اسلام اور خانقاہی نظام,(17)

اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔

دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں ؟
لوگوں میں مشہور یہ بات تو ہم نے سن لی تھی کہ حضرت ککڑ شاہ نورانی لباس پہنا کرتے تھے-مزید تصدیق کے لئے میں نے مجاور محمد سلیمان سے پوچھا کہ”حضرت سائیں سمن سرکار المعروف ککڑ شاہ جب بالکل ننگے رہا کرتے تھے اور عورتیں بھی ان کے پاس حصول مراد کیلئے آیا کرتی تھیں تو عورتوں کو شرم نہیں آیا کرتی تھی ؟مجاور کہنے لگا' انہوں نے ایسا نورانی لباس زیب تن کیا ہوتا تھا کہ عورتوں کی نظر حضرت کے نچلے حصے کو دیکھ ہی نہیں پاتی تھی-مجاور کی یہ باتیں سنتے ہوئے مجھے ایک بادشاہ کا واقعہ یاد آگیا کہ جو اپنے تخت نشین ہونے کا سالانہ جشن منانے لگا تو اس نے کئی ماہ پہلے ہی اعلان کروا دیا کہ اس بار جو شخص بادشاہ کیلئے بہترین لباس کا سب سے خوبصورت جوڑا تیار کرے گا‘اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا-چنانچہ اس کی سلطنت میں سے بے شمار لوگوں نے خوبصورت جوڑے تیار کرکے بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے مگر بادشاہ کو کوئی جوڑا پسند نہ آیا-آخر کار ایک بندے نے جب دیکھا کہ بادشاہ کو کوئی لباس پسند نہیں آ رہا تو وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی-وہ ایک ایسا لباس تیار کرے گا کہ ایسا لباس آج تک کوئی تیار نہیں کرسکا اور وہ لباس اس قدر نفیس ترین اور اعلیٰ کوالٹی کا ہوگا اور اس کی یہ خوبی ہوگی کہ وہ صرف عقلمند کو نظر آئے گا اور بے وقوف کو نظر ہی نہیں آئے گا-اب بادشاہ جو پوری سلطنت میں سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا تھا-اس نے لباس تیار کروانا شروع کردیا-لباس تیار کرنے والے کو اپنے محل کے اندر ہی تمام تر سہولتیں مہیا کردیں-وہ روزانہ عمدہ کھاتا اور آرام سے سوتا-اور محل میں لباس تیار کرتا-وزیر موصوف آتا اور پوچھتا کہ” لباس کتنا تیار ہو چکا ہے؟وہ کہتا؛دیکھو! اتنا تیار ہوچکا ہے -وزیر خاموش ہو جاتا کہ اگر وہ یہ کہے کہ مجھے تو نظر نہیں آتا تو وہ بے وقوف ٹھہرے گا-غرض وقت گزرتا چلا گیا اور لباس تیار ہوتا چلا گیا-آخر تخت نشینی کا دن آگیا-لباس تیار کرنے والے نے کہا کہ میں لباس بادشاہ کو خود پہناوں گا-چنانچہ جشن کے دن جب دارالحکومت کے بازاروں میں لوگ سج سنور کر فٹ پاتھوں پر کھڑے ہوگئے-عورتیں اور بچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے کہ آج بادشاہ کا زرق برق جلوس نکلے گا-اس وقت لباس پہنانے والا آیا-اس نے بادشاہ کا پہلا لباس اتروایا اور اوپر نیچے کی طرف ہوا میں ہاتھ مار کر پوری طرح ایکٹنگ کرکے اعلان کردیا-واہ! کیسا خوبصورت لباس ہے !بادشاہ بھی کہنے لگا-”واہ! ایسا تو میں نے کبھی پہنا ہی نہیں-“وزرا ءاور جرنیل سب بولے”بادشاہ سلامت کیلئے کیا خوب لباس تیار کیا ہے- “اس درزی سے بادشاہ نے کہا-”مانگو کیا مانگتے ہو“ اور یوں منہ مانگا انعام لے کر وہ لباس تیار کرنے والا بے وقوف بنا کر اپنے گھر کو رخصت ہوا-جلوس شاہی محل سے برآمد ہوا-بازار میں آیا-لاکھوں دنیا نظارہ کر رہی ہے-مگر بادشاہ سمیت سب خاموش ہیں کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ لباس تو نظر نہیں آتا اور بادشاہ بالکل برہنہ ہے تو وہ بیوقوف ٹھہرے گا-چنانچہ اصل بات کہنے کیلئے سب خاموش ہیں-سبهی بادشاہ کی تعریف کر رہیں ہیں نعرے لگا رہے ہیں-مگر سچ کوئی بهی نہیں بول رہا -مجمح میں کھڑے ایک بچے نے حیرانگی سے آواز لگائی کہ”ارے ! بادشاہ تو ننگا ہے-“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: کل مولود یولد علی الفطرة کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے (صحیح مسلم :کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطرة) اب یہ بچہ بھی جو کہ فطرت اسلام پر تھا اور اسلام کی فطرت سچ بولنا ہے-چونکہ بچہ تھا اس لئے ابھی وہ بڑے لوگوں کی طرح ایچ پیچ لگانے اور دنیاوی چکر بازیوں ‘ چال بازی ‘ ڈپلومیسی ‘ وغیرہ سے کوسوں دور تھا- چنانچہ وہ فطرت اسلام کے تقاضوں کے تحت پکار اٹھا- لوگو! بادشاہ تو ننگا ہے-پھر تیسری مرتبہ حیرت کے سمندر میں ڈوبی آواز میں پکارا ” بادشاہ ننگا ہے“ پھر کیا تھا.... تمام لوگ شروع ہوگئے او ر پھر تمام وزیر مشیر بچے بوڑھے اس کے ہمنوا بن کر بولنے لگے- بادشاہ واقعی ننگا ہے“

قارئین کرام !دھوکہ دے کر جانے والا جا چکا تھا اور وہ یہی بات کہہ گیا تھا کہ لباس کو دیکھنے والی آنکھ ہی کوئی نہیں-اور وہ سب کو بے وقوف بنا گیا تھا مگر جو ایک نے جرات کی تو آخر کار سب کو زبان مل گئی-یہی معاملہ ان خود ساختہ(جیلی) ولیوں اور پیروں کا ہے-ہم کہہ رہے ہیں کہ ننگے ہیں'لٹیرے ہیں'مشرک ہیں'بے دین ہیں' مگر ان کو ماننے والے کہتے ہیں-یہ تو مجذوب ولی ہیں -یہ نورانی لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں-یہ پہنچی ہوئی سرکار ہیں 'ککڑ شاہ کا نچلا حصہ تو نظر آتا ہی نہیں اور تمہاری تو آنکھ ہی دیکھنے والی نہیں....-تم تو ولیوں کے گستاخ ہو وہابی ہو وغیرہ وغیرہ اگر ان جیسے جیلی ولیوں پیروں سرکاروں نانگے شاہوں کو نہ ماننے والا وہابی ہے.شرک کے خلاف صف بند ہونا.توحید کا پرچم بلند کرنے والا اگر وہابی ہے.تو میں بڑی جرات اور ڈنکے کی چوٹ پر بے خوف کہتا ہوں میں 'وہابی' ہوں.اور مجهے وہابی ہونے پر فخر ہے....

اورجب میں نے ننگے بابے ککڑ شاہ کی تصویر دیکھی جو یہاں فروخت ہو رہی تھی تو بابا سارا ننگا تھا مگر اس کے خصوصی ننگ کو چھپانے کیلئے آگے ککڑ بٹھا رکھا تھا-بھائیو! ہم لاکھ کہیں کہ یہ ننگے ہیں.یہ لفنگے ہیں.یہ لٹیرے ہیں.یہ جیلی ہیں... تو ان کے ماننے والے کہیں گے : ٹھیک ہے ننگا ہے مگر تمہاری دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں.تم پیروں کی نظر کرم سے دور ہو.تم پیروں کے گستاخ ہو. وغیرہ وغیرہ (ایک بات یاد رہے ہم نعوذ باللہ اللہ تعالی کے سچے ایماندار توحید پرست داعی اسلام ولیوں کی شان و مرتبہ کے خلاف ایک حرف لکهنا تو دور کی بات ہے ہم سوچ بهی نہیں سکتے اس سلسلہ کے آخر میں *ولی اللہ کون؟*کی اقساط کا مطالعہ ضرور کریں تا کہ سچے اور جهوٹے ولیوں/ پیروں کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں جانکاری ہو. )- جاری ہے....
ننگے سادھو اور ننگے ولیوں کے متعلق اگلی قسط میں پڑهیں:
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

عمران شہزاد تارڑ
About the Author: عمران شہزاد تارڑ Read More Articles by عمران شہزاد تارڑ: 43 Articles with 42554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.