ارشد آج پھر چہرے پر اداسی اور تھکاوٹ لیے گھر میں داخل
ہوا۔اماں جی کوسلام کیا۔اور شہناز کو کھانے کا کہہ کر منہ دھونے چلا گیا۔
بچے ارشد کو دیکھنے کے باوجود کمرے میں دبکے بیٹھے رہے۔گھر میں عجیب سی ما
یو سی اور افسردگی چھائی ہوئی تھی۔فطرتاً تو ارشد خوش مزاج بندہ تھا اور
چھو ٹی مو ٹی پر یشانیوں کو خا طر میں نہیں لا تا تھا۔لیکن وقت اور حالات
انسان کو بدل دیتے ہیں جیسے ارشد بدل گیا تھا اورو یسے بھی جن حالات سے وہ
گزر رہا تھا ایسے میں ہنسی خوشی سب بے معنی ہو جا تا ہے۔
ارشد پیشے کے اعتبار سے مزدور تھا ۔ اﷲ کے کرم سے اتنا کما لیتا تھا کہ گزر
اوقات بسر کیے جا سکیں۔دو بچے سرکاری سکول میں پڑھ رہے تھے سب کچھ بہترین
تو نہیں تھا البتہ زندگی کی گاڑی چل رہی تھی لیکن جب سے ماں کو ہیپا ٹائیٹس
کی تشخیص ہو ئی تھی حا لا ت بدلتے گئے۔ماں کے علاج میں اچھے خا صے پیسے
لگنے لگے یہاں تک کہ بچوں کا سکول جا نا چھوڑوا نا پڑا۔آہستہ آ ہستہ گھر کا
قیمتی سامان بکنے لگا۔ کبھی ماں کی بالیاں بیچنی پڑیں تو کبھی بیوی کے جہیز
کی کو ئی چیز تو کبھی کچھ اور۔اب تو عجیب کسمپرسی کی حا لت تھی ۔گھر میں
بیچنے کے لئے کچھ بچا نہیں تھا اور نو بت فاقوں تک آ پہنچی تھی۔ ماں کی
بڑھتی ہوئی بیماری, بچوں کی تعلیم اور منہ کو آ تے خرچے روز بہ روز ارشد کو
ذہنی اور جسما نی طور پر کمزور کر رہے تھے۔ارشد کرے بھی تو کیا کرے وہ روز
کام پر جا تا ہے لیکن کام روز نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو ۷۰۰ , ۸۰۰
کی دہاڑی میں بہ مشکل دو دن نکلتے ہیں اور دیگر اخراجات اپنی جگہ جوں کے
توں رہتے ہیں۔
وہ ایک مزدور ہے اور پاکستان جیسے ملک میں ایک مزدور کے حالات اس سے بہتر
ہو بھی نہیں سکتے۔ جہاں صدیوں سے مزدور طبقے کے حقوق غصب کیے جا تے رہے ہوں
جہاں کبھی وڈیرے , کبھی جا گیردار تو کبھی سیا سی شخصیات مزدوروں کا
استحصال کر تے رہے ہوں جہاں مزدور فیکٹری ما لکان اور سرمایہ داران کے
درمیان چکی میں پستے رہے ہوں وہاں ایک مزدور کے حالات اس سے بہتر ہوبھی
نہیں سکتے۔ مثال کے لئے آپ دور کیوں جا تے ہیں ۲۰۱۲ میں کراچی میں گارمنٹس
فیکٹری میں لگنے والی آگ یاد کریں جس میں ڈھائی سو سے زائد افراد جل کر
خاکستر ہو گئے تھے لیکن حادثے کے ذمہ داران کو آ ج تک قانون کے کٹھرے میں
نہیں لایاجاسکا۔ مرنے والوں کے لواحقین اب زندگی کی گاڑی کیسے کھینچ رہے
ہیں کون جانتا ہے۔کون جانتا ہے کے کسی مزدور کی آٹھ سالہ بچی اب لوگوں کے
گھروں میں کام کرتی ہے۔ کون جانتا ہے کے کسی مزدور کا تیرہ سالہ لڑکا اب
گھر کا واحد کفیل بن گیا ہے۔کون جانتا ہے کہ کسی مزدور کی بہن اب تک گھر ہی
پرکیوں بیٹھی ہے۔ کون جانتا ہے کہ کسی مزدور کی ماں کیوں سسک سسک کر مررہی
ہے۔کوئی بھی نہیں جانتا اور جان کر کسی نے کرنا بھی کیا ہے۔ حکومت یوں تو
مزدوروں کو حقوق دینے کے لئے بلندوبانگ دعوے کرتی ہے اور ہر سال بجٹ پیش
کرنے کے موقعے پر کم سے کم تنخواہ کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرتی ہے لیکن
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک مزدورمحض ۴۰۰۰ سے لے کر ۷۰۰۰ کے حصول کے لئے اپنے
خون کو پسینے کی طرح جلا تاہے۔ ایک عام مزدور جو آسمان کو چھوتی عمارتیں
بناتا ہے,کھڈی پر بیٹھ کر کپڑا’بنتاہے,قالین پر خوبصورت نقش و نگار بناتا
ہے,اپنے ہاتھ کی معمولی حرکت سے نازک ظروف بناتا ہے, کانوں کی گہرائیوں میں
جا کر کوئلہ,نمک اور قیمتی پتھر نکلتا ہے اور پھر وہیں کہیں دب کر , جل کر
مر جا تا ہے اور اگر بچ بھی جائے تو زندگی بھر کے لئے معزور ہو جاتاہے اور
باقیہ زندگی کے لئے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتاہے۔ایسے میں حکومت کا
کردار حادثہ وقعو ع پذیرہو جا نے کے بعد محض مزمتی بیان دینے تک کا رہ جا
تاہے۔ جو وہ بڑی ذمہ داری سے ادا کر تی ہے۔در حقیقت مزدور کی ز ندگی کی حفا
ظت,کام کر نے کی جگہ پر ممکنہ حفاظتی تدابیر, معقول تنخواہ بمع دیگر
الاؤنسز بچوں کی تعلیمی اخراجات اور علاج و معالجے کی سہولت یہ سب کسی بھی
حکومت کی تر جیعات میں کبھی بھی شامل نہیں رہیں البتہ یہ سب باتیں الیکشن
کیمپین کے دوران اچھا نعرہ ثابت ہو سکتیں ہیں اور ہوتی آ ئی ہیں۔
ارشد بھی ایک معمولی مزدور ہی تو ہے اسی لئے اس کے حالات زندگی بھی مختلف
نہیں ہیں۔وہی غم رو زگار ارشد کو ہلکان کیے ہوئے ہے۔وہ آج پھر روز گار حاصل
کر نے کی غرض سے گھر سے نکلا لیکن اڈے پر پہنچ کر جب اس کو پتا چلا کہ آج
کوئی عام تعطیل ہے جس کی وجہ سے آ ج کام ملنا مشکل ہے تو وہ دلبرداشتہ ہو
گیا۔اور وہیں بیٹھ کر سو چنے لگا کہ آج گھر خالی ہاتھ جانے کا مطلب ایک وقت
کا فا قہ ہو گا۔ وہ انہیں سوچوں میں غرق تھا کہ ایک شخص جو اچھے خاصے حو
لیے میں موجود تھا اس کے پاس آ یا۔کہنے لگا کہ تھوڑا سا مرمت کا کام ہے چلو
گے؟ ارشد کے لئے تو اس سے بڑی خوشی کی بات کوئی نہ تھی۔ فٹ چلنے کو راضی ہو
گیا۔وہ شخص ارشد کو لے کر ایک پنڈال میں پہنچا۔جہاں کسی پروگرام کی تیا
ریاں جا ری تھیں وہا ں ارشد کو کچھ معمولی کام دیا گیا جواس نے گھنٹے ڈیڑھ
میں نبٹا دیا۔اور اتنی پگار بنا لی کہ آٓج اس کے بچوں کو بھوکا نہ سو نا
پڑے۔اپنا کام کر کے وہ وہاں سے نکلنے ہی لگا تھا کہ اچانک اس کی نظر سٹیج
پر لگے بینرپر پڑی۔۔۔۔۔جہاں بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا’یوم مزدور مبارک ہو‘۔۔۔پانچو
یں پاس ارشد ان الفاظ کو سمجھتا تھا۔۔۔اور پنڈال سے نکلتے ہوئے اس کے چہرے
پر بڑی ہی تلخ مسکرا ہٹ ابھری تھی جو معاشرے کے منہ پر تمانچہ تھی۔ |