بکھرے موتی
(Gul e Lala, United States America)
|
مظہر نے عالیہ کے ہاتھ سے تسبیح چھین کے
دور پھینکی، اور پوری شدت سے دھاڑا۔۔۔ میں بتا رہا ہوں کہ ہرگز کوئی بدعت
اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گا۔ عالیہ جو اس اچانک ہونے والی افتاد کو
سمجھنے سے قاصر تھی سہم گئی مگر بولی کچھ نہیں، سمجھ سے بالا تھا کہ تسبیح
یا اذکار پڑھنا کب سے بدعت ہو گیا؟ مظہر نے تشہد کی اگلی اشارہ کرتے ہوئے
انتہائی سخت لہجے میں تنبیہ کی، تسبیح یا ازکار پڑھو، مگر ان دانوں پہ گن
گن کے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ حدیث سے ثابت نہیں اس لئے بدعت ہے۔ اور میرے
گھر میں خلاف حدیث کوئی کام ہو یہ مجھے گوارا نہیں۔ خورشید بیگم نے بھی
بیٹے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بیٹی ہی کو سمجھایا، کے نیکی کو کیا
گننا۔۔۔ عالیہ، انتہائی تحمل سے بات سننے کے بعد، بھائی!
آج کتاب ذکر اللہ کے فضائل و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ روایت نظر سے
گزری، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ سے روایت ہے کے وہ رسول اکرم (ص) کے
ساتھ پہنچے ایک بیوی کے پاس اور انکے آگے کھجور کی کچھ گٹھلیاں تھیں (یا
سنگریزے تھے) وہ ان گٹھلیوں (یا سنگر یزوں) پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول
اکرم (ص) نے فرمایا کہ؛ میں تم کو وہ نہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ
آسان ہے۔ وہ یہ ہے کے تمام اور طرح کہو " سبحان اللہ عدد ما خلق فی السماء
و سبحان اللہ عدد ما خلق فی الأرض و سبحان اللہ عدد ما بین ذالک و سبحان
اللہ عدد ما ھو خالق۔" اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کے نبی کریم (ص) کے
عہدے نبوی میں تسبیح کا رواج تو نہیں تھا مگر بعض حضرات اس مقصد کے لیے
گٹھلیاں یا سنگریزے استعمال کرتے تھے۔ اور ہمارے نبی کریم (ص) نے ان کو اس
سے منع نہیں فرمایا۔ آپ کی نبی کریم سے محبت احترام کے قابل ہے، مگر ہمارے
نبی نے نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور نرمی اختیار کرنے والوں کو پسند
فرمایا ہے۔ آپ کے اس طرح چیخنے سے وقتی طور پر کوئی چپ تو ہو سکتا ہے مگر
قائل نہیں۔ یہ کہہ کے عالیہ آنکھوں سے ڈھلکتے اشک چھپائے، زمین پہ جھک کر
بکھرے موتی سمیٹنے لگی۔۔۔ |
|