جب ہنسانے والا ہی رولا گیا
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
22 اپریل 2011 کو شوبز کی دنیا کا یہ چمکتا دمکتا سورج ہمیشہ کے لیئے غروب ہوگیا ان کے انتقال کی خبر نے پورے پاکستان کو سوگوار کردیا معین اختر شو بز کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ ہونے کے ساتھ درویش صفت انسان بھی تھےان کے انتقال کے بعد اداکار لہری کے علاوہ ایسے بے شمار نام سامنے آئے جن کی وہ مالی معاونت کیا کرتے تھے |
|
|
آج 22 اپریل کو معین اختر کو ہم سے جدا
ہوئے پانچ سال بیت گئے جس نے اپنے مخصوص انداز گفتگو اور چٹکلوں سے لاکھوں
لوگوں کے دلوں پر راج کیا وہ گھٹن زدہ ماحول میں لوگوں کے چہروں پر
مسکراہٹیں بکھیرتے تھے 24 دسمبر 1950 کو شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئے
لڑکپن سے ہی شو بزکی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہر بڑے اداکار کی طرح معین
اختر کی بھی فنی درسگاہ ریڈیو پاکستان کراچی ہی رہی معین اختر نے اپنے 45
سالہ مفی کیرئیر ہزاروں کردار ادا کیئے گلوکاری کا شوق بھی زمانہ جوانی سے
رہا جس کی تسکین کی خاطر کئی گانے بھی گائے اسٹیج ڈراموں میں اکثر بہت شوق
سے کو کو کورینا کے بول والا نغمہ گایا کرتے تھے طنز و مزاح کے علاوہ کسی
بھی شخص کی پیروڈی کرنے میں کمال رکھتے تھے معروف رائیٹر نور مقصود کے ساتھ
ان کے ٹیوی شوز بہت مقبول ہوئے اسٹیج ڈراموں کے علاوہ کئی ٹی وی سیریل میں
اپنے اداکاری کے جوہر دیکھائےان کے مقبول ترین ڈراموں میں روزی،لوز ٹاک،
آنگن ٹیڑھا،عید ٹرین، اسٹوڈیو دھائی، اسٹوڈیو پونے تین،ففٹی ففٹی،ہاف
پلیٹ،سچ مچ شامل ہیں معین اختر ہنستے ہنساتے قہقہوں کی گونجوں میں اس
معاشرے میں پھیلی برائیوں اور کئی سماجھی اور معاشرتی مسائل کی جانب
حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی۔
ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور ستارہ حسن کارکردگی
ایوارڈ سے نوازا گیا معین اختر نجی محفلوں میں بھی ایسے جملے کس دیا کرتے
تھے جس کی بازگشت حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی تھی پاکستان کے علاوہ
پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی ان کے بے شمار مداح ہیں کئی پروگراموں میں ان
کی دلیپ کمار کی پیروڈی کو بہت پسند کیا گیا 22 اپریل 2011 کو شوبز کی دنیا
کا یہ چمکتا دمکتا سورج ہمیشہ کے لیئے غروب ہوگیا ان کے انتقال کی خبر نے
پورے پاکستان کو سوگوار کردیا معین اختر شو بز کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ
ہونے کے ساتھ درویش صفت انسان بھی تھےان کے انتقال کے بعد اداکار لہری کے
علاوہ ایسے بے شمار نام سامنے آئے جن کی وہ مالی معاونت کیا کرتے تھے شہر
کراچی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے قدر محفوظ علاقے ملیرکینٹ میں
سکونت اختیار کرلی تھی میں خود معین اختر کے جنازے میں شامل تھا میں نے
اپنی زندگی میں کسی اداکار کے جنازے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں
دیکھی تھی ہر آنکھ اشکبار تھی ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ
ان کے مداح تھے جنازہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا گویا پورا شہر امڈ آیا ہو آج
معین اختر قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے
ہیں ان کی قبر آج بھی کچی ہے میں جب بھی وہاں ان کی قبر پر جاتا ہوں ان کی
مغفرت کی دعا کے ساتھ یہ الفاظ ضرور کہتا ہوں اے اللہ معین اختر نے عمر بھر
لوگوں کو خوش رکھا تو انہیں ہمیشہ خوش رکھنا۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ معین اختر کے نام سے ایک اکیڈمی کو قیام عمل میں
لایا جائے جہاں نئے آنے والے اداکاروں کی رہنمائی کی جاسکے افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے کہ آج میڈیا کی آزادی ہونے کے باوجود کوئی اداکار معین اختر
کی سی بہادری سے اس معاشرے میں پھیلی برائیوں کو حکومتی ایوانوں تک پہنچا
رہا ہو۔
|
|