نکاح کو آسانی اور سادگی کا نمونہ بنائیں
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
اسراف و تبذیر، فضول خرچی اور ریاکاری کی
وبا نے آج نکاح اور شادی کو آسانی اور سادگی کا نمونہ بنانے کی بجاے مشکل
تر ، رنگینیوں اور بے جارسوم کا آئینہ دار بنا کر رکھ دیا۔ جب کہ شادی
بیاہ میں جس قدر فضول خرچی اور دکھاوا کم ہوگا نکاح میں اُتنی ہی زیادہ
برکتیں اور رحمتیں ہوں گی۔ آقاے کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا
فرمانِ عالی شان ہے کہ جس نکاح میں جس قدر آسانی ہوگی اس میں اسی قدر
زیادہ خیر و برکت ہوگی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : بڑی برکت والا ہے وہ نکاح جس میں بوجھ
کم ہو۔(بیہقی شعب الایمان)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی میں اپنا’’ارمان‘‘
نکالنا چاہتے ہیں اور اس ’’ارمان‘‘ نکالنے کے چکر میں قرض کے دلدل میں
دھنستے چلے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے جتنا دیا ہے اُسی پر قناعت
کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ نکاح کی رسم ادا کردینا بہتر اور باعثِ عزت ہے۔
امام اوزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قبیصہ بن
فحارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے قبیلے کے کچھ لوگ آئے اور ایک شخص
کے نکاح کے سلسلے میں سوال کیا لیکن حضرت قبیصہ بن فحارق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے ان کو کچھ نہ دیا اور وہ لوگ واپس ہوگئے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے
کہا کہ آپ سے آپ کے قبیلے والوں نے نکاح کے لیے سوال کیا، آپ نے کچھ بھی
نہ دیا اور وہ لوگ خالی ہاتھ واپس چلے گئے۔ حال آں کہ آپ اپنی قوم کے
سردار ہیں ۔ حضرت قبیصہ بن فحارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر وہ
ایساایسا کرلیتا تو اس کے لیے اس بہتر ہوتا، میںنے رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ تین آدمیوں کے علاوہ کسی کو
سوال کرنا حلا ل نہیںہے،… (۱) جو شخص قرض دار ہوجائے (۲) جو شخص ناگہانی
مصیبت میں پڑ جائے (۳) جو شخص فاقہ میں مبتلا ہوجائے اور اس کی جماعت کے
تین ذمہ دار آدمی اس کی گواہی دیں تو بہ قدرِ ضرورت ان تینوں کو سوال کرنے
کا حق ہے۔(کتاب الاموال)
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا معمول تھا کہ وہ نکاح میں
انتہائی درجہ آسانی اور سادگی کو مطلوب و محبوب رکھتے اور اسراف و تبذیر
سے دور رہا کرتے تھے۔ محض چند اصحاب کو جمع کرکے مختصر سی مجلس میں حمد و
ثنا اور نعتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ وسلم اور خطبہ کے بعد ایجاب و قبول
کرواکر نکاح کی رسم انجام دے دیا کرتے تھے۔ حسبِ ذیل واقعہ کے ذریعہ اس بات
کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کی روشِ مبارک شادی کے سلسلہ میں کیا تھی؟
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک شام سے مدینۂ منورہ حضرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا
کہ آپ اپنی بیٹی اُمِ حکیم سے میرے بیٹے یزید کی شادی کردیں، حضرت عبداللہ
بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا بل کہ اپنے بھتیجے حضرت
عبداللہ بن عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اُمِ حکیم کا نکاح کردیا ، قاصد نے
کہا کہ امیرالمؤمنین کو آپ کیا جواب دیں گے؟ انھوں نے کہا کہ جو کچھ تم
نے دیکھا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس نکاح کی کیفیت
حضرت عبداللہ بن عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ میرے چچا
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ اور اپنی بیوی دونوں
کے یہاں باری باری آرام فرمایا کرتے تھے، جس رات کو اپنی والدہ کی خدمت کے
لیے ان کے پاس آرام فرماتے مَیں بھی وہیں سوتا تھاوہ رات کو اُٹھ کر صبح
تک نماز پڑھا کرتے تھے مَیں بھی ان کے پہلو میں کھڑا رہتا اور روزآنہ ظہر
کی نماز مسجدِ نبوی میں ان کے ساتھ ادا کرتا تھا۔ حسبِ عادت مَیں ایک دن
دوپہر میں مسجد جارہا تھا کہ راستے میں چچا مل گئے کہاکہ ٹھہر جاؤ، مَیں
رک گیا اور میرا ہاتھ پکڑے مسجد کے دروازہ تک آئے اور کہنے لگے : تم میں
کیااچھائی ہے؟ میں نے کہا:آپ میری خوبی معلوم کرکے کیا کریں گے؟ کہا کہ
مَیں اپنی بیٹی اُمِ حکیم سے تمہارا نکاح کردوں گا۔ تم کو معلوم ہے کہ وہ
مجھے کس قدر پیاری ہے مَیں نے کہا: ہاں ! معلوم ہے۔ پھر مسجد میں لے گئے
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ کر اللہ تعالیٰ
کی حمد و ثنا کی یعنی خطبہ پڑھا، اور اُمِ حکیم سے میرا نکاح فرمادیا
۔(جمہرۃ نسب قریش و اخبارہا) |
|