مشعل بجھنے نہ پا ئے!!

عشاء کی نماز کے لئے وضو کر کے جاء نماز بچھایا تو شیلف پر رکھا ایک رسالہ ہاتھ آ گیا۔ واپس رکھتے رکھتے ایک مختصر اور دلچسپ مگر سبق آ موز کہا نی پر نظریں ٹک گئیں۔ مصنفہ کا نام تھام شعل پر وین! فورا دل سے دعا نکلی اﷲ ان کو سلامت رکھے! اور شاید یہ وہی لمحہ ہو گا جب وہ بھی نماز پڑ ھ رہی ہوں گی اپنی زندگی کی آ خری نماز ! یا شاید سو گئی ہوں اور پھر اٹھ کر تہجد میں رب سے ملا قات کی ہو کیونکہ وہ فجر سے پہلے ہی اﷲکے دربار میں خود پہنچ چکی تھیں!

صبح فون کے ذریعے ان کے انتقال کی خبر ملی تو فورا رات کو ان کے لیے کی گئی دعا یاد آ گئی ! یا اﷲان کے توشہ آ خرت میں اس دعا کو بھی شامل کر لیجئے گا مگر پھر خیال آ یا کہ ماشاء اﷲ وہ تو خود اتنا بڑا سر مایہ لے کر اس آ خری سفر پر روانہ ہوئیں ہیں جس سے وہ ابدی دنیا کے لئے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔ان کا صد قہ جاریہ ہمیشگی کی دنیا میں ان کا معاون اور مددگار ہو گا ! ان شاء اﷲ!

اسم با مسمٰی مشعل آپا کا تعارف کیا کروائیں ؟ کسی کی والدہ! کسی کی بہن! مگر اس سے پہلے کا تعارف ہمارے لیے کچھ اور تھا !کسی کی بیگم تو کسی کی بھاوج اور دیورانی ! اور اب کچھ عرصے سے ان کی نواسیوں سے ہماری بھتیجی کی دوستی کے حوالے سے کسی کی نانی ہونے کا حوالہ بھی ذہن میں آجاتاہے ! اور ان کے انتقال کے بعد کا تعارف کہ کسی کی پھپھی ہیں ! یہ تمام رشتے ان کی ذات کے گرد ہالہ کی طرح ہیں جو ہر گذرتے دن کے ساتھ سامنے آ تے رہے کہ ہم حیران ہوئے بنا نہ رہ سکتے تھے مگر ہمارے لیے تو وہ خود اپنی پہچان تھیں کہ ان سے تعلق بالکل براہ راست تھاہمارا !!

جی ہاں ! یہ جب کی بات ہے ہماری کم عمری کے زمانے میں وہ ہمارے محلے میں درس قرآن دینے آیا کر تی تھیں ۔ ایک سر کاری کالونی میں رہائش پذیر خواتین اور وہ بھی اعلٰی تعلیمیافتہ ! دعوت کے لیے سنگلاخ چٹان ثابت ہو تی ہیں ۔تحفظات سے بھر پور! دلائل کی متمنی !! مگر چونکہ نوعمر افراد پا بندیوں اور خوف و خطر سے ماورا ہو تے ہیں لہذا ان کو ہمارے سمیت کچھ مستعد اور متحرک کارکن دستیاب ہو ہی گئے تھے لیکن یقینا اس کا ساراکریڈٹ مشعل آپا کی دلسوزی کو جاتا ہے!ان کے انتقال کے بعد ان کے دروس کا حال کچھ یوں بھی سننے میں آ یا کہ وہ صبح و شام کی واک کے لیے جدا جدا پارک میں جا تی تھیں اور وہاں لوگوں کو درس قرآن کی دعوت دیتی تھیں ! کیا SMARTطریقہ کار تھا مشعل آ پا کا!!

آج بھی میرے کانوں میں ان کی خوش الحانی سے پڑھی گئی آیات گونج رہی ہیں ۔دھیمے دھیمے نرم مگر پر جوش آ واز میں کی گئی تفسیرشعور میں جیسے آج بھی زندہ ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ درس قرآن کی محفل میں میں آ ج بھی وہ انداز ڈھونڈتی ہوں یا اختیار کر نے کی ناکام سی کو شش کر تی ہوں تو غلط نہ ہو گا ! شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اولین نقوش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں اور انسان اس کے حصار سے نہیں نکل پا تا!! قرآن پڑ ھتے وقت ان کی صورت بدل جا یا کر تی تھی ۔ قرآن پڑھتے پڑ ھاتے ہو ئے میرے تصور میں ان ہی کی صورت آ جا یا کر تی ہے ۔شکل و صورت تو اﷲ کی دین ہے مگر اخلاق اور کر دار کی خوبصورتی اس سے کہیں جدا نظر آ تی ہے۔

ان کی ہدایات کے مطا بق تیار کر دہ درس قرآن کے دعوت نامے آج بھی کہیں پرا نی کتابوں میں دھونڈنے سے مل جائیں گے ۔ انہوں نے درس قرآن کے شر کاء کی رپورٹ جس طرح ڈائری میں بنوائی تھی وہ اب بھی پرانی الماری میں کہیں محفوظ ہو گی ۔حیرت کی بات ہے کہ آج جب میں ان کی جگہ کھڑی ہوں تو تمام تر کمزوریوں ، خا میوں اور ما ہ و سال کے اتنے فرق کے باوجود اسی طرز کے دعوت نامے اور رپورٹ بنا رہی ہوں بس اتنی تبدیلی ضرور ہوئی ہے کہ بیس ،پچیس سال پہلے ہاتھ سے لکھ کر فوٹوکا پی کروائے گئے تھے اور آ ج کمپیوٹر سے کمپوز کیے گئے ہیں ! یعنی بات وہی کہ اولین استاد یا رہنما خود بخود اپنے مقلدین کے اندز و اطوار میں نمایاں ہو جاتے ہین ۔ اے کاش ! ہمارا انجام بھی ان کے ساتھ ہو! !اﷲ
وہ دلسوزی بھی عطاکرے جو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوسکیں !

دوسری صلاحیت مشعل آ پا کی تحریروں میں معاشرتی ساخت کے تانے بانے اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ ہر لفظ کی کوکھ سے کوئی نہ کوئی اصلاح کا پہلو نکل آ تا ہے ۔ ان کے لیے صدقہ جاریہ بننے والی بے شمار چیزوں میں سے ایک یہ بھی ہے جس میں ہرحرف کا اجر خود رب پاک دینے والا ہے !

سمجھ میں نہیں آ تا کہ ان کی تعزیت کس سے اور کس طرح کروں ؟؟ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ کوئی مجھ سے میرے اس نقصان پر تعزیت کرے ؟ دکھ کا اظہار کرے اور کہے کہ ماں کے بعد روحانی استاذ کو کھو دینا کتنا بڑا خلا ہے ؟ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان کے انتقال کے کے چند روز بعد اسی کالونی سے کہیں اور شفٹ ہو نے والی بہن سے گفتگو ہو ئی تو معلوم ہوا کہ اب وہاں ہمارے نظریے کا چراغ جلانے والا کوئی نہیں ہے ؟ دل مزید دکھ سے بھر گیا کہ اب وہاں کون اور کیسے مشعل جلائے گا ؟ کیا ہے کوئی ان کی جگہ لینے والا؟؟؟
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80551 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.