عقل بس محوِ تماشائے لب بام رہے
’دین میں مداخلت کا جواز طلا ق ثلاثہ کی بحث ‘نے ایک بار پھر ملک میں
مسلمانوں کے تما م ترجیحاتی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے
مسئلہ میں ایک طر ف جہاں علمائے کرام کا معتدل طبقہ نیزپروفیسر طاہر محمود
جیسی شخصیت کا موقف سامنے آیا ہے کہ”طلاق ثلاثہ کا اثر صرف ایک طلاق تک
محدود ہے“۔ وہیں دوسری طرف کثرت تعداد کو دین میں حجت باور کرانے والے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی جیسے” تحفظ شریعت کے علمبردار“ جمہور علماءسے
منسوب اجماع کا دعویٰ بھی کرتے چلے آرہے ہیں کہ ” تین طلاق دینے سے تین ہی
طلاق واقع ہوتی ہیں ، نیز چاروں امام ( امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام
شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کی متفق رائے بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ میں
تین طلاق ہی واقع ہوں گی ۔ علمائے کرام کی چھوٹی سی جماعت (غیرمقلدین) نے
جن دو احادیث کو بنیاد بنا کر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے
کا فیصلہ فرمایا ہے، جمہور علماء،محدثین، مفسرین نے احادیث کو غیر معتبر
قرار دیا ہے“۔ مزید ڈاکٹر موصوف اپنے موقف کے عقلی دلیل میں مدیر تجلی
مولانا عامر عثمانی ؒ کے تاثرات” طلاق کو بندوق کی گولی “ باور کراتے ہوئے
فرماتے ہیں،” اگر کسی شخص نے کسی شخص کے تین گولیاں ماری ہیں تو صرف یہ کہہ
کر کہ گولیاں مارنا چونکہ قانون کے خلاف تھا، لہذا صرف ایک گولی مارنا
تسلیم کیا جائے گا“ وغیرہ وغیرہ۔
موصوف ڈاکٹر محمد نجیب سنبھلی کے علمائے جمہور اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ
سے منسوب دعویٰ اجماع کی حقیقت بتلانے سے پہلے ، احقر نہایت احترام اور
انکساری سے جاننا چاہتا ہے کہ آیا مولانا محفوظ الرحمن( فاضل دیوبند )،
مولانا سعید احمد صاحب اکبرا ٓبادی( سابق شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی ،
مدیر برہان ، دہلی)، مولانا عبدالرحمن صاحب( ابن شیخ الحدیث مولانا عبید
اللہ صاحب رحمانی)، اور مولانا عتیق الرحمن صاحب عثمانی رحہم اللہ ، ڈاکٹر
سنبھلی موصوف کی نظر میں معتبر ہیں ؟ ڈاکٹر موصوف کے دعویٰ کے مطابق اگر
بالفرض ” (غیر مقلدین) علماء کے دلائل حدیث کو امت کے سواد اعظم نے(معاذ
اللہ) مردود کر دیا ہے“ تو عرض ہے، للہ مذکورہ علمائے کرام کی شہادت سے ہی
اپنے موقف میں نظر ثانی کا درواز کھول لیں اور مسئلہ کو مسلکی تنگ نظری کی
نذر ہونے سے بچا لیں۔ مولانا محفوظ الرحمن ؒ، فاضل دیوبند ” اجماع کا غلط
دعویٰ“ کے ذیل میں سات اعتراضات لائے ہیں جن میں دوسرا اعتراض یہ ہے:” جو
لوگ اس مسئلے پر غور کرنا چاہتے ہیں وہ اجماع کی بحث کو بھی اٹھا ئیں۔
ہمارے علمائ( احناف) اب تک یہی لکھتے آرہے ہیںکہ اجماع سکوتی ہے جو بہر حال
اجماع ِ تقریری سے کم ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اجماع ِ سکوتی کے حجت ہونے میں
ہی سر ے سے امام شافعی کا اختلاف ہے ، وہ اجماع ِ سکوتی کو حجت نہیں مانتے“
۔ مولانا محفوظ الرحمن ؒ سلسلہ تحریر جاری رکھتے ہوئے رقمطراز ہیں،” یہاں
ہم علامہ ابن رشد قطربی کی ( بدایة المجتھد) سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں۔
[جمہور نے سدّ ذریعہ کے طور پر تین طلاق کو مغلّظہ مان لیا ہے۔ حالانکہ اس
سے خدائے پاک کی وہ رحمت و شفقت اور وہ رخصت بھی ختم ہو جاتی ہے جو اللہ کے
اس وقل میں ہے،”لعل اللہ یحدیث بعد ذالک امراً“( ج2ص:62)]۔ مطلب یہ ہوا کہ
جب اللہ نے الگ الگ طلاق دینے کی مصلحت یہ بتلائی ہے کہ شاید تمہارے دل مل
جائیں اور تمہیں اس پر ندامت ہو۔ لہذا پھر سے ملنے کی کوئی شکل باقی رہنی
چاہئے، ابن رشد کا کہنا ہے کہ اب اگر ایک طحر میں ادا کی گئی تین طلاق کو
بھی تین مرتبہ کی طلاق کا درجہ دے دیا جائے تو یہ رخصت باطل ہوجاتی ہے۔
گویا ان کا صاف رجحان اس طرف ہے کہ تین کو ایک کہنے والا قول ہی اللہ کی
رخصت اس کی رحمت سے زیادہ قریب ہے۔ علامہ ابن رشد کوئی اٹھویں صدی کے نہیں
بلکہ ان کی پیدائش 520 ہجری میں اور وفات 595 ہجری میں ۔ گویا چھٹی ہجری کے
عالم اور وہ بھی ایسے کہ جن کا شمار چوٹی کے علما میں ہوتا ہے“۔( مولانا
محفوظ الرحمن، فاضل دیوبند) ۔ طلاق کو بندوق کی گولی باور کرنے کے جواب میں
مولانا سید احمد عروج قادری ضیا ( ایڈیٹر ماہنامہ ” زندگی“ رامپور) ،مدیر
تجلی عامر عثمانی:ؒ کے پانچویں اعتراضات کے ذیل میں رقم کرتے ہیں:” کسی نے
زید کے ہاتھ میں بندوق دے کر اس کو مجبور کیا کہ بکر پر گولی چلا دے۔ اس نے
حالت اکراہ میں گولی دغ دی۔ بکر زخمی ہو گیا، گولی اپنا کام کر گئی۔ اسی
زید کو کسی نے مجبور کیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ اس نے حالت اکراہ میں
طلاق کی نیت اور قصد کے بغیر محض مجبورً اپنی بیوی کو لفظاً طلاق دے دی تو
کیا الفاظ طلاق اپنا کام کریں گے؟ مالک و شافعی واحمد(رحمہم اللہ) کا جواب
یہ ہے کہ الفاظ ِ طلاق بے اثر رہیں گے اور طلاق واقع نہ ہوگی۔ اور اگر حالت
اکراہ میں کتابتہً اس نے طلاق دی ہے‘ یعنی منگ سے طلاق کے الفاظ نہیں نکالے
ہیں‘ بلکہ کاغذ پر لکھ دیئے ہیں تو فقہ حنفی کا جواب بھی یہی ہے کہ طلاق
واقع نہ ہو گی۔ ان مثالوں سے واضح ہوا کہ طلاق کوبندوق کی گولی سمجھنا صحیح
نہیں ہے۔ بندوق سے گولی نکل کر اپنا کام کر جاتی ہے خواہ بندوق چلانے والا
کسی حال میں ہو، لیکن لفظ طلاق ‘ ہر حال میں اپنا کام نہیں کرتا۔ واضح رہے
کہ مولانا محفوظ الرحمن اور دیگر علمائے کرام نے ( ڈاکٹر محمدنجیب سنبھلی)
کی طرح مدیر تجلی کے دعویٰ اجماع کوخارج کرتے ہوئے ائمہ اربعہ اور جمہور
محدثین کے تاثرات سے مدلل اپنا موقف خوب واضح کیا ہے، جو بوجہ طوالت احقر
ضبط تحریرسے یہاںمعذور ہے۔ البتہ دین کے ان مخلص خدمات گاروں کے تاثرات ہم
جیسے ملقب ”جاہلوں “کیلئے ” فاسالوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون“ کے حکم
خداوندی کے طور پردستاویزی حیثیت رکھتی ہیں، اللہ ان پر ا پنی رحمتیں نازل
فرمائے۔
اسلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد گجرات کے زیر اہتمام 4,5,6 نومبر 1973 میں ایک
مجلس کی تین طلاق کے موضوع پر شرکائے مجلس نے اپنی جو متفقہ رائے پیش کی
تھی ، اسے بھی ذرا غور سے پڑھ لیا جائے ۔ شرکاءمجلس کی متفقہ رائے یہ تھی
کہ: ”ایک مجلس میں تین طلاق ِ مغلظہ بائینہ ہنے کا مسئلہ اجماعی اور قطعی
نہیں ہے۔ اس مین سلف کے زمانہ سے اختلاف موجود ہے۔ دعویٰ اجماع کی بابت
ائمہ مجتہدین رحہم اللہ کے فتاوے اور موقف کا اعادہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں
امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول نقل کیا گیا:” جس مسئلہ میں آدمی اجماع کا
دعویٰ کرتا ہے اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے۔ جو شخص بھی اجماع کا دعویٰ
کرے وہ جھوٹا ہے۔ ممکن ہے لوگوں نے اختالف کیا ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو۔
اس کے بجائے اسے یوں کہنا چاہئے کہ لوگوں کے کسی اختلاف کا علم نہیں“ (علم
الصول الفقہ، لعبدالوھابخلاف۔ص:49)۔ امام شوکانیؒ نے بھی امام احمد بن حنبل
ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:” جو وجوب اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا
ہے“(ارشاد الفحول۔ ص64)۔ اکثر جس چیز کو اجماع کہا جاتا ہے وہ اجماع سکوتی
ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اجماع سکوتی سے شرعی حجت قائم نہیں ہوتی۔ چنانچہ حنفی
اصول فقہ کی کتاب ” نور الانوار“ میں ہے: ” اسے اجماع سکوتی کہا جاتا ہے جو
ہمارے(حنفی) یہاں مقبول ہے، لیکن امام شافعیؒ نے اس سے اختلاف کیا ہے“ (نور
الانوار، ص: 217)۔
علمائے کرام کی گراں قدر تالیفات اور تصنیفات کا مقصد آخر کیا ہے؟ حقوق
اللہ کی ادائیگی سے وقت نکال کر ان محترم نفوس نے کیوں اپنی تمام تر محدود
وسائل کے باوجود حقوق العباد کا بھی فرض نبھایا؟ ان ہی معزز علمائے کرام کی
فہرست میں ایک نمایاں نام مولانا محمد منظور نعمانیؒ کا بھی ہے جن کی معرکة
الآرہ تصنیف ” ایرانی انقلاب “کے مطالعہ نے احقر کے اس زاویہ نظر میں
انقلاب لا دیا جس میں ”بزرگوں کی نظر سے حق کو دیکھنے کا اسلوب شامل تھا“۔
مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کی گوہر نایاب تحریروں سے احقر کو ” حق کی نظر
سے بزرگوں کو دیکھنے“ کا زاویہ ملا۔ محترم حفیظ نعمانی کا مضمون ” اچھا ہے
دل کے پاس رہے پاسبان عقل“ کو اسی زاویہ نظر سے احقر کو پڑھنے کا موقع ملا
نیز علمائے کرام کی اس ضمن میں جن تاثرات تک رسائی ممکن ہو سکی اسے ملت کی
امانت سمجھ کر یہاں نقل کرنا اپنی دینی فریضہ سمجھا ۔ ہر چند کہ محترم و
مکرم حفیظ نعمانی صاحب نے اپنے تازہ ترین تاثرات کا روئے سخن (صرف) پروفیسر
،” طاہر محمد صاحب کے نام چند معروضات“ کی جانب پھیر کر اسے موضوع بحث
بنانے سے احتراز کیا ہے، تاہم موصوف نعمانی صاحب نے اپنی تحریر میں بیشتر
ایسے متنازعہ اصطلاحات قلمبند کر دیئے ہیں جس سے موضوع کا رخ مثبت بحث کی
بجائے مسلکی بالاتری اور خلط مبحث کی طرف ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر موصوف
کی اس تحریر میں مسلک اہل حدیث کو ” اہل قرآن “ کے مقابل باور کراتے ہوئے
کہتے ہیںکہ ، ’ ’اس وقت صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد
پاکستان میں غلام پرویز یا ایسا ہی کوئی نام تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا
کہ ہم اہل قرآن ہیں۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہم اتنے باشعور نہیں تھے کہ
ایسے اہم مسائل کو یاد رکھتے۔ لیکن یہ خوب یاد ہے کہ علماءپاکستان اور
علماء ہند نے سخت الفاظ میں اس کی مخالفت کی تھی۔ کچھ دن تو وہ یہ دلیل
دیتے رہے کہ جب ایک طبقہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں ہمیں کسی امام
کی کوئی ضرورت نہیں تو ہم اہل قرآن کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس لئے کہ دین تو
قرآن ہے( معذرت کے ساتھ ، دین صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن وسنت ﷺ فہم صحابہ
کرام کے ساتھ مشروط ہے)۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں بھی یہی عرض کیا گیا تھا
کہ صرف قرآن عظیم پر انحصارکرکے مسئلہ کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور جو بضد
ہوگا وہ اہل قرآن ہی ہوسکتا ہے۔
ایمان و عقیدہ کے معاملہ میں اگر ” عقل کی پاسبانی“ کو دخل ہوتا تو جرابوں
کے اوپر مسح کرنے کی بجائے جرابوں کے نیچے مسح کرنا صحیح ہوتا۔ محترم و
مکرم موصوف حفیظ صاحب نے خطبہ جمعہ کے تعلق سے خلفا راشدین رضی اللہ عنہم
کا منبر رسول ﷺ پر کھڑے ہونے کا واقعہ نقل کیاہے۔ واقعہ کی صحت سے قطع نظر
محبت رسول ﷺ کے ضمن میں اگر یہی موقف اختیار کیا جا سکتا ہے تو ” و ما اتکم
الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا“ کا حکم الٰہی بھی پیش نظر رہنا چاہئے ۔
یقین جانئے کہ کائنات نے یہی دیکھا بھی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں
اپنے مصلے پر صدیق اکبر کو کھڑے ہونے کا حکم دیا ۔”مروا ابا بکر فلیصل
بالناس“ جاﺅ ابوبکر( رضی اللہ عنہُ)کو جاکر کہو کہ محمد (ﷺ) کے مصلے پہ
کھڑا ہو جائے۔ صدیق اکبرؓ کی اس امامت پر آج فاروق ؓ کو شکایت نہیں،
ذوالنورین ؓ کو تکلیف نہیں، حید ر ؓ کو اعتراض نہیں،نبی ﷺ کے چچاعباس ؓ کو
اختلاف نہیں۔ یہاں عقیل بھی موجود،عبداللہ بھی موجود فضیل بھی موجود ، حسن
بھی موجود اور حسین بھی موجود (رضوان اللہ تعالی اجمعین)۔ آج کسی نے
سیدالامم کی امامت پر اعتراض نہیں کیا؟ آج کسی نے بولنے کی جرات کی؟ ہاں!
بولی تو تنہا ام المومنین حضرت عائشہ بولی۔ آنکھوں میں آنسو بھر کے بولی۔
یا رسول اللہ (ﷺ) کسی اور کو کہئے۔(ابا نہایت ہی رقیق القلب ہیں، آقا کے
مصلے پہ کھڑا نہ ہوا جائے گا) نبی ﷺ نے فرمایا ” لا ینبغی لقوم ان یکون
فیہم ابو بکر ان یومہم غیرہ“( ابو بکر کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا محمد ﷺ کے
مصلے پر کھڑا نہیں ہو سکتا )۔”جاﺅ ابوبکر( رضی اللہ عنہُ)کو جاکر کہو کہ
محمد (ﷺ) کے مصلے پہ کھڑا ہو جائے“۔ محبت رسول کا معیار نبی ﷺ کی اسی اطاعت
اور اتباع پر ہے نہ کہ اس کی غلط تاویلات میں؟ واقعہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر
اختلافات اور تنازعات کو اس امت نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سر ڈال
کر اس محترم ذات پر نہ صرف ظلم کیا ہے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے اجتہادات کو
اس امت نے مقام وحی پر ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ مسئلہ خواہ عورتوں کا
مسجد میں جانے کا حکم ہو یا تراویح کی رکعتوں کا یا تین طلاق کا۔ بلا شبہ
آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جہاںموافقات وحی اور محدثون ہونے کا شرف حاصل
ہے، وہیں اللہ کے نبی ﷺ کا یہ قول ” لا نبی بعدی“ سے ختم نبوت کا اعلان بھی
واضح ہے ۔
یقینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر ( رضی اللہ
عنہما) کو خاص مقام تشریعی عطا فرمایا ہے، ارشاد فرمایا: [اقتدوا بالذین
میں بعدی ابی بکر و عمر]“۔ قارئین کی علمی دلچسپی کے مد نظر مولانا محمد
صاحب جونا گڑھی کی تالیف ” ارشاد محمدی“ کے چند متعلقہ اقتباسات یہاں رقم
کر دینا ضروری ہے۔ مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:”حضور ﷺ
نے اپنے ان دونوں بزرگوں( حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما) کی اقتدا
کا حکم دیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا حدیث رسول ﷺ کسی مسئلہ میں صاف موجود
ہو یا آیت قرآنی کسی مسئلہ میں صاف موجود ہو پھر بھی اس پر عمل کر نے کے
لئے ان دونوں بزرگوں یا ان میں سے ایک کی رائے کا بھی اس کے مطابق ہونا اس
آیت و حدیث پر عمل کرنے کے لئے ضروری تھا یا نہیں ؟ اگر ضروری تھا تو کیا
کوئی مثال ایسی ملتی ہے کہ صحابہ کرام ؓ ان دونوں خلافتوں میں حدیث و قرآن
پر براہ راست عمل نہیں کرتے تھے بلکہ ہر جزئی اور کلی معاملہ میں صرف ان ہی
دونوں بزرگوں کا فرمان ہی قابل عمل سمجھا جاتا تھا؟ اور اگر یہ بات نہ تھی
تو معاملہ صاف ہے کہ جن کی اقتدا کے مامور قرن اول کے مسلمان تھے جب وہ ان
کی موجودگی میں قرآن و حدیث پر عمل کرنے میں آزاد تھے تو پھر آج کیوں
نہیں؟“(ارشاد محمدی:13)۔ مولانا محمدجوناگڑھی ؒ فرماتے ہیں:” (لوگو! بتلاؤ)
کیا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماصحابیوں میں سے نہیں ہیں؟ انکی
سنئے! جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور دوسرا کوئی شخص قول ابو بکر ؓ یا قول
عمر ؓ پیش کرتا تو سخت غضبناک ہو کر فرماتے[یوشک ان تنزل علیکم حجارة من
السماءاقول قال رسول اللہ ﷺ و تقولون قال ابو بکر و عمر] یعنی قریب ہے کہ
تم پر پتھر برسائے جائیں کہ میں تم سے حدیث رسولﷺ بیان کرتا ہوں اور تم
کہتے ہوابو بکر ؓ اور عمر ؓ نے یوں کہا“۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ مزید
دلیلیںپیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کرنے کا مسئلہ پوچھا جاتا ہے تو ، فرماتے
ہیں، جائز ہے( یعنی حج تمتع کرنا چاہئے)۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ(حضرت عبداللہ)
کے والد صاحب( حضرت عمرؓ) منع فرماتے ہیں۔ جواب دیتے ہیں: اقول ابی یتبع ام
قول رسول اللہ ﷺ ، یعنی میرے باپ کا قول مانا جائے یا خدا کے رسولﷺ کا؟“(
ارشاد محمدی: 21)۔ محترم حفیظ نعمانی جیسے صاحب علم سے جو حضرت عمر ؓ کے
قول کو ہی دین میں حجت باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، انہیںحج تمتع کے
مسئلہ میں اپناموقف واضح کرنا چاہئے کہ کیا” حج تمتع کے بارے میں بھی آپ (
محترم حفیظ نعمانی صاحب) خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق ؓ کی مناہی پر عمل
کرتے ہیں؟ حضرت عمر ؓ کا فرمان تھا کہ جنبی شخص کو اگر پانی نہ ملے تو وہ
تیمم کر کے نماز نہیں پڑھ سکتا گو مہینہ گزر جائے، لیکن نہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کی جماعت نے اسے مانا، نہ بعد والوں نے، نہ آج والوں نے“۔(ارشاد
محمدی: 19)۔ مولانا محمد صاحب جونا گڑھی ؒ ، حضرت عمرؓ کی ایسے کئی
اجتہادات کا اور بھی ذکر کرتے ہیں جسے امت نہیں مانتی، مثلاً عورت کو اس کے
خاوند کی دیت میں ورثہ ملنے کا۔ مجوسیوں سے جزیہ لینے کا۔ حائضہ عورت سے
طواف وداع کے ساقط ہو جانے کا ۔نبیوں کے ناموں پرنام رکھنے کو آپ رضی اللہ
عنہ جائز نہیں مانتے تھے۔ حضور ﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں کے مہر سے زیادہ مہر
کے آپ قائل نہ تھے۔ دادا کا اور کلالہ کا مسئلہ ۔ سود کی بعض صورتیں آپ کے
علم نہ تھیں۔قربانی کر چکنے کے بعد طواف افاضہ سے پہلے خوشبولگانے پر آپ کو
اعتراض تھا۔ آپ پر یہ بھی شرعی حکم پوشیدہ تھا کہ جس جگہ طاعون ہو وہاں نہ
جانا چاہئے اور جس جگہ ہوں اور طاعون آجائے تو وہاں سے بھاگنا نہ چاہئے۔
تین مرتبہ کی اجازت طلبی کے بعد واپس نہ چلے جانا چاہئے ، یہ فتویٰ حضرت
عمر ؓ کا تھا حالانکہ حدیث رسول ﷺ میں واپسی صاف موجود ہے۔ |