مذہبی فرائض ، روایات اور
معاشرتی رسوم و رواج کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک
پاکستانی معاشرہ اپنی ایک مضبوط شناخت رکھتا تھا لباس ، طور طریقہ ، شادی
بیاہ ، اٹھک بیٹھک سب میں ایک مخصوص انداز تھا آج بہت ساری ایسی چیزیں
تصویروں میں ہی نظر آتی ہیں ورنہ آج کی نسل ان تمام رسوم اور اقدار کے عملی
تجربے سے تو محروم ہے ہی ان کے مشاہدے میں بھی یہ چیز نہیں آرہی ۔وقت کے
ساتھ تبدیلی کوئی انوکھی اور انہونی بات نہیں کہ ازل سے انسان اس عمل سے
گزر رہا ہے اُس نے جنگلوں سے نکل کر گاؤں بسائے گاؤں کے مجموعے کو شہروں
میں بدل دیا یہ ساری تبدیلی آتی رہی اور معاشروں نے مستحکم اور مضبوط شکل
اپنالی۔ اقدار، روایات ، اخلاقیات، مذہب ان معاشروں کی بنیاد بنی۔ پاکستانی
معاشرہ بھی اپنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا رہا لیکن میڈیا کے جدید دور نے
حقیقتاََ ان بنیادوں کو ہلا دیا ہے یہاں قصور میڈیا کا تو ہے کہ اُس نے
قومی مقاصد سے بڑھ کر تجارتی مقاصد کے لیے کام کیا لیکن ہمارے پالیسی ساز
بھی اس میں برابر کے قصور وار ہیں جنہوں نے اس سب کچھ کی اجازت دی۔ ہماری
حکومت بھی روشن خیالی کی اس مہم میں برابر کی شریک ہے بلکہ اس کا قصور اس
لیے زیادہ ہے کہ اس کے اجازت نامہ کے بغیر تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ بشمول
دیگر اجازتوں کے حکومت نے جب پڑوسی کی خوشنودی کے لیے اس کے چینل اپنے ملک
میں چلانے کی اجازت دی بلکہ پی ٹی سی ایل کے سرکاری سمارٹ ٹی وی پر بھی اس
کا ہر چینل چل رہا ہے ساتھ ہی اس کی فلمیں کھلم کھلا حکومتی اجازت سے پورے
ملک کے سینماؤں میں پیش کی جارہی ہیں اس بارے میں نہ تو یہ سو چا گیا کہ
معاشرے پر اس کے کیا اثرات ہیں اور نہ ہی یہ فکر کی گئی کہ زوال پذیر قومی
فلمی صنعت کی تباہی کی تکمیل ہو جائے گی۔ قومی فلمی صنعت سے بھی یہ شکایت
عام تھی کہ معلوم نہیں اُس کی کہانیاں کس معاشرے کی عکاس ہیں لیکن بہر حال
کچھ نہ کچھ تو اپنا تھا دوسری طرف بھارت کی فلموں میں ظاہر ہے سب کچھ ان کا
ہے ہمارا کچھ نہیں لیکن ہماری نئی نسل اُسے دیکھے جارہی ہے اور سیکھتی
جارہی ہے اس مسئلے کو سنجیدہ طبقہ تو محسوس بھی کر رہا ہے اور اس کا ادراک
بھی اُسے ہے لیکن ہماری حکومتیں اپنے ملک اور اپنے عوام کے مفاد سے آگے بڑھ
کر دشمن کی دوستی کی خواہاں ہیں اب توفلمی صنعت سے بھی اس بارے میں صدائے
احتجاج بلند ہوگئی ہے اور کامیڈین افتخار احمد ٹھاکر نے لاہور ہائی کورٹ
میں پٹیشن داخل کر وائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش
پکچرز موشن آرڈینینس1979 کی شق نمبر 2 ، 28 ، 31 اور 37 کے خلاف ہے اور
نوجوانوں پر ان کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں ۔ یہ کوئی مخفی بات نہیں اور نہ
ہی ایسا ہے کہ اس کا ابھی انکشاف ہوا ہو اس کے بارے میں پہلے بھی اعتراضات
اٹھتے رہے۔ لاہور ہائی کورٹ جہاں 5 اپریل کو حالیہ پیٹیشن دائر ہوئی ہے نے
ایک سال قبل ایک ایسی درخواست کو نمٹا تے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ معاملہ
وزارت ثقافت کے ساتھ اٹھائیں کہ اس کا تعلق اُس سے ہے۔ اس بات سے تو انکار
ممکن ہی نہیں کہ بھارت کی فلموں میں جو دشمن دکھا یا جاتا ہے وہ پاکستان ہی
ہوتا ہے جیسے پاکستان کی فلموں کا دشمن کردار بھارت ہی ہوتا لیکن خاص ایسے
ہی مو ضوعات پر بننے والی فلموں کے لیے بھی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں
ریلیز ہوں، فانٹم، نیراج ایک تھا ٹائیگر اور کچھ دوسری ایسی فلموں کو تو
پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی کہ ان میں واضح طور پر پاکستان
دہشت گرد اور دہشت گردوں کا مددگار بنا کر دکھایا گیا۔ بات صرف یہاں تک
محدود ہوتی تو بند ڈال کر اسے روکا جا سکتا تھا لیکن اُس ثقافتی یلغار کا
کیا کیا جائے جو دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس نے نوجوانوں کے ذہنوں کو
پراگندہ کر لیا ہے جسے جب گھر میں بیٹھی ہوئی عورت دیکھتی ہے جسے باہر کی
دنیا کی خبر نہیں یا جب دن بھر کا تھکا ہا رامزدور یا سرکاری اہلکار ان
فلموں اور ڈراموں کو دیکھے گا تو اُس نے ان کے معاشرے پر اثرات پر کہاں غور
کرنا ہے وہ تو کہانی کی تہہ تک جانے کی فرصت اور ہمت ہی نہیں رکھتا تھکاوٹ
کا مارا دماغ تو سر سری دیکھے گا اثر قبول کرے گا اُن کے رسوم و رواج کو
دیکھ کر متاثر ہوگا اور خاص کر جب ایک طالبعلم اور بچہ یہ سب ڈرامے اور
فلمیں دیکھے گا تو اپنے رسوم و رواج سے زیادہ اُن کو سیکھے گا لیکن یہ
حقیقتیں حکومت کے مفادات سے متصادم ہیں اور اسی لیے ان کو نہ تو حکومتی سطح
پر قبول کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان پر کسی پابندی کی ضرورت محسوس ہو رہی
ہے لیکن کم از کم عدالتیں ہی اپنا وہ فرض اد اکر لیں جس کا وہ حلف اٹھاتی
ہیں۔
اگر ہمارا مذہب ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اور ہماری ثقافت ہماری پہلی ترجیح
ہے تو ہمیں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ملک کے لیے کام کرنا
ہوگا اور اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ ہماری اقدار اور روایات کو ہم نے ہر
صورت بچانا ہے اور غیروں اور دشمنوں کی ثقافتی یلغار کے آگے بند بھی
باندھنا ہے اور انہیں پسپا بھی کرنا ہے سچ یہ ہے کہ ان جغرافیائی سرحدوں کے
اندر جسے ہم پاکستان کہتے ہیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت انتہائی ضروری ہے
ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ |