حقے کی بو نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔
گھر کا ملازم گھر بھر میں پھیلی اس بو کو کم کرنے کیلئے جتن کر رہا تھا مگر
بو تھی ختم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی ۔ مالکن کے گھر لوٹنے سے پہلے حقے کی
اس بو کا خاتمہ ضروری تھا ،ورنہ مالکن کے ہاتھوں گھر بھر کے ملازموں کی خیر
نہ تھی ۔ مالکن کو حقے کی اس بو سے سخت نفرت تھی ۔ لیکن بابا تاج حقے کی بو
کو پورے گھر میں پھیلائے پھرتے تھے ۔برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھ جاتے
اور کشش لگانے لگتے ۔ حقہ تازہ نہ ہوتا تو ملازم کو آواز دیتے یا خود ہی
حقہ تازہ کرنے بیٹھ جاتے ۔ حقہ تازہ کرنے کے تمام لوازمات گھر میں لا کر
رکھ دئیے گئے تھے ۔ شہر آتے وقت بابا تاج نے بیٹے سے کہا تھا کہ وہ اسے
گاﺅں میں ہی رہنے دے ۔ گاﺅں میں اس کے حقہ پینے کا بندو بست ہے ۔شہر میں
تمھارے لیئے خواہ مخواہ مسئلہ ہو گا ۔ بیوی کے مرنے بعد جب بابا تاج اکلاپے
کا شکار ہوگیا تو بیٹا اس وعدے کے ساتھ شہر لے آیا کہ وہ اسے حقے کیلئے
تمام تر لوازمات پورے کر کے دے گا۔بیٹا باپ کو شہر لے آیا اور اس کے حقہ
پینے کے تمام تر لوازمات بھی مہیا کر دیئے ۔ گھر میں موجود نوکروں کو سختی
سے تنبیہہ بھی کر دی کی جب بھی والد بزرگوار کو حقہ پینے کی طلب ہو ۔حقہ
تازہ کر دیا کریں ۔ گھر کے ملازموں نے حکم کی تعمیل کی اور صبح ،دوپہر اور
شام حقہ تازہ کر کے بابا تاج کے سامنے آ کر رکھ دیتے ۔ برآمدے میں رنگین
چار پائی بابا تاج کیلئے بچھا دی گئی تھی ۔چار پائی پر سرہانہ اور چادر بھی
بچھائی گئی تھی ۔بالکل ایسے ہی جیسے گاﺅں میں بابا تاج اپنے گھر سے ملحقہ
احاطے میں چار پائی بچھائے بیٹھا ،حقہ سامنے رکھے گاﺅں کے دوسرے دیہاتیوں
کے ہمراہ کشش پہ کشش لگایا کرتا تھا ۔ احاطے میں ایک بہت بڑا پیپل کا درخت
تھا جس کی گھنی چھاﺅں میں سارا دن حقہ کی محفل سجا کرتی ۔دو چار دیہاتی ہر
وقت بابا تاج کے اس ڈیرہ نما احاطہ میں موجود ہوتے تھے ۔ باباتاج کا یہ
ڈیرہ گاﺅں کے عین مرکز میں تھا ۔ یہاں سے گزرنے والا ہر وہ شخص جو حقہ پینے
سے رغبت رکھتا کشش لگانے کو بابا تاج کے پاس آ بیٹھتا۔ بابا تاج کی گاﺅں
میں ساقی کی حیثیت تھی جو ہر آنے والے جام پہ جام پیش کرکے اس کی تسکین کا
سبب بنتا ہے ۔ بابا تاج کے پاس بھرے جام تو نہ تھے ہاں البتہ ہر وقت تازہ
حقہ تسکین کیلئے ضرور ہوتا تھا ۔ حقہ جب ٹھنڈا پڑنے لگتا بابا تاج اٹھتا آگ
جلاتا ،حقے میں پانی ڈالتا ،اور تمباکو کے اوپر ڈھیر سارا گڑ رکھ دیتا ۔
بابا تاج سے جب اس کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ بڑے مدلل طریقے سے دلائل دیتے
ہوئے بات سمجھاتا ” یہ جو تمباکو ہے یہ بڑی خطرناک چیز ہے ،یہ بندے کے
پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور میں نے سنا ہے اس سے پھیپھڑوں کا کینسر
بھی ہو جاتا ہے ،سنا ہے شہروں میں لوگ بنا حقے کے تمباکو نلیوں میں بھر کے
پیتے ہیں ۔اس لیئے ان کو یہ مرض زیادہ لگتا ہے اور ہم دیہاتی اسی تمباکو کو
گڑ اور پانی میں ملاکر پیتے ہیں تو یہ ہمارے لیئے شفا بن جاتا ہے ۔اس واسطے
میںگڑ کی مقدار زیادہ ہی ڈالتا ہوں اور دوسرا حقے کا پانی ایک پہر کے بعد
بدل دیتا ہو ں ،یہی وجہ ہے گاﺅں بھر میں میرا حقہ مشہور ہے ،جو بھی میرے
ڈیرے کے پاس سے گزرتا ہے بنا کشش لگائے آگے نہیں جاتا “ ” بابا تاج ۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے تیرے بیٹے کو سرکار کی طرف سے بہت بڑا بنگلہ ملا ہے “ ایک دیہاتی نے
حقے کا کشش لگایا اور دھواں ہوا میں تحلیل کر کے حقہ ساتھ بیٹھے دوسرے
دیہاتی کی طرف پھیر دیا ہاں ہاں ،بھئی سرکار کا اصول ہے جو بہت بڑا افسر
ہوتا ہے اسے رہنے کو بنگلہ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے فضل سے میرا بیٹا بھی
بہت بڑا افسر لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا تاج ۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ بھی سنا ہے تم
نے اپنے بیٹے کے پاس شہر چلے جانا ہے ؟ “ ایک اور دیہاتی نے کش لگایا اور
دھواں کچھ دیر حلق میں ہی رہنے دیا پھر اس نے سانس کے ساتھ دھواں نتھنوں سے
ہوا میں بکھیر دیا ۔حقہ پیتے پیتے کچھ لوگ کو ملکہ حاصل ہو جاتی ہے کہ
دھواں منہ کی بجائے ناک سے نکالنے لگتے ہیں ” بیٹا اور بہو ضد کر رہے ہیں
کہ میں تمھاری چاچی کے اس دنیا سے چلے جانے بعد ان کے پاس شہر جا کر رہنے
لگوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں ابھی میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔ “ حقہ
گھوم کر بابا تاج کے پاس آ جاتا ہے وہ گڑ گڑ کر کے کشش لگاتا ہے ۔ابھی اس
نے دھواں ہوا میں نہیں چھوڑا کہ کھانسی آنے لگتی ہے ۔کھانستے کھانستے دھواں
کا بادل بنتا ہے اور اوپر اٹھ جاتا ہے اور ساتھ ہی حقے کی بو بھی ڈیرے کے
درو دیوار میں بس جاتی ۔
برآمدے میں چار پائی پر بیٹھا حقے کی نلی منہ میں ڈھونسے گڑ گڑ کرتا بابا
تاج کش لگا کر دھواں ہوا میں بادل بناتا ہوا چھوڑ دیتا ہے ۔دھواں ہوا میں
بکھرجاتا ہے لیکن حقے کی تازہ بو اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔آہستہ آہستہ حقے
کی یہ بو پورے گھر میں پھیل گئی ۔جس سے بابا تاج کی بہو کو شدید نفرت ہے
۔اس کے گھر آنے سے پہلے ملازم حقے کی اس بو کو گھر بھر سے ختم کر دینا
چاہتے ہیں ۔ایک دن برآمدے میں ملازم نے ابھی حقہ تازہ کر کے رکھا تھا بابا
تاج کا پوتا جو بر آمدے میں کھیل رہا تھا دادا کی دیکھا دیکھی حقے کے کشش
لگانے لگا ۔ مالکن نے دیکھ لیا لگی سسر پر سیخ پا ہونے ۔ بہو کا رویہ بدلنے
لگا ،وہی بہو جس کا بابا تاج کو گاﺅں سے شہر لانے میں ایک کردار تھا ،بابا
تاج کے حقے کو اپنے بیٹے کی صحبت پر منفی اثرات کا سبب گردانے لگی تھی
۔باتوں باتوں میں اس نے اپنے شوہر کو بھی اس سے آگاہ کر دیا تھا کہ بابا
تاج کا یوں کھلم کھلا حقہ پینا اس کے معصوم کی جسمانی، اخلاقی اور سماجی
صحت پر بے اثرات مرتب کر ے گا ۔بیٹے نے کھل کر بابا تاج سے بات تو نہ کی
ہاں البتہ حقے کے جسمانی،اخلاقی اور سماجی نقصانات کا درس دے ڈالا ۔
باباتاج نے جواباً بیٹے کو یاد کرایا کہ وہ شہر آنے سے پہلے تک حقہ تازہ کر
کے دیا کرتا تھا ،بابا تاج نے بیٹے کو بآور کرایا کہ وہ آگ جلاتا ،حقے میں
پانی بھرتا ،چلم میں تمباکو کے ساتھ گڑ ڈالتا اور چلم آگ سے بھر لاتا ۔ایک
بار چلم جو آگ سے بھری تھی تیرے ہاتھ پر گر گئی تیرا ہاتھ جل گیا ،اس کے
باوجود تو مجھے حقہ تازہ کر کے لا دیتا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ حقے کی نلی منہ میں ڈال
کر چیک کرتا کہ آیا حقہ ٹھیک طرح سے کام کر رہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب حقے نے کوئی جسمانی ،اخلاقی یا سماجی نقصان نہیں ڈالا تھا۔
” آج پھر بابا جی نے یہاں کمرے میں بیٹھ کر حقہ پیا ہے “ مالکن نے کمرے میں
داخل ہوتے ہی نتھنوں سے ایسے سونگھا جیسے کسی شکار کی تلاش میں ہو ۔ ملازم
کو آواز دی وہ دوڑتا ہوا ٓیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔مالکن نے اپنا
سوال پھر دہرایا ” جی “ ملازم نے نحیف سی آواز میں کہا اور نظریں جھکا کر
کھڑا رہا ۔ مالکن نے الماری سے ائیر سپرے نکالا اور فضا میں چھڑکنے لگی ۔
” بابا جی اگر آپ نے یہ حقہ ضروری پینا ہے تو سرونٹ کواٹر میں جا کر پی لیا
کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حقے کی بد بو سے باقی گھر والوں کو بیمار تو نہ کریں “
گھر کی مالکن نے بابا تاج کو گویا اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا اور پھر ملازم
کو آواز دے کر برآمدے میں پڑا حقہ اٹھوا کر سرونٹ کواٹر میں رکھوا دیا اور
ملازم کو نصیحت کی کہ وہ سرونٹ کواٹر میں بابا جی کو باقاعدگی سے حقہ تازہ
کر کے دیا کرے پھر ایسا ہی ہونے لگا بابا تاج جو گاﺅں میں ڈیرے پر لوگوں کے
جھرمٹ میں ماضی حال اور مستقبل کی باتیں کرتے، خوش گپیاں لگاتے حقے کے کشش
لگایا کرتا تھا ۔گلی سے گزرنے والا ہر شخص دعا و سلام کے بہانے بابا تاج کے
پاس آبیٹھتا ،حقے کے کشش لگاتا اور چلا جاتا اب سرونٹ کواٹر میں اکیلا
بیٹھا حقے کے دھویں سے سرونٹ کواٹر کی فضا گرد آلود کر رہا ہے۔
” بابا تاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج میرا دل بھی چاہا رہا ہے کہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر
میں بھی حقہ پیو “ ملازم نے چلم حقہ کے اوپر رکھتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ
بابا تاج اسے ہاں یا ناں میں جواب دیتا ملازم نے حقے کے تین چار کشش لگا
لیئے ۔ تمباکو کی کرواہٹ نے اس کے گلے میں خراش پیدا کر دی ۔ملازم کھانسنے
لگا ۔تھوڑی دیر تک کھانسنے کے بعد جب اس کی طبعیت ذرا بحال ہوئی تو اس نے
ایک گھونٹ پانی پیا اور بابا تاج سے گویا ہوا ” بابا تاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اتنا
کڑوا حقہ کیسے پیتے ہیں ؟ملازم بابا تاج سے سوال گیا اور پانی کا ایک اور
گھونٹ گلے میں انڈیل لیا ۔ بابا تاج نے حقے کا ایک کشش بھرا اور بولا ” حقے
کی اسی کڑواہٹ میں ہی حقے کا سواد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ کڑواہٹ نہ ہو تو
کوئی بھی حقہ نہ پیئے ، بالکل ایسے ہی جیسے نشہ آور چیز میں اگر نشہ نہ ہو
تو کوئی بھی اس کا نشہ نہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حقے کی یہ کڑواہٹ توکچھ بھی
نہیں ،میں نے اپنے کھیتوں میں ایک پیلی صرف تمباکو کیلئے رکھی ہوتی تھی۔
اس پیلی میں خود تمباکو کاشت کرتا ۔کھیت سے ہی اس کی خوشبو ارد گرد کے
علاقے میں پھیل جاتی ،لوگ دور دور سے میرے کھیت کود یکھنے آتے۔اتنے بڑے بڑے
تمباکو کے پودے ہوتے ۔یہی وجہ تھی جب تمباکو چلم میں ڈالا جاتا ارد گرد کی
پوری فضا خوشبو سے مہک اٹھتی رہ چلنے والوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی۔
” بابا تاج کیا اب آپ کی وہ تمباکو والی پیلی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ “ ” اگر آج
وہ تمباکو کی پیلی ہوتی تو صاحب اس شہر میں افسر نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری
گھر والی کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنتے
دیکھنا چاہتی ہے ۔میں نے اپنی گھر والی کے اس خواب کو پورا کرنے کیلئے گاﺅں
میں ساری زمین بیچ دی اور بیٹے کو شہر پڑھنے کیلئے بھیج دیا ۔لیکن زندگی نے
اس کا ساتھ نہ دیا ۔باتیں کرتے کرتے حقہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔ ملازم نے حقہ
اٹھایا اور تازہ کرنے سرونٹ کواٹر سے باہر چلا گیا اور بابا تاج ماضی کی
یادوں میں ۔
” مسلسل حقہ پینے کی وجہ سے آپ کے والد کے لنگز ایفیکٹ کر گئے ہیں سر ، ان
کو فوراً حقہ چھوڑنا ہو گا “ بابا تاج کا ڈاکٹر نے معائنہ کرتے ہوئے بابا
تاج کے بیٹے اور بہو سے کہا اور نسخہ لکھنے میں مصروف ہو گیا ۔ ڈاکڑکے جانے
کے بعد مالکن نے ملازم کو آواز دی اور حکمیہ لہجے میں بولی” آج کے بعد بابا
جی کا حقہ پینا بند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر دار جو ان کو حقہ تازہ کر کے دیا “
ملازم نے تابع داری کی اور چلا گیا ۔
بابا تاج کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی کھانستے کھانستے سانس اکھڑ
جاتا ۔چار پائی مقدر بنی ہر وقت برآمدے میں بچھی چار پائی پر پڑے کھانستے
رہتے ۔کتنے دن ہو گئے بابا تاج نے حقہ نہ پیا تھا ۔اب گھر بھر سے حقہ کی بو
بھی ختم ہو چکی تھی ۔ایک رات بابا تاج کی طبعیت بگڑ گئی۔سانس ایسی اکھڑی کہ
پھر کبھی لوٹ کر جسم کے پنجرے میں نہ آئی ۔بابا تاج کے جسد خاکی کو منوں
مٹی کے سپرد کر دیا ۔مالکن نے ملازم کوآواز دی اور حکم صادر کیا کہ حقہ
سٹور روم میں رکھ دو ملازم جاتے جاتے رک گیا اور ڈرتے ڈرتے بولا ” مالکن
۔۔۔۔ ۔۔۔ جب بابا تاج سرونٹ کواٹر میں حقہ پیا کرتے تھے تب مجھے بھی اس کی
عادت پڑ گئی ، اگر آپ اجازت دیں تومیں حقہ اپنے کواٹر میں رکھ لوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کھبار تازہ کر کے ایک دو کشش لگا لیا کروں گا “ مالکن غصے
سے تلملا اٹھی ” گویا اب تم اس گھر میں حقے کی بو پھیلایا کرو گے- |