دعوتِ ولیمہ رسول اللہ ﷺ کی محبوب سنت ہے
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
نکاح کے بعد ولیمہ کرانا بھی رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مرغوب و
محبوب سنت ہے۔ اس سنت کی ادایگی میں بھی اسلام نے ہمیں اعتدال کا راستہ بتایا ہے۔
افسوس! کہ اس پاکیزہ سنت کو ادا کرنے میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے
کوشاں رہتے ہیں۔ مسکینوں اور غریبوں کو دعوت دینے کی بجاے صرف امیروں اور مال داروں
کو زیادہ سے زیادہ مدعو کیا جاتا ہے جب کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ :بدترین کھانا وہ ولیمہ ہے جس میں مال داروں کو
بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا جائے، اور جو شخص بلاعذرِ شرعی دعوت میں نہ جائے
اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۔
(بخاری و مسلم شریف)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ شادی کے پہلے دن کاولیمہ حق ہے،
دوسرے دن کا صدقہ ہے اور تیسرے دن کا شہرت اور ریاکاری ہے، مشہور تابعی حضرت سعید
بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک شادی میں سہ روزہ ولیمہ کی دعوت دی گئی تو وہ
پہلے اور دوسرے روز ولیمہ میں شریک ہوئے اور تیسرے دن جب لوگ بلانے کے لیے آئے تو
فرمایا کہ تم چلے جاؤ، اب لوگ شہرت اور ریا کاری کو پسند کرنے لگے ہیں۔ (کنز
العمال)
ایک مرتبہ لوگوں نے امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ
کیا بات ہے کہ شادی کے کھانے میں ہم کو جو لذّت اور خوش بو ملتی ہے وہ عام کھانوں
میں نہیں ملتی؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ولیمہ کے کھانے میں خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے ۔ حضرت
ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی ہے کہ اے اللہ! اس کھانے کو لذیذ
اور بابرکت بنا۔ ولیمہ میں جنت کے کھانے کا مزہ ہوتا ہے۔(کنزالعمال)
آقاے کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیبر سے واپسی پر خیبر اور مدینۂ منورہ
کے درمیان تین روز قیام فرمایااور اسی مقام پر ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا سے نکاح کرکے دعوتِ ولیمہ کی، آپ نے دسترخوان پر کھجور، پنیر اور گھی
رکھ دیا۔ دوسرے حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اسی قسم کا سامان لائے
اور سب کو ملا کر لوگوں نے تناول کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ نکاح کی صبح کو آقا صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ : جس شخص کے پاس کھانے پینے کا سامان
ضرورت سے زائد ہواُسے لاکر رکھ دے ، چناں چہ لوگوں نے کھجور، ستّو اور گھی کے ڈھیر
لگادیے اور اسی سے ولیمہ کی دعوت ہوئی۔(سنن بیہقی)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے کھجور اور ستّو کا ولیمہ کھلایا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض ازواجِ مطہرات سے نکاح
کے موقع پر زیادہ مقدار میں ولیمہ کا کھاناکھلایا ہے ۔ ثابت بنانی تابعی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کے ولیمہ کی مقدار کیا تھی؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ
گوشت اور روٹی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں نے شکم سیر ہوکر کھایاپھر بھی
کھانا بچ گیا۔(سنن بیہقی)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض ازواجِ مطہرات سے نکاح پرصرف دو مُد جَو سے دعوتِ
ولیمہ فرمائی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر زردی کا اثر دیکھا، دریافت
فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ نے عرض کیا ، میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے ، رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، مہر میں کیا چیز دی؟ انھوں نے عرض کی ،
یارسول اللہ(ﷺ)! کھجور کی گٹھلی بھر سونا دیا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ، اللہ تجھے برکت دے، اور حکم دیا کہ تم دعوتِ
ولیمہ کرو ، چاہے ایک ہی بکری ہو۔(بخاری شریف)
اس حدیثِ پاک سے یہ معلوم ہوا کہ حسبِ استطاعت دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کرنا سنت ہے ،
لیکن قرض لے کر لمبی چوڑی دعوت کرنا جائز نہیں کہ مختصر دعوت سے بھی ولیمہ کی سنت
ادا ہوجاتی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جس کی شادی ہو اس کو مبارک باد دینا
یعنی برکت کی دعا کرنا بھی سنت سے ثابت ہے اور اس میں وہ الفاظ ہوں جو حدیث میں ہیں
تو بہتر ہے ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمہ شبِ زفاف کے بعد ہونا چاہیے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: دو مقابلہ کرنے والے کی دعوت نہ قبول کی جائے نہ ان کاکھانا
کھایا جائے ، امام احمد نے فرمایا،ان سے فخر و ریا کے طور پر مقابلہ کرنے والے مراد
ہیں۔ (بیہقی)
اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو نام و نمود، نمایش اور دکھاوے کے لیے
کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں، کہیں کھانے والوں کی تعدادمیں مقابلہ ہوتا ہے تو کہیں
مختلف اقسام کے کھانوں میں ۔
علاوہ ازیں فی زمانہ یہ روایت بھی جڑ پکڑتی جارہی ہے کہ بعض بہ زعمِ خویش ’’اللہ
والے‘‘ لوگ اپنی اولاد کا نکاح ’’اجتماع‘‘ میں تو ’’سادگی‘‘ سے کرلیتے ہیں۔ بعد
ازاں خوب صورت اور مہنگے کارڈز چھپوا کر شان و شوکت اور فخر و مباہات سے دعوتِ
ولیمہ کا اہتمام کرتے ہوئے انواع و اقسام کے کھانے پکواتے ہیں۔ ایک طرف تو
’’سادگی‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور دوسری طرف فضول خرچی اور ریا کاری کی انتہا
کردی جاتی ہے ۔ قول و فعل کا یہ تضاد بڑا افسوس ناک ہے، الامان والحفیظ!! |
|