اسریٰ و معراج قرآن کی زبانی اور اس میں پوشیدہ بلند و لطیف معانی

واقعۂ معراج محض ایک جزوی وضمنی واقعہ نہیں بلکہ اس میں رسول اﷲ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا گیا اور آسمان وزمین کی بادشاہت بے پردہ وبے جحاب ہوکر آپﷺ کے سامنے لائی گئی۔ نبوت کے اس غیبی وآسمانی سفر میں اس کے علاوہ بھی بہت بلند ولطیف مطالب ومعانی پوشیدہ ہیں اور اس میں بہت دور رس اشارات کیے گئے ہیں۔ سورہ ’اسراء‘ اور ’نجم‘ جو اس واقعے کے سلسلے میں نازل ہوئیں، یہ اعلان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ دونوں قبلوں (یعنی مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ) کے نبی اور دونوں سمتوں (یعنی) مشرق ومغرب کے امام اور اپنے پیش رو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث اور بعد میں آنے والی پوری نسلِ انسانی کے رہبر ورہنما ہیں۔ آپﷺ کی شخصیت اور آپ کے سفرِ معراج میں مکۃ المکرمہ، بیت المقدس سے اور مسجدِ حرام ، مسجدِ اقصیٰ سے ہم آغوش ہوگئیں، آپﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے نماز پڑھی اور یہ دراصل آپﷺ کے پیغام ودعوت کی عمومیت وآفاقیت، آپﷺ کی امامت کی ابدیت اور ہر طبقۂ انسانی کے لیے آپﷺ کی تعلیمات کی ہمہ گیر صلاحیت کی دلیل وعلامت تھی۔یہ واقعہ رسول اﷲ ﷺ کی شخصیت کا صحیح تعارف اور اس کی صحیح نشان دہی، آپﷺکی امامت وقیادت کا بیان، آپﷺ کی اس امت (جس میں آپ مبعوث ہوئے) کے اصل مقام وحیثیتِ عرفی کا تعین اور اس پیغام ودعوت اور مخصوص کردار کی پردہ کشائی کرتا ہے، جو اس امت کو اس وسیع وعریض دنیا اور عالمی برادری میں انجام دینی ہے۔واقعۂ معراج دراصل ایک محدود، مقامی اور عارضی نوعیت اور نبوت کی ابدی اور عالمگیر شخصیت کے درمیان خطِّ فاصل اور امتیازی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔

اگر رسول اﷲﷺ کوئی قومی یا مقامی لیڈر، کوئی ملکی ووطنی رہنما، کسی خاص نسل کے نجات دہندہ اور کسی نئی شوکت وعظمت کے بانی ہوتے، تو آپﷺ کو اس معراجِ آسمانی کی ضرورت نہ تھی، اس کے لیے آپﷺ کو نہ آسمان وزمین کی وسیع بادشاہت کے سیر ومشاہدے کی حاجت تھی، نہ اس کی ضرورت کہ آپﷺ کے ذریعے آسمان وزمین کا یہ نیا تعلق قائم ہو۔ اگر اس وقت آپﷺ کی یہ سرزمین، یہ ماحول اور یہ سوسائٹی، آپ کے لیے کافی ہوتی تو اس کو چھوڑ کر آپ کو کسی اور خطۂ زمین کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی، چہ جائے کہ بلند آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنے کی یا مسجدِ اقصیٰ تشریف لے جانے کی--- جو کہ آپ کے شہر سے بہت دور اور عیسائی مذہب اور طاقت ور ورومن شہنشاہی کے زیرِ اقتدار تھا۔

واقعۂ معراج یہ اعلان کرتا ہے کہ رسول اﷲﷺ ان قومی وسیاسی رہنماؤں کی صف سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، جن کی صلاحیتوں اور کوششوں کا دائرہ ان کے ملک یا ان کی قوم تک محدود رہتا ہے، اور ان سے صرف انھیں نسلوں اور قوموں کو فایدہ پہنچتا ہے جن سے ان کا تعلق ہوتا ہے اور اسی ماحول تک ان کا اثر باقی رہتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتے ہیں۔ آپ جس گروہ اور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ خدا کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں کی صف ہے، جو آسمان کا پیغام زمین والوں کو اور خالق کا پیغام مخلوق کو پہنچاتے ہیں اور ان سے پوری نوعِ انسانی (زمانہ وتاریخ، رنگ ونسل اور ملک وقوم سے قطعِ نظر) سرفراز وسربلند ہوتی ہے، اور اس کی قسمت جاگتی ہے۔ (نبیِ رحمت)

قرآن کریم میں ارشاد ہے :
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا، اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔(الاسراء:۱)

پاک ہے وہ ذات،جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی،جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں،تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔بے شک وہ ہر بات سننے والی ،ہر چیز جاننے والی ذات ہے۔

پہلے ہی لفظ ﴿سبحان﴾ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ یہ کوئی عام انسانی سفر نہیں بلکہ ایک عظیم الشان واقعہ ہے ، کیوں کہ لفظ ’سبحان ‘ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ آپﷺکا یہ سفر روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا،اگر معراج صرف روحانی بہ طورِ خواب ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے؟خواب تو ہر کوئی مسلمان بلکہ کوئی بھی انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا اور فلاں فلاں کام کیے۔

لفظ﴿ اسریٰ﴾اِسراء سے مشتق ہے،جس کے لغوی معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔اس کے بعد لیلاًکے لفظ سے صراحۃً بھی اس مفہوم کو واضح کر دیا اور لفظِ لیلاً نکرہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ اس تمام واقعے میں پوری رات بھی صرف نہیں ہوئی بلکہ رات کا ایک حصہ صَرف ہواہے۔

لفظِ ﴿بعبدہٖ﴾ میں بھی معراج کے جسمانی ہونے کی طرف اشارہ ہے،کیوں کہ’ عبد‘ صرف روح نہیں بلکہ جسم وروح کے مجموعے کا نام ہے۔اس مقام و اکرام میں لفظ’بعبدہٖ‘ایک خاص محبوبیت کی طرف اشارہ ہے،کیوں کہ حق تعالیٰ کسی کو خود فرما دیں کہ یہ میرا بندہ ہے،اس سے بڑھ کر کسی بشر کا کوئی اعزاز نہیں ہو سکتا۔یہاں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ کسی کو خدائی کا وہم نہ ہو جائے۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے سے عیسائیوں کو دھوکہ لگا ہے۔اس لیے لفظِ عبد کہہ کر یہ بتلا دیا کہ ان تمام صفات وکمالات اور معجزات کے باوجود آنحضرت ﷺ اﷲ کے بندے ہی ہیں،خدا نہیں۔

لفظ ِ ﴿لیلاً﴾ کے نکرہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ ا س تمام واقعے میں پوری رات بھی صرف نہیں ہوئی بلکہ رات کا ایک حصہ صرف ہوا ہے۔

شبِ معراج میں ایک سفر تو زمین پر ہوا ؛ مسجد ِحرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک، اسے اسریٰ کہتے ہیں،دوسرا سفر وہاں سے آسمانوں کی طرف ہوا ، اسے معراج کہتے ہیں۔مگر قرآن مجید کی اس آیت میں صرف زمینی سفر کا ذکر ہے ، آسمانی سفر کا ذکر نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ دن و رات صرف اس زمینی تضاد سے متعلق ہیں۔ آسمانوں میں اس طرح کے دن رات نہیں ہوتے ، جو آفتاب کے طلوع و غروب سے متعلق ہوں ۔ اس لیے اسریٰ اور لیل کے مقتضیٰ سے صرف زمینی سفر کے ذکر پر اکتفا اور سورہ نجم میں آسمانی سفر کو بیان کیا گیا﴿عند سدرۃ المنتہی۔﴾۔

پس اگرمذکورہ بالا آیت میں مسجد ِ اقصیٰ سے عروجِ سمٰوات کاذکر فرماتے ، مثلاً ثم منہ الی السمٰوات وفوقہایا مثل اس کے تو وہ بھی مظروف لیلاً کا ہوتا ، تو لازم آتا کہسیر سمٰوات وما فوقہا رات میں واقع ہوئی، حالاں کہ وہاں ایسی رات کا تحقق ہی نہیں ۔ پس اس کی ظرفیت صحیح نہ ہوتی ، اس لیے عروجِ سمٰوات کا ذکر یہاں مناسب نہ تھا ، مگر اس کے باوجود﴿لنریہ من آیاتنا﴾ میں جو کہ ایک غایت ہے …… اس کی طرف اشارہ فرما دیا۔

﴿من المسجد الحرام﴾حرمت والی مسجد یعنی کعبہ سے ؛اور مسجد ِ حرام اس مسجد کا نام ہے جو بیت اﷲ کے گِرد بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات پورے حرم کو بھی مسجد ِ حرام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

﴿الی المسجد الاقصیٰ﴾ یعنی بیت القدس تک۔مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ’اقصیٰ‘ کے معنی عربی زبان میں ’بہت دور‘کے ہیں،چوں کہ وہ مسجد مکّے سے بہت دور ہے،اس لیے اقصیٰ کہا گیا ۔

﴿الذی بارکنا حولہ﴾میں حول سے مراد پوری زمینِ شام ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی ہے اور اس میں فلسطین کی زمین کو تقدس عطا فرمایا ہے۔اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیوی بھی۔دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور تمام انبیاء کا مسکن و مدفن ہے اور دنیوی برکات اس کی زمین کا سر سبزہونا اور اس میں عمدہ چشمے،نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے۔

﴿لنریہ من ایاتنا﴾تاکہ دکھلائیں اس کو اپنی قدرت کے کچھ نمونے۔جن میں بعض تو خود وہاں کے متعلق ہیں ،مثلاً:اتنی بڑی مسافت کو بہت تھوڑے سے وقت میں طے کر لینا اور تمام انبیاء سے ملاقات کرنا اور ان کی باتیں سننا وغیرہ اور بعض آگے کے متعلق ہیں،مثلاً:آسمانوں پر جانا اور وہاں کے عجائبات کا مشاہدہ کرنا۔

﴿انہ ہو السمیع البصیر﴾وہی ہے سننے والا،دیکھنے والا؛یعنی اصلی سننے والا اور دیکھنے والا خدا ہے۔وہ جسے اپنی قدرت کے نشان دکھلانا چاہتا ہے دکھلا دیتا ہے۔اس نے اپنے حبیب محمد ﷺکی مناجات کو سنااور احوالِ رفیعہ کو دیکھا۔آخر’معراج شریف‘میں بی یبصر والی آنکھ سے وہ عظیم ترین نشانیاں دکھلائیں،جو آپﷺ کی استعداد کامل اور شانِ رفیع کے مناسب تھیں۔
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347696 views (M.A., Journalist).. View More