سانولی رنگت کی لڑکی نے سلمان کی طرف دیکھا
سلمان کی آنکھیں بے حد سرخ تھیں ....
سلمان اسی پہ نظریں جمایے لیٹا تھا ...
وہ ....''وہ ...''گگ ...گیند تھی یہاں پہ ....''وہ شش ...شائد اس طرف آئ ہے
....''وہ لڑکی ہکلاتے ہے بولی ...
سلمان نے اس پر سے نظریں ہٹا کر گیند پہ مرکوز کر لیں ...اس لڑکی نے سلمان
کی نظروں کا زاویہ دیکھا تو ....اسے زمین پہ سلمان کی چارپائی کے پاس
گیند نظر آ گئی ...
وہ شش و پنج کا شکار ہو گئی ...اس کے لئے آگے بڑھنا مشکل ہو رہا تھا ....
سلمان ہنوز چارپائی پہ لیٹا رہا ...
اس کی نگاہیں پھر سے اس لڑکی پہ جم گئیں ....
وہ لڑکی آھستہ سے چلتی ہوئی آگے بڑھی ....اور زمین پہ جھک کر گیند اٹھائی
اور ...
پیچھے مر کر بھاگتی ہوئی دیوار پھلانگ کر اپنی چھت پہ اتر گئی ....
...........................................
خوف و حراس سے اس کے بدن سے پسینے چھوٹ رہے تھے ....
اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ..سفید نیٹ کا لہنگا پہنے ....
ہونٹوں پہ سرخ لپ اسٹک وہ محفل کی سب سے زیادہ چاہی اور سراہی جانے والی
لڑکی تھی ...
آج تو حسنہ بھی آرزو پہ صدقے واری جا رہی تھی ...
اس کے چمکتے ہے روپ سے نظریں ہٹانا بے حد مشکل ہو رہا تھا ....اس ملک کے
بڑے اور مشہور و معروف کوٹھوں سے مہمان خصوسی اے بیٹھے تھے ...
حسنہ کے لئے یہ عزاز کی بات تھی ....
کہ اس کے اس چھوٹے سے مکان میں بڑے بڑے لوگ تشریف فرما تھے ...
اور یہ سب آرزو کی بدولت تھا
اس کے فن
اس کے حسن
اور اس کے ماہر رقاصہ ہونے کی وجہ سے تھا
وہ ایک تراشیدہ مجسمے کی مانند سب کے بیچ بیٹھی ہوئی تھی ...
وہ اپنے آنسوؤں کو بمشکل روکے ہویے تھی
اس کی آنکھوں میں نمی تھی
اداسی تھی
یوں جیسے کسی خوبصورت پرندے کو اس کے ساتھیوں سے
اس کے گھونسلے سے جدا کر کے
کسی اجاڑ ویران جگہ پہ پنجرے میں قید کر دیا جائے
وہ تو پھر انسان تھی ...
جیتی جاگتی ...
وہ ارد گرد سے بے نیاز گہری سوچوں میں گم تھی
اس بات کی پرواہ کے بغیر کے اس کی کتنی بولی لگی جا رہی تھی ...
سب ہی چاہتے تھے کہ آرزو انھیں ملے
یہ آرزو سب کی آرزو بن چکی تھی
اس انمول ہیرے کو سب ہی پانا چاہتے تھے ...
آخری بولی تین کروڑ تھی
جو کہ اس ملک کے سب سے بڑے کوٹھے کی طرف سے لگائی گئی تھی ...
حسنہ کے پاؤں خوشی سے پھول رہے تھے ....
وہ کب جانتی تھی کہ اتنا زیادہ معاوضہ مل جائے گا
اس جھونپڑی نما مکان سے نکل کر اب وہ ستارہ محل کی شان بننے جا رہی تھی
ستارہ بائی بے حد خوش تھی ...
وہ اٹھی اور آرزو کے ماتھے پہ بوسہ دینے لگی ...
ستارہ بائی کی بیٹی جگن کے مرنے کے بعد اب ستارہ بائی اور بھی آزاد ہو چکی
تھی ...
روز ہی کوئی نہ کوئی لڑکی امیر زادوں کے بید روم کی زینت بنتی ...
آرزو آخری کوشش کے طور پہ آرزو حسنہ کے قدموں میں گر پڑی
مگر بے رحم حسنہ نے اسے پیچھے کو دھکا دیا اور وہ دور جا گری ...اب حسنہ کے
لئے وہ پرائ ہو چکی تھی ...اسے آرزو سے کوئی مطلب نہیں تھا ...
کچھ ہی دیر میں وہ ستارہ بائی کے کوٹھے پہ پہنچائی جا چکی تھی ...
ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں وہ سارا راستہ روتی رہی ...
............................................
شاہ .زر اور پارس ریسٹورانٹ میں بیٹھے کافی پی رہے تھے ...شاہ زر کافی کا
آخری گھونٹ بھرا ہے مگ پہ رکھا ...پارس کی کافی یوں ہی پڑے ٹھنڈی ہو چکی
تھی ...
اس کا اپنا وجود بھی یوں ہی ٹھنڈا ہو رہا تھا ...
بولو پارس ....''
کیا کہنا چاہتی ہو ...''پچھلے ایک گھنٹے سے میں ویٹ کر رہا ہوں ...''
پلیز ...''کچھ تو بولو ....''شاہ زر اکتاہے اے بولا ...
اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو ...ای تھنک ...ای شد گو ناؤ ...''
شاہ زر اپنا موبائل اٹھا کر کھڑا ہو گیا ...
نو .....نو ...''شاہ زر پلیز بیٹھو ....''
پارس نے خد کو سمبھالا ...پلیز سٹ ....''
کیا کروں بیٹھ کر ....''تم تو کچھ بول نہیں رہی ....''مجھے اور بھی بہت سے
کام ہیں ...''آئے کانٹ ویٹ ...''
اوکے ....''میں بتاتی ہوں ....''
وہ ....''وہ -...بات یہ ہے شاہ زر ....
کہ ....
مجھے ...''وہ ....''مجھے تم سے محبّت ....ہے ....''
پارس نے نظریں جھکاے کہا ....
اس نے نظریں اٹھائیں ... تو شاہ زر کو گھہری چپ لئے اپنی طرف دیکھتا پایا
...
کچھ دیر گھمبیر خاموشی چھائی رہی ...
کچھ دیر بعد شاہ زر بولا ...
سو واٹ ...''
ای وانٹ ٹو میری یو ....''
پارس نے جلدی سے کہہ دیا ...کہ کہیں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے ...
تم کل سے آفس نہیں او گی ....''شا زر ....پارس کی آنکھوں میں دیکھتے ہویے
غصے سے بولا ....
بٹ ...کیوں شاہ زر ....''پارس حیرانی سے اسے دیکھنے لگی ....
تمھیں برا لگا ...''ای ایم سوری ....''
مجھے اس قدر بے باکی بلکل پسند نہیں ....''وہ اسے گھورتے ہویے بولا ...
ای ایم سوری شاہ زر .....''میں تو اب تک اس انتظار میں رہی ....کہ تم یہ
بات کہو گے ....''
پارس کی بات پہ شاہ زر نے قہقہ لگایا ...
یو مین ...''میں تم سے کہوں گا ....کہ میں تم سے شدید قسم کی محبت کرتا ہوں
...اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ....''
ہا ہا ہا ....فنی ....ویری فنی ....''
شاہ زر حیات ....''اور محبت ....''
کیسے ممکن ہو سکتا ہے ....''
اور ....''یہ بھی کیسے ممکن ہے ...کہ ...ہا ہا ہا ...کوئی شاہ زر حیات سے
محبت کرے ...''
امپاسیبل ....''
شاہ زر سے ہنسی ضبط کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا ....
پارس کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں ...آنسوں کے قطرے تیزی سے میز کی سطا پہ
گرنے لگے ....
شاہ زر بمشکل اپنی ہنسی کو روکا ...
اگر بے خود سا ہو جاتا ہوں میں تیرے پہلومیں
تو اس بے قراری کو محبت کا نام نہ دے
تمھیں مجھ سے محبت نہیں ہے ...صرف دلّگی ہے ...''
اور اگر مان بھی لیا جائے ....کہ تمھیں محبت ہے ...''
تو میں یہ ہی کہوں گا ....کہ مجھے نہ تو تم سے محبت ہے ...اور نہ ہی میں تم
سے شادی کر سکتا ہوں ...''
تم میری فقط دوست ہو ...نتھنگ ایلس ....''
آئے ہوپ ...''یو اندر اسٹینڈ ''...
بٹ ...شاہ زر ...''محبت تو شادی کے بعد بھی ہو سکتی ہے ...''پارس ابھی بھی
آس کا جگنو تھامے بیٹھی تھی ...
تم خود بتاو ....پارس ''...جو محبت اب تک نہ ہو سکی ...''وہ بعد میں کیسے
ہو سکتی ہے ....''
شاہ زر میری بات ...''
پلیز ...''لیو دس ٹاپک ....''
اینڈ ...''یہ آنسو بہا کر لوگوں کے سامنے اپنا اور میرا تماشا مت بناؤ
...''
اوکے ...''تم بیٹھی رہو ...''جب یہ شوق پورا ہو جائے تو چلی جانا ....''
....شاہ زر اپنا موبائل اٹھاے چل پڑا ....
پارس یوں ہی سر جھکاے روتی رہی ...
شاہ زر کے کہے گئے الفاظ پارس کے کانوں میں گونج رہے تھے ...
وہ اسے تہی دامن چھوڑ کر جا چکا تھا
............................................
یوں لگتا تھا تم سے بچھڑا تو مر جاؤں گا
نجانے اب موت کیوں نہیں آتی
تیز رفتار کار چلاتے ہی اس کا کہیں اور ہی تھا ...
مجھے نہ تو تم سے محبت ہے ...
نہ ہی ....نہ ہی میں تم سے شادی کر سکتا ہوں ...
وہ بعد میں کیسے ہو سکتی ہے
محبت نہیں ہے ....
صرف دلگی ہے
صرف دلگی
دلگی
محبت نہیں
نہیں ...
شاہ زر کے الفاظ کی باز گشت میں اس نے دونوں ہاتھ سٹیرنگ سے ہٹا کر اپنے
کانوں پہ رکھ لئے ...
سامنے سے آتا ٹرک اس کی کار سے ٹکرایا ...
اور کار دور جا گری ...
جاری ہے ..... |