سفر معراج حبیب کبریاء(صلی اللہ علیہ وسلم) اور جدید سائنس
(Tanveer Awan, Islamabad)
سفر معراج تاریخ انسانی میں محیر العقول
وغیر معمولی واقعہ ہے ،جس نے چودہ سو سال پہلے انسانی فکر ونظر کو نیا رخ
دیا ،"اس جہاں سے آگے جہاں اور بھی ہیں "کے نظریے کی بنیاد ڈالی، آج کی
سائنس مشاہدے کے بعد کائنات کے رازوں کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہی ہے اس سے
زیادہ مصدقہ اور معجز اخبار پیغمبر اسلام ﷺ نے وحی اور علم کی بنیاد پر
انسان کو اس دور میں بتا چکے تھے جب اسلام ایک اجنبی مذہب اور اسلامی
تعلیمات و نظریات جیسے توحید و رسالت ،قرآن ووحی، اسراء ومعراج اور براق ،
برزخ وقیامت، حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت دوزخ وغیرہ تو یہ سب باتیں
ناقابل فہم، ناقابل یقین اوربعید از ممکنات تھیں۔
نبوت کے دسویں سال 27رجب کو معراج کا واقعہ پیش آیا ،ارشاد باری تعالیٰ ہے
کہ " پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
سفر کرایا ، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی آیات
دکھائیں ،بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے"۔(بنی اسرائیل۔۱)یہ
سفر" اسراء "اور" معراج"دو حصوں پر مشتمل ہے ، مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ
تک کا سفر اسراء اور مسجد اقصی ٰ سے عرش تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں،یہ
سفر براق نامی جنتی سواری پر کیا گیا ،جس کا ہر قدم حد نگاہ تک ہوتا
تھا۔بیت المقدس میں پہنچ کر انبیاء کو نماز پڑھائی۔ جب آسمانوں کی طرف سفر
شروع کیا تو پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے ،دوسرے پر حضرت عیسیٰؑ اور حضرت
یحییٰ ؑ سے،تیسرے پر حضرت یوسف ؑ سے ،چوتھے پر حضرت ادریس ؑ سے ،پانچویں پر
حضرت ہارون ؑ ،چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ
سے ملاقات کی،سدرۃ المنتہیٰ،بیت المعمور ،جنت میں داخل ہوناو دوزخ کو
دیکھنا،عرش عظیم تک جانا ،دیدار باری سے مشرف ہونااور نمازوں کا تحفہ اور
موسیٰ ؑ سے آپ کی بار بار ملاقات اور نمازوں کی تعداد میں کمی کروانا ،یہ
سب امور اسی سفر معراج میں پیش آئے ،جب آپ واپس آئے توبستر بھی گرم تھا ،دروازے
کی کنڈی بھی ہل رہی تھی اور وضو کا پانی بھی چل رہا تھا۔
سیدالانبیاء محبوب خدا ﷺ نے صبح تمام لوگوں کے سامنے رات کو پیش آنے والے
اس واقعہ کو سنایا توکفار یہ سن کر ہنسنے لگے، تمسخر اڑانے لگے ،انہیں
مسلمانوں کو تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وہ آپ کے پیچھے پیچھے
آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو(نعوذ باللہ) حضرت محمدبہک گئے ہیں، ابوجہل
نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا ،کیا تم نے سنا کہ تمہارا دوست کیا کہہ رہا ہے
؟کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک رات میں اتنے
لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے؟۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو
جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، آپؓ نے فرمایا
کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں
کیونکہ حضرت نبی اکرمﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس
آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی
لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرمﷺ نے آپؓ کو صدیق کا لقب
عطا فرمایا۔
جب ہم ان تمام امور کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان نے
کئی صدیاں بعد بجلی (برق)ایجاد کی ،جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل
فی سیکنڈ ہے ،اس مشاہدے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں خالق ارض و سماوات کی
تخلیق کردہ براق کی رفتار و سرعت کتنی ہو گی،وہ رفتار قرآن حکیم نے امر کی
بتائی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات سے گزر جاتی ہے، "اور ہمارا حکم
ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"(القمر:50)
انٹرنیٹ ،موبائل وآئی فون کے ذریعے دنیا کے کسی علاقے کا باشندہ ہزاروں میل
دور بسنے والے کسی دوسرے انسان سے نہ صرف بات کر سکتا ہے بلکہ اسے دیکھ بھی
سکتا ہے ۔ سٹیلائیٹ کے ذریعے دوسرے براعظموں میں ہونے والی تمام مصروفیات
اور پروگرامز کو دیکھ سکتا ہے ،ٹیکنالوجی کی تیز ترین اور نت نئی صورتیں
سامنے آنے کے بعد ،وسائل نقل وحمل کی جدید ترین سہولتیوں کے وجود میں آنے
سے انسانی ذہن یہ تسلیم کرنے میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا کہ مخلوق کی عقل و
خرد سے یہ کرشمے معرض وجود میں آسکتے ہیں ،تو خالق کائنات اوروہ ذات جو
علیم وقدیر ہے ،اس کی قدرت سے ہر چیز ممکن ہے۔معراج کا سفر نبی کریم کی
نبوت کی حقانیت پر واضح دلیل ہے۔ |
|