موت ۔۔۔ختم ہوجانے والا سفر (حصہ دوئم)
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
حضرت لقمان رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے بیٹے سے
کہا کہ بیٹا موت کا حال تجھ کو معلوم نہیں کہ کب آئے گی، تو اس سے پہلے کہ
وہ اچانک تجھ کو آدبائے تو اس کی تیاری کر لے اور تعجب یہ ہے کہ آدمی بڑی
سے بڑی لذت اور عمدہ مجلس و تماشا میں ہو اور اچانک تصور کر ے کہ ابھی ایک
سپاہی آکر پانچ سات لاٹھیاں مارے گا تو وہ لذت خاک میں مل جائے گی اور عیش
میں کدورت آجائے گی یہ بھی معلوم ہے کہ ملک الموت جان کنی کی سختیاں عین
غفلت کے وقت میں لا ڈالے گا، مگر اس سے کچھ عیش مکدر نہیں ہوتا، اسکا سبب
بجز جہالت اور مغالطے کے اور کیا کہنا چاہیے اور جس قدر تکلیف جان کنی میں
ہوتی ہے اس کی ماہیت بجز اس شخص کے جو اس کو چکھے اور کسی کو معلوم نہیں
ہوتی اور جو شخص اس کو نہیں چکھتا وہ دو طرح پر معلوم کر سکتا ہے ۔ یا تو
اور دردوں پر قیاس کرنے سے جو اس کو ہوئے ہوں یا اور لوگوں کا حال نزع میں
نہایت کرب پر دیکھنے سے۔پس قیاس کی صورت تو یہ ہے کہ جس عضو میں جان نہیں
ہوتی اس کو درد معلوم نہیں ہوتا اور جب اس میں جان ہوتی ہے تو درد معلوم
ہوتا ہے تو دردمعلوم ہو اکہ درد معلوم کرنے والی چیز روح ہے ، جب کسی عضو
میں زخم لگتا ہے یا سوزش ہوتی ہے تو اس کا اثر روح تک پہنچتا ہے اور اسی
قدر اس کو درد ہوتا ہے۔ اور چونکہ درد گوشت اور خون میں بٹ جاتا ہے تو روح
کو صرف تھوڑا ہی صدمہ ہوتا ہے تو اگر ایسی صورت ہو کہ درد خاص روح ہی پر ہو
اور دوسری چیز پر نہ ظاہر ہے کہ یہ درد نہایت برا ہوگا۔ (احیا العلوم۴:۸۰۰)
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے بچاو کے لیے لاکھوں کوششیں اور تدبیریں بھی
کی جائے تو انسان نہیں بچ سکتا کیونکہ موت سے بچاؤ محال ہوتا ہے اور موت
برحق اور نہ ٹلنے والی خوفناک حقیقت اور اس قد دردناک ہوتی ہے کہ جب آتی ہے
تو لمحہ بھر کے لیے موقع نہ چھوڑتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی مجبوری اس
کو روک سکتی ہے۔ کشتی کے فنا ہوجانے پر جب بچے کے واحد سہارا ماں کی موت کا
حکم ہوتا ہے اور بیٹا تن تنہا کشتی کے تختہ کے اوپر رہ جاتا ہے اور پھر وہی
بچہ جب شہداد بن کر دنیا میں جنت بنا کر اس کی سیر کو جاتا ہے تو اس کو اس
جنت کی سیر تو درکنا ر اس کے اندر قدم تک رکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ موت جب آتی
ہے تو اتنا موقع بھی نہیں دیتی کہ آپ اپنی گاڑی کو سائیڈ پر کر سکیں ، بچوں
کو نام وصیت کر سکیں، اپنے مال و زر کو کسی کے حوالے کر سکیں ، جب آتی ہے
تو بغیر کسی قسم کے انتظار کے کسی بھی لمحہ کسی بھی جگہ اچانک سے آ کر دنیا
سے ایسے بے یار و مدد گار چھوڑ کر جاتی ہے کہ والدین چارپائی کے سرہانے
کھڑے اپنے ناز و نیاز سے پلے بیٹے کو بین کر رہے ہوتے ہیں اور چا کر بھی
اپنے بڑھاپے کے سہارے کو روک نہیں پا سکتے ،بھائیوں کی ٹولیاں بڑی بے رحمی
سے ٹوٹ جاتی ہیں، بیویوں اپنے سہاگ کے اجڑنے پر اپنی چوڑیاں توڑ رہی ہوتی
ہیں، بچے بلک بلک کر اپنے والدین سے لپٹ رہے ہوتے ہیں عرضیکہ دوست احباب سب
اشک تو بہا سکتے ہیں مگر اپنے دوست کو جانے سے روک نہیں پا رہے ہوتے مگر
کسی کو کیا معلوم کہ یہ جو شخص آج اتنے لوگوں کو غم زدہ کر کے اس دنیائے
فانی سے جارہا ہے اس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیک کام بھی کیے تھے کتنی
دفعہ اس نے مسجد میں "آؤ فلاح کی طرف۔۔۔آؤ کامیابی کی طرف"کی آواز سن کر
نماز کے لیے قدم اُٹھائے ہوں ، کتنی دفعہ اس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ
کر اس کی کفالت کا ذمہ اپنے ہاتھ لیا ہو، کیا معلوم کہ اس نے زندگی میں
کتنے نیک کام کیے ہیں ، کتنوں کے دل دکھائے ہیں، کیونکہ ادھر آگے جو سفر
شروع ہونے والا ہے اس سفر میں مال و زر تو کام آنے سے رہے ہاں البتہ ادھر
صرف یہ ہی نیک اعمال کی ٹولی نے کام آنا ہے ، سخت سے سخت تکالیف کے ساتھ یہ
کھونٹ پی جانے کے بعد سوالات کو سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کہ انتہائی سخت
ترین ہے، اورپھر اس منزل (قبر) کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے کہ یا یہ جنت
کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا پھر جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ۔۔۔اور
اگر یہ ابتدائی منزل اچھی ہوئی تو ٹھیک نہیں تو خسارہ اور ادھر صرف سزا و
جزا ہے اور یہ ایسی زندگی ہے جو کہ صرف ابد ی زندگی جہاں نہ موت ، نہ
چھٹکارا۔ ۔۔ یہ سفر زندگی کس قدر نازک اور چنددکھ سکھ کے لمحات کا امتزاج
تو ضرور ہے مگر انجام اس کا غم و الم کے عالم میں صرف موت کی صورت میں ہی
ممکن ہے نہ کہ کچھ اور ۔۔۔زندگی میں نہ جانے موت کس لمحے ، کس وقت ، کس
گھڑی ، کس مقام ، کس حالت اور کیسی آنے والی ہے اور اسی لمحے نہ جانے کتنے
نہ پورے ہونے والے آرمانوں کی ڈولی کا جنازہ نکل جائے گا اس لیے ہم کو
ہمیشہ نیکی کے کاموں میں ایک قدم بڑھ کر حصہ لینا چاہیے ، نماز و روزہ کی
پابندی ، تلاوت ِ قرآن مجید، صدقہ و خیرات، زکوۃ غرضیکہ نیکی کا چھوٹا سا
چھوٹا کام بھی بڑی ہمت اور بڑھ چڑھ کر کرنے سے ہی ہم اپنے ابدی سفر کا
سامان بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ۔اس سامان میں آپ راہ چلتے ہوئے کسی پتھر
کو ہٹا کر ، پانی کا ایک گلاس پلا کر، کسی یتیم کی ایک ما ہ کی فیس اداکر
کے ، یا پھرکسی رنجیدہ شخص کے غموں کو دور کرنے میں خوشی کی ایک کرن جلانے
سے غرضیکہ چھوٹی سے چھو ٹی نیکی کو اکٹھا کرنے کی کوشش دن رات کرنے سے ہی
کامیابی ممکن ہے ۔ (جاری ۔۔۔حصہ سوئم) |
|