چاند ستارے سب اپنے وقت پر نکلتے
ہیں اپنے وقت پر چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک دم نہیں نکلتے۔ مثلا ً سورج ہی
کو لے لیجئے پہلے رات جانا شروع ہوتی ہے۔ پھر تھوڑی سی روشنی ظاہر ہوتی ہے
یہ آثار ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ روشنی بڑھتی جاتی ہے اور یہ بلکل واضح
طور پر نظر آنے لگتا ہے کہ اب سورج نکلنے والا ہے اور پھر سورج نکل آتا ہے
اور دھیرے دھیرے پوری آب و تاب سے چمکنے لگتا ہے۔ بہت کم لیکن کبھی ایسا
بھی ہوتا ہے کہ سورج نکلنے کے آثار تھے لیکن نہیں نکلا۔ بادل آ جاتے ہیں
اور بارش کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بارش ہو جاتی ہے اور کبھی ایسا
بھی ہوتا ہے کہ بارش ہو جاتی ہے لیکن بارش نہیں ہوتی۔ لیکن ایسا بہت کم
ہوتا ہے۔ یہ تمام ایک فطری عمل ہے اور ہم اس کو موسم کے نام سے پکارتے ہیں۔
ایک موسم اور بھی ہوتا ہے اور یہ ہوتا ہے تاریخ کا موسم۔ اسی طرح کے ملتے
جلتے موسم اس دنیا کی تاریخ میں بھی چلتے رہتے ہیں اور ان میں بھی کبھی
کبھی لیکن بس کبھی کبھی تغیر و تبدل بھی ہو جاتا ہے۔ رفتار بہت آہستہ آہستہ
ہوتی ہے اور آثار بھی۔ بہت دیر سے واضح ہوتے ہیں۔ 14 اگست 1947 کو تاریخ کے
دھارے پر پاکستان کے نام سے جو سورج چمکا اس کی روشنی ہہت دیر پہلے چند درد
مندوں کی محفلوں میں اس وقت ظاہر ہوئی جب ہر طرف انگریز کے نام کا اندھیرا
ہی اندھیرا تھا اور پھر آہستہ آہستہ یہ روشنی بڑھتی گئی اور جناح صاحب کے
مسلم لیگ میں آتے ہی ایک دم موسم بدل گیا۔ کانگریس کے اندھیروں کو اپنے آپ
کو مسلمان ہی کہلانے والوں نے گاندھی کی پالیسیوں کا حصہ بن کر بہت بڑھا
دیا، اکبر الہ آبادی بیساختہ پکار اٹھے،
کانگریس کے مولوی کی کیا پوچھتے ہو کیا ہے
گاندھی کی پالیسی کا اردو میں ترجمہ ہے
لیکن موسم بدلتا رہا تاریخ کے لمحوں پر نکلنے والے سورج کے آثار بڑھتے گئے
اور 14 اگست 1947 کو یہ سورج بڑی شان سے طلوع تو ہوگیا لیکن دھیما دھیما سا،
رات کے سایوں میں۔ آج 63 برس گزرنے کے بعد بھی اس سورج کی روشنی گھٹتی
زیادہ اور کبھی تھوڑی سے بڑھ بھی جاتی ہے۔ نااتفاقی کی بڑی خطرناک بجلی
چمکی تھی، جب بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ یہ تاریخ کے موسم اصل میں قوموں کے
کردار کے مطابق چلتے ہیں اور اسی کردار کے مطابق گھٹتے بڑھتے ہیں۔ آئیے
تاریخ کی دوربین سے تھوڑا پیچھے دیکھتے ہیں۔
واہ کیا موسم ہے مسلمانوں کے گھوڑے کل کے اندلس اور آج کے سپین میں پہنچ
گئے ہیں۔ ایک غیر مسلم کی فریاد پر ایک غیر مسلم لڑکی کی عزت ایک غیر مسلم
حکمران سے بچانے۔ کیا لوگ تھے ان کے قدموں سے اڑنے والی خاک سے تاریخ بن
رہی ہے۔ روز روز نئے سے نئے سورح طلوع ہوتے ہی چلے گئے اور کئی سو سال بڑی
شان سے چمکتے ہی رہے۔ کمال کے لوگ تھے۔ تاریخ ان کی غلام تھی۔ ان لوگوں نے
اپنے موسم خود تخلیق کئے۔ اب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اب تو ہم ہیں۔ تاریخ
کے غلام۔ تاریخ کی آندھیوں میں ادھر سے ادھر خشک پتوں کی طرح اڑتے ہوئے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں میں چند ہوں گے ضرور، بلکہ ہیں، تاریخ کے موسموں کے
آگے ڈٹے ہوئے۔ لیکن آٹے میں تھوڑا نمک ہو تو آٹا ہی کہیں گے۔ مجموعی
صورتحال تو یہی ہے کی مسلمانوں کی تاریخ، غیر مسلم لوگ آپس کے ظالمانہ
اتفاق سے لکھ رہے ہیں۔ موضوع اپنا ملک رکھنا ہے لہٰذا اپنے ملک میں بھی تو
یہی حال ہے۔ ادھر سے ادھر اڑتے پھرتے ہیں۔ گھپ اندھیری رات ہے۔ مہنگائی،
دھشت گردی، ناانصافی، رشوت، بےایمانی، لاقانونیت کے بگولے عوام کو ادھر سے
ادھر اور ادھر سے ادھر پھینکتے رہتے ہیں۔ عوام اس سفر کے عادی ہو چکے ہیں۔
میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ عوام کبھی کچھ نہیں کرے گی۔ بس اس بات نے
میرا قلم چھیڑ دیا ہے۔ کیا میرے محترم دوست صحیح کہتے ہیں۔ لیکن میں کیسے
مان لوں۔ میں نے سنا ہے کہ تاریخ کے موسم بھی ایک سے نہیں رہتے۔ اس اندھیری
میں کہیں ٹمٹماتی ہوئی روشنی بھی تو ہے۔ میرے محترم دوست کہتے ہیں کہ کوئی
ہر کوئی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہے۔ میں ان کو یہ بتانا چاہتا
ہوں۔ جناب ہر کوئی نہیں۔ کچھ کچھ لوگ کچھ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں لیکن
جناب جب الیکشن ہوتا ہے تو ان لوگوں سے کہیں زیادہ لوگ ایک بڑی تعداد ووٹ
ہی نہیں ڈالتی، الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتی، یہی تو سیاسی پارٹیوں پر عدم
اعتماد کا اظہار ہے۔ لیکن یہی لوگ چیف جسٹس کو بحال کروانے کیلئے میدان میں
تھے۔ یہ صرف عوام کا اپنا شو تھا جس کا ہیرو عوام خود ہی تھی۔ میڈیا کے چند
لوگوں اور عدالت کے چند لوگ عوام کے اسی گروپ کے ساتھی ہیں۔ یقین کریں اب
تو فوج بھی پیچھے نہیں ہے۔ اب آپ کہیں گے جناب فائدہ کیا۔ جناب فائدہ ہے،
یہ روشنی کی ایک کرن ہے، چند لوگوں نے چراغ جلایا ہے۔ ابھی وقت لگے گا، جب
یہ روشنی مزید پھیلے گی آپ کو شاید پھر ہی نظر آئے گی۔ لیکن ہمیں تو نظر
آتی ہے۔ قارئین، اگر آپ چاہتے ہیں یہ روشنی جلتی رہے، بڑھتی رہے۔ اگر چاہتے
ہیں تو آپ کو اپنی جگہ بدلنی ہوگی۔ اس اندھیرے سے نکل کر ان چراغ جلانے
والوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ اپنی سوچ سے، اپنے عمل سے، اپنے مفاد پر اپنی قوم
کے مفاد کو ترجیح دے کر، ان چراغ جلانے والوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا
کر۔ رشوت، جھوٹ، بےایمانی، ملاوٹ، سود، چوری چکاری اور ہر وہ کام جس میں
ملک و قوم کا نقصان ہے اسے چھوڑ کر۔ یہ سب ہمارے ملک میں چلنے والی سیاہ
اندھیری کے بگولے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں، ان بگولوں کے چکر سے نکل کر روشنی
میں آ جائیں اور اپنی ہمت اور حیثیت کے مطابق آپ بھی روشنی کیجئے۔ تاریخ کے
موسم کو قابو میں کر لیجئے۔ آئندہ کا سورج آپ کی مرضی کا نکلے گا لیکن دیر
کے بعد لیکن جلدی نکلنا ناممکن بھی نہیں۔ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
شکریہ |