرب شکل ہے جس کے معنی عالم کے ہیں۔ اسی لیے عربی میں اسے شہادۃ العالمیۃ کہتے ہیں یعنی عالِمیت (بکسر اللام قبل المیم) کی سند۔ اب اس کے استعمال کے متعلق اگر آپ کھوج لگا لگا کر معلوم کرنا چاہیں توغالباً سب ہی سے شہادۃ العالَمیۃ (بفتح اللام) اداء کرتے ہوئے سنیں گے۔جس کے معنی ہوں گے بین الاقوامیت کی سند۔ جو صریح غلط ہے اور یہاں ہرگز یہ معنی مقصود نہیں۔
بہرحال جامعات/یونیورسٹیزمیں ڈگری آف ماسٹر/شہادۃُالعالمیۃ کے بعد ایم۔ فل/تخصص، یعنی اسپیشلائزیشن اور اس کے بعد ڈاکٹریٹ /دکتوراہ (معرَّب) کی سند دی جاتی ہے۔ ان میں تخصص کی سند کے حوالے سے ہماری جامعات میں تخصص في الفقہ الإسلامي…… في الأ دب العربي …… في الحدیث النبوي صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اسانید کا تقریباً رواج ہے۔البتہ دکتوراہ کی طرف ابھی تک وفاق المدارس سے ملحقہ جامعات میں باقاعدہ نظام نہیں چلا ہے،جس کے لیے وفاق لائحہ عمل تیار کرہا ہے۔ اسی طرح کالج کو عربی میں کُلّیَّۃُٗ کہتے ہیں،لیکن ہمارے یہاں دینی اداروں میں مدرسہ اور جامعہ کے علاوہ دیگر الفاظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔لفظ رَوْضَۃُٗ کچھ نہ کچھ استعمال ہوتا ہے، مگر اس کی جگہ( اِقْرَأْ )نے لے لی ہے ۔ اب ہر جگہ رَوضۃ الأطفال کے دیکھا دیکھی اس طرح کے ادارے کھل رہے ہیں۔ مگر جہاں ان کے ناموں میں رَوْضَۃ کو قائم رکھ کر اس کے لاحقہ سابقہ میں ردّوبدل کرکے نئے نام رکھنے چاہیے تھے۔ وہاں ہوا یہ کہ کم فہمی کی بناء پر اقرأ کو باقی رکھ کر اس سے آگے کے دونوں کلموں میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ لہذا عدم واقفیت کی وجہ سے روضۃ کے لیے ہمارے یہاں( اِقْرَأْ )کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ روضۃ القرآن کے بجائے ایک مدرسے کا نام اِقرأ ُ القرآن (مرکب اضافی)ہے جو عربی قواعد کے اعتبار سے بالکل خطا ہے۔ جیسا کہ اہل علم اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
مگر اب یہ لفظ ( اِقْرَأْ )زبان پر اس طرح چڑھ گیا ہے۔ کہ یہ ایک خاص قسم کے مدارس کی نئی پود کے لیے باقاعدہ اصطلاح کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حالانکہ اگر صحیح سمت کی طرف اسے لے جایا جائے تو اس میں بظاہرکوئی دِقت درپیش نہیں ہوگی۔ مثلاً : اقرأ روضۃ الأطفال،الفاروق روضۃ الأطفال، المحمود روضۃ الأطفال، القاسم روضۃ الأطفال، المدنی روضۃ الأطفال، المسلم روضۃ الأطفال، الحجاز روضۃ الأطفال، الحرمین روضۃ الأطفال، الخیر روضۃ الأطفال، الأشرف روضۃ الأطفال، الحق روضۃ الأطفال، السلیم روضۃ الأطفال، المظفر روضۃ الأطفال وغیرہ وغیرہ ۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ دھیرے دھیرے درست سمت پر رواں دواں ہوجائے گا۔ إن شا ء اﷲ تعالیٰ۔
یونی ورسٹی:
یہاں تعلیمی اداروں کی تاریخ وتعارف پر ہم ڈاکٹر مبارک علی کی تحقیق کچھ اختصار کے ساتھ افادۂ عام کے لیے پیش کرتے ہیں:
’’ یورپ اور ایشیا کی ابتدائی تہذیبوں میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہوتاتھا ،تعلیم ، استاذ اور شاگرد کے رشتے کے ذریعے دی جاتی تھی ، طالب علم کسی استاذ کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور اس سے علم حاصل کر تے تھے ، قدیم یونان میں سقراط کا طریقۂ کا ریہ تھا کہ وہ نوجوانوں سے مکالمہ کرتاتھا ، ان سے سوالات پوچھا کر تاتھا ، اور گھوم پھر کر تعلیم دیاکرتاتھا ، اس ذریعۂ تعلیم میں تبدیلی لا نے والا اس کا شا گرد افلاطون تھا کہ جس نے ایتھنز شہر سے باہر درختوں کے جھنڈ میں اکیڈمی نامی تعلیمی ادارہ کی ابتداء کی ، ایک لحاظ سے اسے قدیم یونیورسٹی کہاجاسکتاہے ۔ اسی اکیڈمی میں ارسطو نے اس کے شاگرد کی حیثیت سے بیس سا ل تعلیم حاصل کی ۔اکیڈمی کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہانہوں نے آگے چل کر یا بعد میں اپنے استاذ کے فلسفہ پر گہری تنقید کی اور علمی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ۔
بعدمیں ارسطور نے اپنا ادارہ لے سیم (Lycium ) کے نام سے قائم کیا، اکیڈمی اور لے سیم دونوں ادارے علمی تحقیق اور خاص طور سے فلسفہ کے مراکز رہے ۔
رومیوں کے زمانہ میں بھی ہمیں جو تعلیمی اداروں کا ذکر ملتاہے ، جہاں خصوصیت سے فن خطابت ،گرامر ، منطق اور قانون کی تعلیم دی جاتی تھی ، باقی دوسرے علوم کے لیے اب تک اہل حرفہ کی برادریاں تھیں ،جہاں استاذ شاگردوں کو انجینئرنگ ، ریاضی ، خطاطی ، اور دوسرے فنون اور علوم میں تربیت دیاکرتے تھے ، یہ سلسلہ یورپ میں قرونِ وسطی تک جاری رہا ، لیکن باقاعدہ یونیورسٹی کی ابتداء ۱۰۸۸ ؁ء میں اٹلی کے شہر بولونیا میں ہو ئی ۔ اس کے ابتدائی زمانہ میں داخلے کا کوئی خاص نظام نہیں تھا ،اس لیے ہر عمر کے لوگ داخلہ لے سکتے تھے ، ذریعۂ تعلیم لاطینی زبان تھا ، جویورپ کی علمی زبان تھی ، اس کے شروع زمانہ میں یہاں قانون کی تعلیم دی جاتی تھی ، کیوں کہ اس کی بیوروکریسی اور معاشرہ میں ضرورت تھی ،بعد میں یہاں الہیات ، گرامر ، فن خطابت ، اور منطق کا اضافہ ہوا۔
اس یونیورسٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا سارا انتظام طالب علم کیاکرتے تھے ،وہی اساتذہ کو تنخواہ دیاکرتے تھے ، اگر اساتذہ کو رخصت پر جاناہوتاتھا ، اس کی اجازت طالب علموں سے لیا کرتے تھے ،اگر کوئی استاد وقت پر نہیں آتاتھا یا زیادہ چھٹیاں کر تاتھا تو اس کے پیسے کٹ جایا کرتے تھے ،اس کے علاوہ کلاسوں کے لیے عمارات کرایہ پر لیتے تھے ،ا س وقت تک ہاسٹل نہیں تھا ، اس لیے شہر میں کرائے کے کمروں میں رہتے تھے ، اگر عمارت کے مالکان کرایہ بڑھاتے ، یا ان کے کھانے کے نرخوں میں اضافہ ہوتاتھا تو وہ ہڑتال کرتے تھے اور اس ذریعہ سے اپنے مطالبات منوایا کرتے تھے ۔
یونیورسٹی میں سا ل کے آخر میں امتحان ہوا کرتے تھے ، یہاں طالب علموں کاعمل دخل نہیں تھا اور یہ استاد کی ذمہ داری تھی کہ وہ شاگردوں کی لیاقت کے مطابق انہیں نمبر دے ،ڈگری دینے کا رواج بھی یہاں سے ہی شروع ہوا ،بعد میں کورسز کی مدت کا تعین بھی کیا گیا۔
اس کے مقابلہ میں پیرس یونیورسٹی کا انتظام طلباء کے پاس نہیں تھا ، بلکہ یہاں اساتذہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ یونیورسٹی کے انتظام کو دیکھیں ،یہاں تنخواہ بھی اساتذہ کو اس فنڈ کے ذریعے دی جاتی تھی جو طلباء کی فیسوں سے جمع ہوتاتھا ۔
بعد میں اس ماڈل پر آکسفورڈ، کیمبرج ،پراگ اور کرکوکی یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں ، چوں کہ ان یونیورسٹیوں میں الہیات یا تھیالوجی اہم مضامین تھے ، اس لیے ان کو پوپ سے چارٹر لینا ہوتاتھا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ڈگریاں پورے یورپ میں تسلیم کی جاتی تھیں۔
ڈگریوں میں بیچلر یا بی۔ اے ، ایم ۔اے ، پی ۔ایچ ۔ ڈی یا ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں نہیں تھیں ، بولونیا یونیورسٹی نے قانون اور بعد میں طب کے شعبہ جات میں شہرت حاصل کی ، جب کہ پیرس کی یونیورسٹی الہیات کے مضمون میں مشہور تھی ۔
یونیورسٹی کا نصاب محدود تھا ، استاد کو چیلنج نہیں کیاجاتاتھا ۔ امتحان میں نصاب کی کتابوں کو رٹ کر امتحان پاس کیا جاتاتھا۔ اس لیے ذہین اور قابل طالب علموں کے لیے اس میں ترقی کر نے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم تھے ۔
نصاب میں اس وقت بنیادی تبدیلی آئی ،جب اٹلی میں ریناساں تحریک کی ابتداء ہوئی اور اس نے انسانیت دوست یا (Humanists)دانشوروں کے گروہ کو پیدا کیا، انہوں نے نصاب کی اس خرابی کو محسوس کرتے ہوئے ،اس میں جن نئے مضامین کی ابتداء کی ، ان میں فلسفہ ،ریا ضی ،موسیقی ، تاریخ ،ادب اور جغرافیہ شامل تھے ، اس وجہ سے انہیں اب ہیومنیٹز (Humanities ) کہاجاتاہے،ان علوم کی وجہ سے یونیورسٹی میں تبدیلی آئی اور یہاں سائنس اور سماجی علوم میں تحقیق کی ابتداء ہوئی ۔
اب تک یورپ کی یونیورسٹی مذہب کے زیر اثر تھی اور اس کی وہی حیثیت تھی کہ جو ہمارے ہاں مدرسہ کی ہے ، مگران علوم کونصاب میں داخل کرنے کے بعد اس کے کریکڑمیں تبدیلی آئی اور یہ جدید علمی مدرسہ کی شکل میں ابھرے ۔
اس کے بعد یورپ میں یونیورسٹیوں کا جال پھیل گیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب یورپ کے مہم جو نئے جغرافیائی راستے دریافت کررہے تھے، نئے تجارتی رشتے غیر ملکوں سے قائم ہورہے تھے ،ان کا معاشرہ بدل رہاتھا اور اس تبدیلی میں ان کی یونیورسٹی کا بڑا اہم حصہ تھا ۔
آگے چل کر جدید یونیورسٹی کی تشکیل میں جرمنی کا کردار اہم ہے ،جس نے یونیورسٹی میں ہر مضمون کے علیحدہ شعبہ کی ابتداء کی، سیمینار اور سمسٹر شروع کیا اور تحریری وزبانی امتحان کے رواج کو شروع کیا، اس ماڈل کو یورپ اور امریکا میں اختیار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاں یونیورسٹیاں قائم کیں ، جوآج بھی علمی تحقیق کے مراکز ہیں ۔‘‘
مَعْہَدْ:
ادارہ، اکیڈیمی، انسٹی ٹیوٹ، ج۔ مَعَاھِدْ۔ کچھ برسوں سے یہ لفظ ہماری تعلیم گاہوں میں بطورشعبہ ، اکیڈیمی اور ادارہ استعمال ہونے لگا ہے، جامعہ فاروقیہ کراچی کا۔ معھداللغۃ العربیۃ والدراسات الإسلامیۃ۔کافی شہرت کا حامل ہے۔ لغۃً باب سمع سے آتا ہے: وصیت کرنا، پیشگی حکم کرنا،وعدہ لینا۔
الاکادیمیۃ: اکیڈمی۔
اَلمَدْرسَۃُ:
یہ باب نَصَرَسے صیغہ ٔ اسم ظرف ہے۔ (ۃ) اس میں مبالغے کی ہے۔ معنی ہیں: کثرتِ پڑھائی کی جگہ بروزن مَأْسَدَۃ: وہ جگہ جہاں شیروں کی کثرت ہو۔اس کی جمع مَدَارِسْ ہے (دَرَسَ ، یَدْرُسُ، دَرْسًاوَدُرُوْسًا)…… النقش مِٹنا، مٹانا، الثوبَُ: بوسیدہ ہونا/بوسیدہ کرنا۔ الناقۃَ: سدھانا۔ الکتابَ والعلمَ دَرْسًا ودِرَاسَۃً: پڑھنا، یاد کرنا،جائزہ لینا۔ الحنطۃَ: گیہوں گاھنا، (درَّس و أدْرَسَ): ‘‘پڑھانا، سَدھانا، (دَارَسَ، مُدَارَسَۃً ودِرَاساً): باھم پڑھناتکرار کرنا، مذاکرہ کرنا۔ الذنوبَ: ارتکاب کرنا باب تفاعل اور افّاعل سے مفاعلہ اور نصر کا مطاوع ہے (اِنْدرَس): ناپید ہونا (الدرْسُ): سبق، مخفی راستہ ۔ ج: دُروس ومنہ قول الشاعر:
وَمَنْ طلب العلومَ بغیر دَرْسٍ
/سید رکہا إذاشاب الغرابُ
– ترجمہ: جو شخص بغیر درس (پڑھائی) کے عالم بننا چاہتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) وہ عالم بن جائے گا کّو ے کے سفیدریش ہونے کے وقت (اور وہ محال ہے، لہذا اس طرح عالم بننا بھی محال ہے)۔ (الدِرْس، والدَرْس، والدریس)پرانا کپڑا، اونٹ کی دُم ۔ ج: أدراس ودِرْسان۔ (الدَرَّاسُ) بہت پڑھنے والا۔ (إدریس)بہت زیادہ پڑھنے والا۔ ایک نبی (حضرت أخنُوخ علیہ السلام)کا نام ۔(المدرُوس):پرانا کپڑا، اوراسی طرح پاگل کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (المِدْرَاسُ) قرآن اور توریت پڑھنے کی جگہ۔بطرس البستانی نے محیط المحیط میں لکھا ہے کہ مدرسۃ بھی مِدراس سے ماخوذ ہے، لیکن یہ بظاہر ناقابل فہم اس لیے ہے کہ مدرسۃ باب نصر سے ظرف مکان کا صیغہ ہے جس کے معنی بنتے ہیں’’ پڑھنے کی جگہ‘‘لہذا اس کو مِدراس سے ماخوذ ماننا دور از قیاس ہے۔ آگے چل کر (المدرسۃ)کے متعلق وہ لکھتے ہیں: ’’موضع یُدرس فیہ القرآن وغیرہ، ویتعلم فیہ الطلبۃ، سُمّیت بہ لکثرۃ الدرس فیہا، ج ۔ مَدَارِسُٗ ‘‘۔
ایک اور غلط روایت ہمارے یہاں یہ چل نکلی ہے کہ دینی درسگاہوں کے موجودہ فروق کا لحاظ کیے بغیر کئی جگہ جگہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ادارہ مکتب لیول یا پھر مدرسہ لیول کا ہوگا، نام اسے جامعہ کا دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ نامناسب ہے۔ وفاق کے مرکزی دفتر کو الحاق سند جاری کرتے وقت مذکورہ بالا مستویات ، لیولز اور معاییر کو اہتمام سے مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ملحقہ مدارس بین الاقوامی معیار ومستوی کی طرف گامزن ہوں اور کہیں مسخرہ پن کا شکار نہ ہوں۔
نیزبعض مدارس و جامعات کے ناموں میں فنّی لحاظ سے کلام کی گنجائش ہوتی ہے، اس واسطے مسؤلین وفاق کو الحاق کرتے وقت عربی قواعد کے لحاظ سے بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے،تاکہ مدرسے کا نام ہمارے بریلوی حضرات کے(المدرسۃ المدینۃ)کے بجائے مدرسۃ المدینۃ ہی ہو۔ بعض مشہور و معروف جامعات ایسی ہیں کہ اگر ان کے نام پر غور کیا جائے تو اس میں تصحیح کی کچھ نہ کچھ ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ اور وفاق کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ مدارس کے اپنے یہاں الحاق (رجسٹریشن) کے وقت کم سے کم صوبائی سطح پر یہ امر ملحوظ رکھے کہ ایک ہی نام سے دو مدرسوں کا الحاق نہ ہونے پائے۔ بلکہ سابقہ الحاق شدہ مدرسہ کے نام پر اگر کسی اہل مدرسے نے الحاق کی درخواست دی تو انہیں بتایا جائے کہ اس نام کا ایک مدرسہ ہمارے یہاں پہلے سے ملحق ہے۔
دَارُالعُلوم:
یہ دولفظوں پر مشتمل ہے۔دَارُٗ اور عُلُومُٗ پر۔اول الذکر کے معنی ہیں: گھر۔ ج دُوْرُٗ و دِیَارُٗ۔ ثانی الذکر عِلْمُٗ کی جمع ہے تو اس کا لغوی معنی بنا: علموں کا گھر۔ اور اصطلاح میں اس کا اطلاق عام طور پر دینی چھوٹے بڑے مدرسے/ جامعہ پر ہوتا ہے۔ لفظ جامعہ کی شہرت کے بعد لفظ دارالعلوم پس منظر میں جارہا ہے۔ اسی لیے جہاں جہاں دارالعلوم ہے اس کے شروع میں جامعہ کا سابقہ لگایا جاتا ہے اور جامعہ دارالعلوم کہا، لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
جامعہ ٔ پنجاب کے ’’دائرہ ٔ معارفِ اسلامیہ‘‘ میں مدارس کے حوالے سے قریباً ۴۰ صفحات پر مشتمل زبردست تاریخی و تحقیقی گفتگو کی گئی ہے جس کی تمہید میں تعارف مدارس پر یوں نگاہ ڈالی گئی ہے:
((…… مدرسہ کی جمع مدارس اور مکتب کی جمع مکاتب ہے، مدرسہ پڑھنے پڑھانے کی جگہ کو کہتے ہیں،اور مکتب لکھنے کی جگہ کو۔ ایران، ہند، پاکستان (وافغانستان) میں عموماً لوگ بچوں کے ابتدائی حروف تہجی سیکھنے اور پڑھنے کی جگہ کو مکتب اور بالغوں کی پڑھنے کی جگہ کو مدرسہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ سکول کا لفظ دونوں کو شامل ہے، اس لیے کہ جونیئر اور سینیر کے لحاظ سے اس کی تقسیم پرائمری اسکول اور ہائی یا سیکنڈری (ثانوی) سکول میں کرتے ہیں۔ سرزمین عرب اور شمالی افریقہ میں بچوں کے سکولوں کو کُتَّاب (ج۔ کتاتیب) اور مکتب بھی کہتے ہیں………………مدرسہ مکتبۂ فکر کے معنی میں بھی آتاہے۔فصلٌ،زاویۃٌ،حلقۃٌ:درسگاہ ۔صف :جماعت کو کہتے ہیں۔
ہجرت کے بعد خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اور سربرآوردہ صحابہ ٔ کرام رضی اﷲ عنہم۔ قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ غزوۂ بدر کے بعض قیدیوں کو مسلمانوں کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض آزاد کیا گیا، بعد میں مسجدِ نبوی کے چبوترے (صُفہ) پر تقریباً (۷۰)صحابہ (أصحاب صفّہ) جمع ہوگئے، جو اپنے اوقات قرآن مجید اور احادیث کے حفظ کرنے، دین کی باتیں سیکھنے، اور اﷲ کی یاد میں صرف کرتے تھے، (اور یہی اسلام کا اولیں مدرسہ کہلایا)۔
یہ طریقہ صدیوں سے گذرتا ہوا آج تک کم و بیش ہر مسلم ملک میں رائج ہے کہ بچوں کو قرآن مجید پڑھنا سکھاتے ہیں، بعدازاں ترجمہ ٔ قرآن ، تفسیر، حدیث اور فقہ نیز علوم عربیہ ادبیہ کی تدریس و تعلیم کا انتظام و اہتمام ہوتا ہے، ہمارے علماء انہی دینی مدارس کے فارغ التحصیل (فضلاء) ہوتے ہیں))
(ج/۲۰، ص۱۵۴ تا ۱۹۴)
(اَلْعَرَبِیَّۃ) :
عرَبک،ارَبک۔ عَرَبی (عَرُبَ، یَعرُبُ، عَرْباً، وعَرُوْباً، وعَرَابۃً، وعُرُوْبَۃ، وعُرُوْبِیَّۃً) فصیح عربی زبان بولنا، خالص عربی ہونا( عَرِب یَعْرَبُ، عَرَباً)بگڑے ہوئے معدے والا ہونا، معدہ خرب ہونا، الجُرحُ: سوجنا اور پیپ والا ہونا۔البئرُ:کنوئیں میں پانی بکثرت ہونا۔ الرَّجُلُ: لکنت کے بعد فصیح ہونا۔ (عَرَبَ، یَعْرِبُ،عَرْباً)الطعامَ: کھانا۔ (عَرَّبَ) المنطقَ:کلام کوعربی غلطی سے پاک کرنا۔ الکتابَ والمقالۃَ ونحوَھما:عربی میں ترجمہ کرنا۔تعریب کرنا۔( احقرکی کتابتعریب علم الصیغۃ اسی سے ہے) العُرْبُوْنَ والعَرَبون:(بیعانہ)سائز دینا، بیعانہ دینا، الاسمَ الأعجمَّي: عجمی لفظ کو عربی لہجہ میں ادا کرنا، معرّب بنانا۔ (أَعْرَبَ) :ظاہر کرنا، عن حاجتہ: صاف بیان کرنا، کلامہ: فصاحت سے بولنا، غلطی نہ کرنا، اس کی مشابہت کرنا، دیہات میں اقامت کرنا، اعرابی بننا (اِسْتَعْرَبَ) عربوں میں ضم ہوجانا۔ قبیح بات بولنا (العُرْبُ والعَرَبُ): عرب لوگ اس کا واحد عربی اور ج أَعْرُبْ و عُرُوْبُٗآتی ہے۔ (العُرْبُ، والعَرْبَاءُ، والعَارِبَۃُ، والعَرِبَۃُ، والعَرَبِیَّۃُ)خالص عربی النسل لوگ (اللُّغۃ۔ العربِیَّۃ):عربی زبان ۔ الأَعْرابی: عرب دیہاتی ج: أعْرَاب۔ العَرَبَۃ: تانگہ ، ریل کا ڈبہ، رکشہ، نیز بہنے والی نہر، العَرُوْبَۃ: شوہر سے محبت کرنے والی خاتون ۔ ج: عُرُبْ۔ ومنہ: ﴿عُرُباً أتْرَاباً﴾بعض مفسرین (عبداﷲ بن عباس)نے یہاں عُرُباً سے مُتَکَلِّماتٍ بالعربیۃ بھی مراد لیا ہے۔ جمعہ کو اسلام سے پہلے عرب لوگ :یوم العُروبۃ کہا کرتے تھے۔اسلام سے قبل کے عربوں کے نظامِ معاشرت ،سماج کو بھی عُروبۃ کہاجاہے۔
وِفاق کے نام میں شامل چوتھا لفظ ’’پاکستان‘‘ہے۔ یہ دو کلموں سے مرکب ہے: Œ پاک، جس کے معنی مشہور و متداول ہیں۔ ستان، یہ جگہ اور زمین کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔افغانستان: افغانوں کی زمین، عربستان: عربوں کی زمین، انگلستان: انگریزوں کی زمین۔ پاکستان: پاک زمین: الأرض الطاھرۃ (پاک لینڈ)۔عربی میں (پ ) کو (ب) سے تبدیل کیا جاتا ہے، اس لیے عربوں کے یہاں پاکستان کا پورانام (جمہوریۃباکستان الاسلامیۃ) ہے۔
اگر وفاق کے لفظ میں صرف (والجامعات) کا لفظ بڑھایا جائے اور پورا نام یوں ہو:( وفاق المدارس والجامعات العربیۃ بباکستان ) تو زیادہ مناسب اس لیے رہے گا کہ اس نام میں جامعات کا تذکرہ باقاعدہ آجائے گا، جن کی باقاعدہ شمولیت اور الحاق پہلے سے موجود ہے،اصل نام میں کوئی بڑی اور نامانوس تبدیلی بھی نہیں ہوگی۔
پاکستان میں دینی مدارس و جامعات کی پانچ بڑی تنظیمیں ہیں۔ ۱۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، دیوبندی مکتبہ فکر۔ ۲۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان ، بریلوی حضرات۔ ۳۔ وفاق المدارس السلفیۃ پاکستان، غیرمقلد حضرات ۔ ۴۔ رابطۃ المدارس الإسلامیہ پاکستان مودودی مکتبہ ٔ فکر ، ۵۔ وفاق مدارس الشیعۃ پاکستان۔ ان سب میں سرکاری و غیرسرکاری تحقیقاتی اداروں کے ریکارڈ کے مطابق وفاق المدارس العربیۃ پاکستان تعدادِطلبہ و مدارس و کارکردگی کے لحاظ سے ۷۵ فیصد سے زائد اور بقیہ چاروں ۲۵ فیصد سے کم ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس طرح کے وفاق بین الاقوامی طرز کے بھی ہیں: مثلاًŒ إتحاد جامعات العالم الإسلامی جس کی ممبرشپ پاکستان میں مہران یونی ورسٹی کو حاصل ہے۔  رابطۃ الجامعات الإسلامیۃ الدولیۃ (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹیز لیگ) جس میں عالم اسلام کے علاوہ ہندوستان کی چند جامعات بطور رکن کے شامل ہیں۔ اس وفاق کے صدر ڈاکٹر عبداﷲ بن عبدالمحسن التر کی اور ناظم اعلیٰ ڈاکٹر جعفر عبدالسلام ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کی انتظامیہ نے بھی اس میں شمولیت کی درخواست دی ہے جو قبول ہوچکی ہے۔ باقاعدہ رکنیت کی سند تاحال جاری نہیں ہوئی۔
الامتِحان:
اردو میں امتحان (اِم۔ تِ۔حان) بکسر الہمزۃ والتاء، عربی لفظ ہے ،بمعنی آزمائش ، جانچ، پڑتال۔ جمع: امتِحانات، یہ محنت (مِح۔نت) کے مادے سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں: رنج، دکھ، تکلیف، سرگرمی، کوشش، مشقت، ریاضت، مزدوری، کام کاج، کام کی اجرت،جمع: مِحَن (فیروزاللغات)۔
اور عربی میں پطرس البستانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب، ’’محیط المحیط‘‘ میں اس مادے (م۔ح۔ ن) پر یوں نظر ڈالی ہے: مَحَنَ، یَمْحَنُ مَحنا ومِحْنَۃً (ازباب فتح) مَحَنَہُ، ضربہ، مارنا۔ اختبرہ۔ امتحان لینا اور تجربہ کرنا، الثوبَ، لبِسہ…… پہن پہن کر پُرانا کردینا۔ وفلانًا شیئاً: اعطاہُ: دینا وجاریۃً: جامعہا، والبیر: کنویں کی صفائی و مرمت کرنا۔ والادیمَ: نرم کرنا، چھلکا اتارنا، مَحَّنَ بمعنی مَحَنَ ہی استعمال ہوتا ہے۔ وامتحن فلانًا: اختبرہ :امتحان لینا۔ ومنہ امتحان الطلبۃ في المدارس: مدارس میں طلبہ کے امتحانات کے مفہوم کو اسی سے لیا گیا ہے۔ القولَ: دبّرہ ونظرفیہ۔ سوچ بچار کرنا، اﷲُ القلبَ:شرحہ ووسّعہ۔ کھول دینا:﴿أولئک الذین امتحن اﷲ قلوبہم للتقویٰ﴾ شَرَحَہَا: کھول دیا اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے والمِحنۃ: اسم لما یُمتحن بہ الانسان من بلیۃ یہ اسم مصدر ہے، مصیبت و آزمائش کے معنی میں آتا ہے جس کی جمع ہے مِحَنْ۔ والمحونۃ: المحق والبََخس ۔ نقص وکمی، (محیط المحیط)۔
الاختبار:
کسی کی خبر لینا،حقیقت معلوم کرنا،امتحان لینا،ٹیسٹ کرنا اورلینا۔المُختَبر:لیبارٹری۔
عصرحاضر میں لفظ امتحان کے مذکورہ بالا معانی میں سے سب سے زیادہ مستعمل و مشہور معنی ’’امتحان الطلبۃ في المدارس‘‘ یعنی تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ کے مروجہ امتحان کے حوالے سے ہیں۔
رَئیِس:
(رَئیِس) سردار،فرمانروا، دولت مند، چودھری، خان، صدر (رَؤُسَ، یَرْؤُسُ، رِئَاسٔۃً از کرم۔ رَأَسَ رِئاَسَۃً از ضرب)رئیس ہونا۔ باب تفعل و افتعال سے بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے (الرَّئِیْسُ)صدر (پریذیڈنٹ) ج۔ رُؤَسَاء۔ اللّجنۃُ الرئاسیۃ صدارتی کمیٹی ۔ المکتب الرئیسی۔ مرکزی دفتر۔
الأَمِْینُ العَامّ:
ناظم عمومی، ناظم اعلی، جنرل سیکریٹری، چیف ایگزیکٹیو، ج۔ أُمَناء۔ (أَمِنَ، یاْمَنُ، أمْناً، وأَمَنًا، وأٔمَانًا، وأَمَانَۃً)مطمئن ہونا۔ محفوظ رہنا۔ (أَمَّنَ……) آمن : ایمان لانا، مطیع ہونا، تصدیق کرنا، امن دینا، آمین کہنا، أمان دینا، مَجْلِسُ الأَْمْن: سلامتی کونسل۔ (اِسْتَأمَْنَ……)أمان طلب کرنا، أَمَّن واِئَتَمَنَ علی کذا، کسی کو کسی چیز کا امین بنانا۔ تَأمِینُ الحیَاۃ: بیمہ زندگی۔ الأمانۃ العامۃ:سیکرٹریٹ ۔ مرکز ۔
خَازِنْ:
صیغہ اسم فاعل از باب سمع، خزانہ جمع کرنے والا، ذخیرہ کرنے والا۔ ج: خَزَنَۃُٗ وخُزّاَن۔
مَسْؤُلُٗ:
یہ صیغہ اسم مفعول ہے ، ازباب فتح، پوچھاجانے والا، پوچھ گچھ کیا جانے والا۔ذمہ دار۔ ج: مسؤلین: مُتَسَوِّلُٗ: بھیک مانگنے والا۔تسویل:آراستہ کرنا۔
مُعْتمَدْ:
یہ بھی صیغہ اسم مفعول ہے، از باب افتعال۔ اعتماد کیا جانے والا۔ ثقہ، مُعتبر۔ ج: مُعْتَمَدِیْن۔واضح ہو کہ اس لفظ کا تلفظ بفتح المیم ہے ،بعض حضرات غلطی سے اس کو بکسر المیم الثانیہ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے حضرات کو صحیح لفظ کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے اصلاح کرنی چاہیے۔
شَہَادَۃُٗ:ج: شَہَاداَت ۔گواہی۔ حاضری، مشاہَدہ(از باب سمع)، سند کو شہادت اس لیے کہتے ہیں کہ گویا یہ اپنے حامل کے لیے گو اہی کی حیثیت رکھتی ہے۔
سَنَدج اسانید: سرٹیفیکیٹ،روایت۔
مؤَھِّلات، وثائق،مستَنَدات: ڈاکو منٹس، دستاویزیں،اسناد، سرٹیفیکیٹس۔
السیرۃ الذاتیۃ: سی وی۔
ختْم،خاتَم:اسٹمپ،مہر۔ومنہ خاتَم النبیین۔
طابِع :ڈاک ٹکٹ۔
تذکِرۃ: ریل،جہاز بس وغیرہ کاٹکٹ، ٹوکن۔
اِسْتِمَارَۃُٗ: ازباب استفعال، طَلَبُ الأَمَارَۃ: نشانی طلب کرنا۔ فارم، اپلیکیشن۔ ج: اِسْتَمارَات۔
رَسْم ج رسوم: فیس۔
وَرَقَۃُ المُوَافَقَہْ: ایڈمٹ کارڈ، رول نمبر سلپ۔ ج۔ ورقات الموافقۃ۔
وَرَقَۃُ الامتِحان؍ الاختِبار:امتحانی پرچہ۔
کراسۃالامتِحان؍ الاختِبار: امتحانی کاپی۔
مُلحَق،ج: ملحَقات،الکراسۃ الفرعیۃ:ضمیمہ،ضمیمے،بی کاپی۔
بَرْنَامَجْ: شیڈول۔ پروگرام، ج: بَرَامِجْ، بَعْثَرۃ سے - بَرمَجَۃ - بطور فعل بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جَدْوَلُٗ، جَدول الأعمال، أجَندۃ: نقشہ ۔ایجنڈا،چھوٹی نہر۔ ج: جَدَاوِل،جداول الأعمال۔
کَشْفُ الحُضور: حاضری نامہ۔ فہرست ِ حاضری۔ ج: کُشُوْف الحُضور۔
بِطاقۃ: کارڈ،پرچی۔
بِطاقۃ الہُوِیَّۃ: شناختی کارڈ۔
مَجَلۃ:میگزین،رسالہ۔
المَجَلَّۃ الحائطیۃ، الجِداریۃ: وال میگزین ، دیواری رسالہ۔
الجریدۃ : : ہفت واری ٹائپ میگزین ۔
الصحیفۃ : اخبار ، نیوز پیپر ۔
الیومیۃ، الشہریۃ، الاسبوعیۃ : روزنامہ، ماہنامہ، ہفت روزہ ۔
رئیس التحریر: اڈیٹر۔
مدیر التحریر: مدیر منتظمَ ۔
مدیر الامتحانات: ناظم امتحانات۔
مفتِّش الاوراق: پرچہ چیکر
اعادۃ النظر: نظرِ ثانی۔
شیخ الجامعۃ: ہیڈ آف یونی ور سٹی۔
رئیس الجامعۃ: مہتمم ،چانسلر۔
نائب رئس الجامعۃ: وائس چانسلر۔
مدیرالجامعۃ،الامین العام: ناظمِ اعلی۔
مدیر المدرسۃ: پرنسپل، ہیڈ ماسٹر، ناظم۔
معلِّم: استاذ،ٹیچر، ماسٹر۔
استاذ،بروفیسور: پروفیسر۔
محاضِر: لیکچرار،محاضَرَۃ،ج:محاضرات۔لیکچر۔
النادي،النوادي: انجمن، مجلس، کلَب۔

طالب جامعي:یونیورسٹی کا طالب علم۔
مَجْمَع ُ اللغہ العربیۃ: ارَبک لینگویج بورڈ۔
جامعۃ اللغۃ العرَبیۃ المفتوحۃ:ارَبک لینگویج اوپن یونیورسٹی۔
مَقْہٰی: کینٹین۔
قاعۃ الامتحان: امتحانی ہال۔
الشرَف، مرتبۃ الشرَف․․․الاولی ․․․الثانیۃ․․․الثالثۃ: پوزیشن۔ج: مراتب الشرف۔
التقدیر: درجہ (ممتاز، جید جداً جید، مقبول)۔
الدرَجۃ : سکیل۔
رقْم ،ج،: ارقام:نمبرات۔
مراقب الامتحانات: نگران۔
المراقب الرئیس: نگرانِ اعلی۔
التوقیع؍الامضاء: دستخط۔
مرکز الامتحان: امتحانی سینٹر۔
فترات الامتحان:الفترۃ الاولی ،۔۔ الثانیۃ ، ۔۔الثالثۃ: سیمسٹر۔
امتحان المقابَلۃ الشخصیۃ: وائیوا۔
ورَقۃ الاختبار:ٹیسٹ پیپر۔
الامتحان الفرعي: ضمنی امتحان۔
الطِّب، الطَّبابۃ: میڈیکل۔

الہندسۃ: انجینیٔرنگ۔
العلوم: سائنس۔
الحساب: ریاضی۔
التَکنالوجیا ، التقنِّیۃ : ٹیکنالوجی ۔
العلوم الاجتماعیۃ : معاشرَ تی علوم۔
الرِّیاضۃ: پیٹی ، کھیل کود۔
مدیر المکتب:ناظمِ دفتر۔
مُحاسِب: ناظمِ مالیات،آڈیٹر۔
الاقتِصاد: معیشت۔
المدَ نیۃ، التمدن: شہریت۔
الفُنون: آرٹ ،ڈرائنگ۔
وِسا مُ التفوُّق : تمغہ ،شیلڈ۔ ج: اَوْسِمَۃ ۔
کشف النتیجۃ: مارک شیٹ، ج: کشوف النتائج۔
مَقْطُوُع اللِّحیۃ:
یہ لفظ مسامحۃً استعمال ہوتا ہے، اصل لفظ مُقَصِّرُ اللحیۃ یا مُحلِّقُ اللحیۃ استعمال کرنا بہتر ہے۔کیونکہ بالوں کے کٹانے یا منڈھانے کے لیے لفظ قطع مستعمل و مستخدم نہیں ہوتا۔
وِفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے امتحانات میں طالب علم کی کامیابی کے لیے چار درجات (گریڈز) قائم کیے گئے ہیں۔ ۴۰ فی صد سے کم نمبرات حاصل کرنے والا (راسب) (فیل، ناکام)۔
۴۰ فی صد سے ۵۰ فی صد تک نمبرات حاصل کرنے والا (مقبول) (سی گریڈ)،۵۰ سے ۶۰ فی صد تک نمبرات حاصل کرنے والا (جید) (بی گریڈ)۶۰ فی صد سے ۸۰ فی صد تک نمبرات حاصل کرنے والا (جید جداً) (اے گریڈ) اور ۸۰ فی صد سے ۱۰۰فی صد نمبرات حاصل کرنے والا ممتاز (اے گریڈ) کہلاتا ہے(عالم عربی میں۹۰ سے ۱۰۰ نمبر والے کو ممتاز مرتفِع بھی کہاجاتا ہے)۔
مُمْتَازْ:
الگ تھلگ، فائق، منفرد، یکتا، نمایاں (مادہ : م، ی، ز) یہ باب افتعال سے اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں کے لیے بعد از تعلیل یکساں مستعمل ہوتا ہے۔ یہاں یہ اسم فاعل ہو تو زیادہ مناسب ہے۔
جَیِّدُٗ جِدّاً:
بہت خوب، بہت اچھا، زیادہ عمدہ، سچ مچ بہتر، بہت کھرا۔ ان میں پہلا کلمہ صیغہ ٔ صفت ہے، اصل میں جَیْوِدُٗ تھا اعلال کے بعد جَیِّدُٗ ہوا،(مادہ: ج، ی، د) اور دوسرا کلمہ جِدا ً مصدر ہے۔ ازباب ضرب (مادہ: ج، د،د)، سچا ہونا، حق ہونا، سنجیدہ ہونا، ثابت ہونا، حَقّاً۔
مَقْبُوْلْ:
(مادہ : ق، ب، ل) اس کے معنی اردو میں مشہور ہیں ، صیغہ اسم مفعول ہے، ازباب سمع۔
رَاسِبُٗ:
(مادہ: ر، س، ب) اترنے والا، دھنسنے والا، فیل، ناکام۔ اسم فاعل ازباب نصر۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے


فالحمد ﷲ الذي بنعمتہ تتم الصالحات،وصلی اﷲ علی سیدنا محمدٍوعلی آلہ وصحبہ وسلم


ابو لبید ولی خان المظفر
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878183 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More