بڑھتے اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن زندہ
کرو ‘ اس امت کی کچھ تو رہنمائی کرو جہاں بہ ظاہر اندھیرا ہے ‘ اسلام کو
چاہنے والے خود مذمتی کر رہے ہیں ‘ چہار سو طاغوت کی یلغار ہے اور دنیا میں
ہر کہیں اہل اسلام کو رکیدا جا رہا ہے۔اہل اسلام نے جو کیا اس کی بھی سزادی
جا رہی ہے اور جو نہیں کیا وہ بھی ان کے گلے کا طوق بنایا جا رہا ہے ۔
امریکا جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے اسلام کانقشہ پیش کرتا ہے ‘امور کی تعبیر
خود کرتا ہے ‘ جرم ترتیب دیتا ہے اور سزا بھی خود تجویز کرتا ہے ۔ نائن
الیون کے ڈرامے کے سکرپٹ سے آج تک ایک لاکھ سے زائد مسلمان محض اس لیے بھون
دیے گئے کہ ان کا کوئی جرم ثابت نہیں ہواتھا۔
دین حق کے علمبردار اس کھلے جرم پر خاموش ہیں ۔ علماء ‘ دانشور اور مفتیان
عظام بولتے کیوں نہیں ‘اٹھتے کیوں نہیں؟ حق بات کا اظہار ان کے نزدیک جرم
کیوں ہے؟
حضور علیہ السلام نے اس دین کے غلبے کی جب واضح پیش گوئی فرما دی تھی اس کے
دبنے ‘ جھکنے اور مظلوم بن جانے کی کوئی گنجائش کہاں ہے؟اس دین کے چھا جانے
اور کلمہ توحید کی حکمرانی پوری انسانی تاریخ میں ہر شک سے بالا رہی ہے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے مکہ کے دور جبر میں ‘ جب کہ ہر طرف تشدد اور
ظلم تھا ‘ ستم تھا کوئی اپنا بننے کو تیار نہیں تھا۔ حضرت خباب ؓ بن الارت
کو کوئلوں پر لٹا کر آزمایا گیا تو ایک مرتبہ بے قرار ہو کر پوچھا۔
’’ یا رسول اﷲ خدا کی مدد کب آئے گی ؟ ‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک
سرخ ہوگیا اور خباب ؓ سے پوچھا۔ تم جانتے ہو تم سے پہلے اہل حق کو کس قدر
آزمایا گیا ؟ ان کو لوہے کے آروں سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا
گوشت ہڈیوں سے جدا کیاگیا لیکن وہ ہر صورت حق پر قائم رہے۔ معاً بعد آپ صلی
اﷲ علیہ و سلم نے حضرت خباب ؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا۔
’’ رب ذوالجلال کی قسم وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک سوار اکیلا صنعا سے حضر
موت تک سفر کرے گا اسے اﷲ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘
اسلام کے غلبے اور حق کی سر بلندی کی یہ واضح خبر بہت جلد ہی سچ ثابت ہو
گئی ۔ پھردنیا نے اسلام کو کبھی بھی مغلوب نہیں دیکھا۔ آج بڑے بڑے ’’دانشور
‘‘ اسلام کو آج کے زمانے کے خلاف قرار دے کر ڈرا رہے ہیں ۔ا ن کے خیال میں
اب اسلام کا ’’ زمانہ ‘‘ ختم ہوگیا۔
ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اسلام کے غلبے کی پیش گوئی کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا کہ ’’ زمانہ آرہا ہے جب مکہ جانے والے قافلے کسی نگہبان کے
بغیر جائیں گے۔‘‘ جب آپ کے چچامحترم حضرت ابو طالب نے ایک بار آپ صلی اﷲ
علیہ و سلم کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
’’ جان من! اس کام سے ہاتھ اٹھا لو۔‘‘
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے جواباً فرمایا۔’’ عم محترم میرے اکیلے ہونے کا
خیال نہ کیجیے حق زیادہ دیر تک تنہا نہیں رہے گا ۔ا یک دن آ رہا ہے کہ عرب
و عجم اس حق کے ساتھ ہوگا۔‘‘
حضرت عثمان ؓ بن طلحہ جاہلیت کے زمانے میں ہفتے میں دودن ( پیر اور
جمعرات)کو کعبے کا دروازہ کھولتے تھے ۔ایک روز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم
جب اصحاب کے ساتھ اس دروازے سے داخل ہونے لگے تو حضرت عثمان ؓ بن طلحہ نے
انہیں روک دیا اور درشتی کا مظاہرہ بھی کیا ۔ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے
حلم اور ضبط کے ساتھ ان کے اس سلوک کو برداشت کیا اور فرمایا۔
’’ عثمان ! ایک روز کعبہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا
دے دوں گا۔‘‘
عثمان نے کہا’’ کیوں اس روز قریش مر جائیں گے ‘ ذلیل ہو جائیں گے کہ کنجی
آپ کے پاس ہوگی۔‘‘
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا۔’’ نہیں عثمان وہی دن قریش کی عزت کا دن
ہوگا۔‘‘
فتح مکہ کا دن آیا کعبے کی کنجی آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں تھی ۔
مکہ کے سرداروں کا سارا کروفر اور غرور خاک میں پڑ ا تھا۔بڑے بڑے جغادری
اور لیڈر خاک چاٹ رہے تھے ۔ اس روز آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے وہ چابی پھر
عثمان بن طلحہ کو دے دی اور فرمایا۔
’’ لو یہ چابی اب قیامت تک تمہارے خاندان میں رہے گی ۔ ظالم اور جابر کے
سوا یہ چابی تم سے کوئی نہ چھین سکے گا۔‘‘
حضرت عثمان ؓبن طلحہ کہتے ہیں ۔ مجھے حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے وہ الفاظ
یاد تھے جو دو رستم میں فرمائے تھے تو میں نے برملا بآواز بلند کہا ۔یا
رسول صلی اﷲ علیہ و سلم آپ نے یقیناً جو کہا تھا وہی ہوا۔ میں گواہی دیتا
ہوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم اﷲ کے سچے سول ہیں۔‘‘
حضرت عدی بن حاتم نے بیان فرمایا ۔ ایک مرتبہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دو مسافر کہیں سے آئے ہوئے تھے۔ایک نے بھوک اور دوسرے
نے رہزنی کی شکایت کی ۔ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے مجھے ( عدی ) کو مخاطب
کر کے پوچھا’’ عدی تم نے حیرہ ( ایک جگہ ) دیکھا ہے ۔ عرض کیا یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ و سلم دیکھا تو نہیں اس کے بارے میں جانتا ضرورہوں ۔
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ عدی اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ
حیرہ سے ایک ہودج نشین عورت چلے گی اور کعبے کا طواف کرے گی۔اس کو اﷲ کے
سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔اورتم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ کسریٰ کا خزانہ
فتح کر لیا جائے گا ۔اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے ایک شخص مٹھی بھر سونا
چاندی لے کر خیرات دینے نکلے گا لیکن کوئی خیرات لینے والا نہیں ہوگا۔‘‘
حضرت عدی ؓ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں یہ کھٹکا ہوا کہ تب قبیلہ طے کے ڈاکو
کیا ہوجائیں گے جنہوں نے پورے ملک میں آگ لگا رکھی ہے ۔ حضرت عدی ؓ فرماتے
ہیں کہ پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک پردہ نشین عورت تن تنہا کعبہ
تک آتی ہے اور طواف کے بعد واپس چلی جاتی ہے اسے اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہیں
ہوتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسریٰ کے خزانے کو فتح کرنے والوں میں حضرت عدی ؓ
خود بھی شریک تھے۔
دین کے غلبے اور باطل کے مٹنے کی اتنی امید ‘ طائف ‘بدر ‘خندق اور حنین سے
گزر کر ہی ہو سکتی تھی۔
میرے دیس کے علمائے کرام ! کس انتظار میں ہیں پانی سر سے گزر جائے گا اور
یلغار بڑھ جائے گی ۔ کوئی نہیں کہتا ہتھیار اٹھا لیں ‘ جہاد کریں ‘ قتال
کریں اتنا تو کریں ‘امید زندہ کریں ۔ رحمت کا پیغام عام کریں ۔ دشمن دہلیز
تک آ گیا ہے اس کے ستم کی چھڑی دستاروں اور جبوں تک آ گئی ہے کوئی ہے جو
اسلام کا سچا پیغام عام کرے۔کوئی ہے جو آزمائش کی ان گھڑیوں میں امید کی
بات کرے۔ کوئی ہے جو نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیغام کی بات کرے؟میرے
دیس کے علمائے کرام ‘ مفتیان عظام کہاں ہیں آپ ؟ |