عطش
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
|
آج کے اسجد کے سلوک پر مجھے رہ رہ کر اپنے
اوپر پچھتاوہ ہو رہا ہے پچھتاوہ کہ میں بے لوث کیوں ہوں میں نے اپنے پر کاٹ
کر دوسروں کو اڑنے کے لئیے کیوں دیئے- میں نے اپنی جوانی ان پہ کیوں ضائع
کردی یہ میری اولاد نہیں تھے مگر میں نے ماں باپ کے ساتھ مل کر ان ننھے
پودوں کی آبیاری کی وہ غریب تھے اور ہم آٹھ بہن بھائی بابا کلرک تھے ان کی
تنخوہ میں گزارا مشکل تھا ماں سارا دن پردے سلائی کیا کرتی اس کے ہاتھ میں
بہت نفاست تھی وہ کام کر کر کے تھک جاتی بہن بھائی چھوٹے تھے اسے بار بار
تنگ کرتے وہ ماں کی توجہ چہتے تھے مگر ماں کے پاس وقت نہیں تھا وہ اگر ان
کو جذباتی سہارا دیتی روایتی ماؤں کی طرح انہیں خود میں بھینچ کے سلاتی یا
نوالے توژ کے ان کے منہ میں ڈالتی تو وہ ایک وقت کے کھانے سے محروم رہ جاتے
بچے احساس کمتری کا شکار ہونے لگے انکے اترے چہرے دیکھ کر جو ماں اور باپ
دونوں کی بے توجیہی کا شکار ہو چکے تھے میں نے ان کو اپنی آغوش میں لے لیا
اب وہ خوش خوش میرے گرد جمع رہتے ہوم ورک بھی میرے پاس بیٹھ کر کرتے میرے
پاس بیٹھے بغیر کھانا بھی نہ کھاتےماں باپ بھی خوش تھے کہ میں ان کا ہاتھ
بٹانے لگی تھی ماں کو اپنا چھوڑ کر اٹھ کر ان کے لیئے کھانا بنانا نہیں
پڑتا تھا اور بابا کو کام سے آکر اماں کے کام چھوڑ کر اٹھنے اور کھانا
وغیرہ دینے کا انتظار کرنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی تھی سب خوش تھے اور میں
انکو مگن دیکھ کر خوش تھی اب ہم تینوں ملکر زندگیوں کو قدرے سہل بنانے میں
کامیاب ہو گئے تھے بچے رفتہ رفتہ بڑے ہوتے گئے اماں بابا بوڑھے ہوتے گئے
اور میں---- ان ذمہ داریوں کو نبھاتے نبھاتے میں نے کب جوانی کی دہلیز پر
قدم رکھا مجھے معلوم ہی نہ چلا جب میرے لئے کوئی رشتہ آتا تو اماں بابا گھر
کے حالات دیکھتے اور جہیز کے نام پر کچھ نہ ہونے کی بدولت دل مسوس کر خاموش
ہو جاتے اور خود کو تسلی دیتے بس چند سال اورانتظار ہے پھر بیٹے جوان ہونگے
انکی تعلیم مکمل ہو گی تو سکینہ کے ہاتھوں میں مھندی رچائیں گے پھر عاشر
جوان ہوا وہ کام پر لگ گیا مگر اسے اور بھی پڑھنا تھا وہ جتنا کما کر لاتا
اپنی فیسوں پہ لگا دیتا پھر اسجد اسکے بعد شھباز ایک کے بعد ایک وہ سب جوان
ہوتے گئے انتظار انتظار انتظار--- جو بڑھتا گیا - انہیں اپنی زندگی بنانی
تھی تعلیم کا نہ ختم ہونے کا سلسلہ جاری رہا میری عمر ڈھلتی گئی چھوٹی
بہنوں کے قد مجھ سے بڑے ہوتے گئے پھر ان سب کی تعلیم مکمل ہوگئی نوکریاں
بھی لگ گئیں اب جو رشتہ آتا میری چھوٹی بہنوں کے لیئے ہوتا اماں بابا اداس
ہو جاتے میں نے انکی آنکھوں کی بجھتی جوت دیکھی تو خود کو دفن کر دیا پانچ
بیٹیوں کا بوجھ کم نہیں ہوتا اگر وقت یونہی گزرتا جاتا تو کل ان کے بھی
رشتے آنے بند ہو جاتے میں نے میرے جہیز کا سامان گھٹانا اور اماں کے ساتھ
مل کر ان کا جوڑنا شروع کر دیا اسے بیٹوں کی کمائی کا اتنا فائدہ ہوا تھا
کہ اب اسے پردے نہ سینے پڑتے اور اس کے پاس بہت وقت ہوتا ہم نے ایک ایک کر
کے چاروں بہنوں کو بیہ دیا ماں کومیری شادی کی اور مجھے بھائیوں کے بچے
کھلانے کی فکر لاحق تھی میرے لیئے کوئی رشتہ نہ آیا جو آتا وہ کئی بچوں کا
باپ نکلتا مجھے اب کوئی حسرت نہ تھی شادی کرنے کی ایک ایک کر کے ان تینوں
کی بھی شادیاں ہو گئیں اور ان میں سے جو دوردراز کے شھروں میں نوکریاں کرتے
تھے وہ اپنی بیویوں کو ساتھ لے گئے بابا اپنی ذمہ داریاں پوری کر چکے تھے
افسر بیٹوں کے باپ تھے مگر میرا بوجھ انکو جھکے کندھے اٹھانے نہ دیتا تھا
مجھے دیکھ کر سر جھکا لیتے مگر مجھے زیادہ پروہ نہ رہی تھی وہ بھی عید کا
دن تھا سب بہن بھائی جمع تھے مجھے رفتہ رفتہ احساس ہوا کہ بھابھیاں مجھے
زیادہ پسند نہیں کرتیں باقی بہنوں کو خوشی خوشی ساتھ بٹھاتیں مگر مجھے غیر
محسوس انداز سے نظر انداز کر دیتیں مجھے وہم محسوس ہوا مگر جب میں بھتیجوں
کو خوشی خوشی اٹھاتی تو وہ ان کو بہانے سے وہاں سے لے جاتیں- میرے دل پر اک
بوجھ آگرا - اسجد کا بیٹا کافی دیر سے فیڈر کے لیئے مچل رہا تھا اور شانزے
پاس نہ تھی تو میں فیڈر بنا کر لے گئی شانزے نے جب دیکھا تو فیڈر زمیں پر
دے مارا یہاں وہاں فرش پد بکھرا دودھ دیکھ کر میں بھرائی آنکھوں سے اسے
دیکھے گئی اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا اور اسجد کو بلا کر کہا کہ میں اسکے
معاملے میں مداخلت کرتی ہوں اور نہیں چہتی کہ وہ میرا کچن استعمال کرے اسجد
نے بے نقط مجھے سنائیں وہ بچے جنہیں میں نے اپنے ہاتھوں پالا تھا وہ میرے
ساتھ یہ سلوک کر رہے تھے کہ اس نے سب بھائی بھابیوں حتی کہ بہنوئیوں کی
موجودگی کا بھی لحاظ نہ رکھا اماں باپ دکھ سے سب دیکھتے رہے کچھ نہیں بولے
میں مارے خفت کے میں وہاں سے چلی گئی اور سارا دن اماں ابا اور میرے مشترکہ
کمرے میں لیٹی روتی رہی شام کو ابا چند اجنبی لوگوں کے ساتھ گھر میں داخل
ہوئے تھوڑی دیر میں سب گھر والے ان کے گرد جمع تھے کچھ دیر اونچی اونچی
چیخنے کی آوازیں آتی رہیں کیسے کیوں ہم سے مشورہ نہیں کیا جیسے بے ربط لفظ
میرے کانوں تک آتے رہے مگر میں بہر نہیں نکلی مگر وہ سب اندر آگئے - "سکینہ
خاتون آپکا نکاح حمید الدین سے --- کیا آپکو قبول ہے؟" ابا جو فیصلہ مہینوں
سے نہ کر پارہے تھے اک جھٹکے میں کر ڈالا- "اپنے غریب ماں باپ کو معاف کرنا
میری بیٹی - میں آج سمجھ گیا ہوں یہ گھر تیرا نہیں تھا جہاں تیرے ماں باپ
کی غریبی کاٹتے کاٹتے تیری عمر کٹ گئی اور ہم تجھے اس کا صلہ بھی نہ دے
پائے- " اور میں تڑپ کر انکے سینے سے جا لگی دیکھی جو باپ کی غربت تو چپکے
سے مر گئی........ . اک یٹی باپ پر احسان کر گئی سکینہ خاتون اس گھر سے
رخصت ہو کر یہاں آگئی اور آتے ہی دو ننھے جڑواں بچوں کی ماں بن گئی جن میں
اسے شھباز اسجد کی معصوم شکلیں نظر آنے لگیں اور وہ چند مہ کے ان معصوم
بچوں کو سینے میں بھینچے زارو زار روتی چلی گئی کہ دیکھنے والی آنکھیں بھی
حیران تھیں- میری زندگی کا محور اک بار پھر میری ذات نہیں رہی مجھے خوف آتا
ہے کہ یہ بچے بھی بڑے ہو کر میرے ساتھ وہی سلوک نہ کریں مگر زندگی نہیں
رکتی سو میں کیسے رک جاؤں اک بار اپنوں کو آزمانے کے بعد اب اجنبیوں کو
آزمانے چلی ہوں اپنی بچی کھچی حسرتیں ان معصوموں پر نکالنے - مجھے نہیں
سوچنا کہ کل وہ کیا کریں گے کیونکہ جب تک زندہ ہوں امید کا دامن تھامنا
چہتی ہوں----- |
|