جہیز کا مطالبہ خلافِ سنت ہے
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
نکاح کے بعد لڑکی کی رخصتی کے وقت آج کا
مروجہ جہیز دینا سنت نہیں بل کہ محض ایک رسم ہے۔ آج کل غیر مسلموں سے میل
جول، ہندوانہ رسم و رواج اور ٹی وی سیریلوں کے سبب ہمارے مسلم معاشرے میں
جہیز کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ بڑے افسو س کا مقام ہے کہ لڑکی کے
والدین کو کبھی کبھی بڑی مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے شادی
سے پہلے دولہے کے جوڑے کے لیے روپے کی طلب، اور اگر لڑکا زیادہ پڑھالکھا ہے
تو اس کے لیے علاحدہ سے ’’ہُنڈا‘‘ مانگنا، نیز بارات لے کر آنے پر
باراتیوں کے لیے عمدہ اقسام کے فرمایشی کھانوں کا اہتمام، اور پھر رخصتی کے
وقت جہیز کے نام پر قیمتی سازوسامان کی مانگ یہ سب ایسے امور ہیں جو ایک
مسلمان کو زیب نہیں دیتے ۔فی زمانہ تو ہر والدین اپنی لڑکی کو اتنا جہیز تو
دے ہی دیتے ہیں جو ضروریاتِ زندگی اور ایک خاندان کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
لڑکی کے والدین اپنی مرضی اور حسبِ استطاعت جو بھی دے دیں اُسی پر اکتفا
کرنا یہ شانِ مسلمانی ہے نہ کہ بھکاریوں کی طرح جہیز کا بے جامطالبہ کرنا،…
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسلافِ کرام کے مبارک نقشِ قدم کو اپنائیں اور ان کے
حالات ِ زندگی کا مطالعہ کرکے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے بزرگوں
کا طور طریقہ اس سلسلے میں کیا تھا؟
ایک انصاری کہتے ہیں کہ میری نانی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا
کی رخصتی کی تقریب میں شریک تھیں ، ان کابیان ہے کہ : حضرت فاطمۃ الزہراء
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی کے وقت ان کے جسم پر دو پرانی چادریں اور
دوچاندی کے کنگن تھے، جوزعفران میں رنگے ہوئے تھے۔ جب ہم حضرت فاطمہ کو لے
کر حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ایک چبوترہ
پر ایک بکری کی کھال اور کھجور کے ریشہ سے بھرا ہوا ایک تکیہ ، ایک مشک ،
ایک چھلنی ،ایک تولیہ اور ایک بڑا پیالہ رکھا ہوا ہے ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ
: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ اشیا (حضرت) فاطمہ(رضی اللہ
تعالیٰ عنہا) کے جہیز میں دی تھیں،ایک چار پائی (خملہ) ایک تکیہ ریشہ بھرا
ہوا، دو چکیّاں ، ایک مشک اور دو گھڑے،ایک روایت میں سریر یعنی چار پائی ،
تکیہ، توریعی چمڑے کاپانی کا برتن ،اور مشک ہے۔ (طبقات ابن سعد)
امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر
کہا کہ جس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی سے نکاح
کیا ہمارے گھر میں ایک بستر بھی نہیں تھا۔ بکری کی کھال پر ہم راتوں کو
سویا کرتے تھے،اور دن میں اسی پر اونٹ کو کھلاتے تھے۔
اسلام میں نکاح اور شادی کا تصور بڑا پاکیزہ اور ستھرا ہے۔ احادیثِ طیبہ کی
روشنی میں اگر ہم صحیح اسلامی طریقے سے شادی بیاہ کی جملہ جائز ، مباح اور
مستحسن رسم و رواج ادا کریں تو کوئی ہم پر انگشت نمائی بھی نہیں کرے گااور
ہم طرح طرح کی برائیوں اور بے جا فضول خرچی سے محفوظ رہ جائیں گے۔
بے پردگی تو ایسے بھی بری چیز ہے لیکن آج کل شادی بیاہ کے مواقع پر تو یہ
وبا ایسی عام ہوتی جارہی ہے کہ الامان و الحفیظ!! فیشن کے اس دور میں نت
نئے ڈیزائن کے کپڑوں میں ملبوس مرد و خواتین کا بے پردہ شادی کی تقریب میں
شرکت کرنا بدنگاہی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑی برائیوں کو جنم دیتا ہے ۔ اسی
طرح بارات میں ڈھول ، تاشے، طبلے،باجے ، گانے،پٹاخے اور آتش بازی جیسے
امور کسی بھی طرح سے مستحسن عمل نہیں ہیں۔علاوہ ازیں جہیز کا بے جامطالبہ
اور دعوتِ ولیمہ وغیرہ میں ریا و نمود اور فخر ومباہات سے کام لیتے ہوئے
انواع و اقسام کے کھانے کا اہتمام کرکے مقابلہ کرنا اور دیگر خرافات
ومنکرات کو انجام دینا بھی غیراسلامی افعا ل ہیں ۔ ان سے بچنا ہمارے لیے
لازمی اور ضروری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے اسلامی اخلاق و آداب
کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد کریں ، اس لیے کہ
دائرۂ شریعت میں رہ کر کیا جانے والا ہرکام عبادت میں بھی شامل ہوتا ہے
نیز ثواب اور خیر و برکت کا باعث بھی بنتا ہے۔ اللہ عزو جل سے دعا ہے کہ
رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہمیں نیک عمل کی
سعادت اور ایمان پر خاتمہ بالخیرنصیب فرمائے۔(آمین بجاہِ الحبیب الامین
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ و ازواجہٖ واصحابہٖ اجمعین)
|
|