"مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اردو۔اف! عجیب سی ہے یہ
زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے" ۔ وہ روانی سے انگریزی میں کہتی
اکتائی ہوئی لگ رہی تھی۔
"It's so hard and typical"۔ ناگواری سے کہتے اسنے سامنے بیٹھی مِشل کو
دیکھا۔
"لیکن مجھے لگا سب کو اپنی زبان، اپنی قومی زبان سے محبت ہوتی ہے"۔ مِشل
اپنے سرخ حسین بالوں میں ہاتھ پھیرتی بغور اسے دیکھ کر بولی۔
"ہوتی ہوگی۔ لیکن مجھے شرمندگی ہوتی ہے زیادہ اردو بولتے ہوئے۔لگتا ہے کہ
میں ان پڑھ ہوں۔ اردو ماڈرن نہیں ہی انگلش کی طرح ۔انگلش تو 'ہائی کلاس'
لوگ بولتے ہیں ۔ اور میں فخر سے باآسانی بغیر کسی رکاوٹ کے انگلش بول سکتی
ہوں۔" سمہینہ آخر میں سر اٹھا کر بولی۔
"بہت عجیب ہے کیا؟" ۔مشل نے دلچسپی سے پوچھا۔
"بہت" سمینہ نے زور دے کر کہا۔
دونوں بیٹھی انگلش میں محو گفتگو تھی۔ یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے وہ
کھانے کی منتظر تھیں۔
پردیس میں دیس سے دور وہ پڑھنے آئی تھی اور یہاں آکر وہ ہواؤں میں آڑتی پھر
رہی تھی۔ اچھی خاصی زندگی گزر رہی تھی ۔ کوئی اس کو ملک کی یاد دلانے والا
نہیں تھا۔
اور آج 'سر' نے یہ بتا کر اسکا پارہ چڑھا دیا کہ " سیمی تمھاری ہم وطن
تمھاری کلاس میں آرہی ہے" ۔ اف!!
"ذرا سناؤ کچھ اردو میں" ۔ مشل نے دوبارہ پوچھا۔
"او گاڈ! چھوڑو یہ ٹاپک"۔سمینہ نے کھانا دیکھ کر خود کو نارمل کیا۔
"ویری گڈ سیمی" اسکا موڈ بحال ہوتا دیکھ مشل بھی مسکرائی۔
--
"ہیلو سٹوڈنٹز! " ۔ سر برینٹ نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ تمام
طلبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
"ہیلو نیو گرل" (hello new girl)۔ انہوں نے پہلی نشست پر بیٹھی لڑکی سے
کہا۔
سیمی کچھ پیچھے بیٹھی تھی اس لیے صرف اسکا سر اثبات میں ہلتا دیکھ سکی۔
"Guys meet you new classmate. Girl! You should introduce yourself "
لڑکی اٹھی اور ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔ پھر اپنا رخ کلاس کی طرف کر
کے وہ مسکرائی۔ گلابی کرتا پاجامہ اور ساتھ میں ہم رنگ ڈپٹہ اوڑھے وہ بالکل
پاکستانی لگ رہی تھی۔ سیمی نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی جینز کا اسکے کپڑوں
سے موازنہ کیا۔
"تعارف کروا بھی دو اپنا"۔ سر نے دوبارہ کہا تو وہ گہری سانس لے کر بولنے
لگی۔
"اسلام علیکم! میرا نام عائشہ ہے۔اور میں پاکستان سے آئی ہوں" ۔ وہ اردو
میں کہہ رہی تھی۔
"اس ایک جملے میں میرا مکمل تعارف ہے۔ اول میں مسلمان ہوں۔ دوم میں
پاکستانی ہوں۔اور مجھے 'اپنا تعارف' کروانے کو کہا گیا ہے تو میں اپنا
تعارف اپنی زبان میں کرنا پسند کروں گی"۔ وہ اب بھی اردو ہی میں کہہ رہی
تھی۔ جس کا ایک حرف بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا سوائے سیمی کے۔
لیکن نا سمجھ آنے کے باوجود سب خاموشی سے اسے سن رہے تھے کیونکہ وہ اتنے پر
اعتماد اور مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"She is talking very smoothly. Quite confident she is.."
مشل نے سیمی کے کان میں سرگوشی کی۔
"Sorry Girl! We didn't get it"۔ سر برینٹ نے کہا اور عائشہ مسکرا دی۔ اور
پھر جو اسنے اپنے تعارف میں کہا سب روانی سے انگریزی میں دہرادیا۔
"اب کیوں بولا انگلش میں اسنے؟ بات تو وہی آگئی نا"۔ سیمی نے جل کر سوچا۔
۔very impressive " ۔ سر برینٹ نے تالی بجا کر اسے داد دی۔
"لیکن یہاں کچھ لوگ اس کے برعکس کچھ اور ہی سوچتے ہیں"۔ انہوں نے ایک نظر
سیمی کو دیکھ کر عائشہ سے کہا۔
"کیا؟کیوں؟ کیسا سوچتے ہیں؟" وہ حیران ہوئی۔
سیمی نے بے تحاشا غصے سے سامنے دیکھا۔
"یہی کے تمھاری زبان عجیب ہے۔ انگلش زیادہ اچھی ہے۔اور انگلش بولنے والے
زیادہ اچھے ہوتے ہیں اور ایجوکیٹڈ بھی"۔ ان کی بات پر سیمی نے عائشہ کا
چہرہ سرخ ہوتے دیکھا تھا۔
"واٹ؟ بالکل غلط۔ میں نہیں سمجھتی کہ یہ سب صحیح ہے۔ غلط ہے یہ۔" عائشہ سرخ
چہرہ لیے غصے سے بولی۔ لیکن اگلے ہی لمحے ضبط کرکے آرام سے بولی۔
"ہماری زبان ہماری پہچان ہے۔ اور ہر پاکستانی کو اپنی زبان عزیز ہے۔ جہاں
تک عجیب ہونے کے بات ہے تو بالکل نہیں۔ ہماری زبان میں ٹھہراؤ ہے ، لحاظ
ہے۔ تہذیب اور خوبصورتی ہے۔ " عائشہ نے لہجہ نرم رکھنے کی کوشش کی۔
"اچھا؟ ایسی بات ہے تو اب کیوں انگلش بول رہی ہو؟" مشل نے قدرے اونچی آواز
میں تجسس سے پوچھا۔ سیمی نے ساتھ بیٹھی مشل کو گھورا لیکن وہ متوجہ نہیں
تھی۔
"میں انگریزی کو برا نہیں کہہ رہی وہ بھی ایک زبان ہے۔ اور میں اسکی توہیں
نہیں کر رہی۔ اور اسکا استعمال میں صرف اس لیے کر رہی ہوں کونکہ یہ زبان
رابطے کی زبان ہے جسے ہم نے سیکھا ہی اس لیے ہے کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو
اور ہم کسی دوسرے سے باآسانی بات کرسکیں۔ ہر شخص کو انگلش آنی چاہئے جو
تعلیم یافتہ ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی زبان، اپنی پہچان
کو بھول جائیں یا اس کا اتعمال کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کریں یا خود کو کم
تر سمجھیں اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جو اردو کو زیادہ اچھا سمجھتا ہو ہم
اسکو 'عجیب' سمجھیں۔ مجھے ان پر تعجب ہے جو اردو کو عجیب سمجھتے ہیں۔ اگر
وہ پاکستانی ہو کر اردو کو کم تر سمجھتے ہیں تو بہت دکھ کی بات ہے۔ وہ کیسے
اہنی زبان کو ایسا سمجھ سکتے ہیں؟ وہ تو ان کی اپنی ہے غیروں کی نہیں۔ اپنی
خود کی زبان کے تو ہوجاؤ ، دوسروں کے بعد میں ہو جانا۔ ایسے لوگوں کے لیے
میں کہوں گی کہ وہ 'ہائی کلاس' اور ' لو کلاس' کے موازنے میں بری طرح غرق
ہوچکے ہیں۔اونہہ! تف ہے ان پر" ۔ وہ سانس لینے کو رکی۔
"میں تو فخر محسوس کرتی ہوں اردو بول کر، لکھ کر ، دوسروں کو اردو بولتا
دیکھ کر۔۔۔" آخر میں فخریہ انداز میں مسکرائی۔
سمینہ پر اسکی باتوں کا تھوڑا بہت اثر تو ہوا تھا تبھی اسکا سر شرمندگی سے
جھک گیا۔ مشل نے اسکی یہ حرکت نوٹ کی اور کھڑے ہوکر عائشہ کے لیے تالی
بجائی۔ |