بہار و خزاں کے کتنے موسم آئے اور گزر گئے۔
زندگی کی ہما ہمی میں انسان بہت سے اہم واقعات اور حادثات بھول جاتا ہے ۔۳۲برس
گزر گئے لیکن اس کا چہرہ نظروں کے سامنے رہتا ہے ۔ اس کی باتیں اور یادیں
صبح بہاراں کے پھولوں جیسی تازہ رہتی ہیں ۔
وہ راجوری میں سید غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا تھا۔
اس کے لہجے کی تلخی عروج پر تھی ۔ ایک مدت بعد آج ٹیلی فون پر اس سے بات
ہوئی تو اس کا اس قدر لہجہ بدلا ہوا تھا۔ وہ پاکستان کے حالات سے اس قدر
نالاں اور مایوس ہو چکا تھا کہ کوئی بات سننا بھی اسے گوارا نہیں تھی ۔اس
نے کہا’’اب ہم سب کو گریٹر کشمیر کی بات کرنی چاہیے ۔ پاکستان کے حکمران
اپنی حفاظت نہیں کر سکے تو کشمیریوں کی حفاظت کیسے کریں گے؟اﷲ اب ہم سے یہ
نہیں پوچھے گا کہ کشمیریوں کو پاکستان کا حصہ کیوں نہیں بنایا۔بلوچوں اور
پشتونوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے ۔ کشمیریوں سے اس سے بد تر سلوک کیاگیا ہے
۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور کسی بات کا جواب سننے کو تیار نہیں تھا۔ کسی زمانے
میں ہم اسے عزیمت ‘ استقامت کا استعارہ کہتے تھے ۔ آج وہ جو کہہ رہا تھا
کان سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اتنا بزدل ہو جائے گا ہم نے کبھی سوچا نہیں
تھا۔پاکستان کے موجودہ حالات سے تنگ امیر محمد کہہ رہا تھا ہم اب پہاڑوں سے
جھپیاں کس لیے ڈالیں ‘ جب کوئی ہمارے حقوق کی بات نہ کر سکے ‘ کرے تو ڈر سے
کانپ اٹھے؟ ہمیں کیا ضرورت ہے اذیتیں اورظلم سہنے کی ۔ جس پاکستان کے لیے
ہم کٹ مرے اس کے حکمرانوں کو ہماری پرواہ تک نہیں۔اب تو ہندوؤں کے طعنے
سنتے سنتے ہم تھک چکے ہیں ۔
جون ۱۹۸۴ء کے تپتے ایام تھے۔ ملک پر مارشل لاء کا راج تھا۔ افغانستان میں
خون آشام روسی جارحیت عروج پر تھی اور یہ خطہ آج کی طرح آگ کے شعلوں میں جل
بھن رہا تھا۔ امیر محمد مقبوضہ کشمیر کے شہر راجوری سے ہجرت کے لیے نکلا
اور وادی بناہ کے اس پار سے سیز فائرلائن عبور کر کے آزاد کشمیر آ گیا ۔جس
روز امیر محمد سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔اس وقت اسے مقبوضہ کشمیر سے آزاد
خطے میں آئے ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت گیا تھا۔اس پورے ایک مہینے میں
وہ یہاں’’ جاسوسی ‘‘ کے جرم کی سزا پا تا رہا تھا۔
آزاد کشمیر پولیس کے جانبازوں نے اس کے جسم کے انگ انگ پر ضربیں لگائیں ۔
خوب درگت بنانے اور قید رکھنے کے بعد کچھ لے دے کر اسے رہا کر دیا ۔ چند
ٹکوں نے اسے بھارتی ایجنٹ سے پاکستانی ایجنٹ بنا دیا تھا۔ امیر محمد کے دل
میں آزادی کی تڑپ تھی ۔ اس زمانے میں جب وہ ندوۃ العلما میں پڑھتا تھا
‘اپنے دل میں عزم کر لیا تھا کہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی وہ دارالکفر سے ہجرت
کر جائے گا ۔جس روز وہ راجوری سے نکلا اس کے عزیز و اقارب اس کے راستے میں
دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ۔راستے کی صعوبتیں ‘ موت کا خوف ‘ آزاد کشمیرمیں
گرفتاری اور اس طرح کے دوسرے خدشات بتا کر امیر محمد کو روکنے کی کوشش کی
گئی ۔ لیکن اس نے دارلکفر سے ہجرت کرنے کو ایمان کا تقاضا قراردیتے ہوئے
اپنی بیوی کے ہمراہ خونی لکیر عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ جب وہ
آزاد کشمیر آیا تو یہاں اس کی توقع کے بر خلاف دارو رسن کے ساتھ ساتھ اذیت
بھی منتظر تھی ۔امیر محمد تب ایک نوجوان تھا ۔ تشدد سے اس کا سارا جسم نیلا
پڑ چکا تھا۔لیکن وہ اس کی پرواہ کیے بغیر اس بات پر حیران تھا کہ دارالسلام
میں رشوت بھی لی جاتی ہے ۔ امیر محمد سے ہماری دوستی ہو گئی ۔ مقبوضہ کشمیر
کے حالات وہ اس طرح بیان کرتا کہ آنکھوں میں لہو اتر آتا سینوں میں آگ لگ
جاتی ۔ اس نے وادی بناہ کی بیشتر مساجد میں جمعے کے خطبے دیے اور اپنے دل
کا درد آزاد خطے کے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔اس کا کہنا تھا کہ آزاد
کشمیر کے لوگ جب تک خطے کی آزادی کے لیے نہیں اٹھیں گے بھارتی ظلم بڑھتا
چلا جائے گا۔وہ انوکھی اور نئی باتیں کرتا تھا جس کا تعلق ہماری زندگی سے
نہیں تھا۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو عیاشیاں ختم کر کے
خطے کی آزادی کے لیے وسائل خرچ کرنے چاہئیں ۔ وہ لمبی لمبی کاریں ‘ بڑی بڑی
پجارو گاڑیاں اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے لش پش دیکھ کر حیران ہوتا اور
سوال کرتا تھا کہ آخر ان عیاش اور دنیا کی دوڑ میں غرق حکمرانوں کا جدوجہد
آزادی سے کیا تعلق ہے ؟ وہ سوچتا تھا کشمیر کا مستقبل پاکستان سے وابستہ
ہوگا تو ریاست کے مسلمانوں کے حالات بدل جائیں گے۔ امیر محمد اہل پاکستان
کو جگا نے کے لیے آیا تھا۔ اس غرض کے لیے اس نے اپنی ہمت سے بڑھ کر جدوجہد
کی ۔وہ میر پور جیسے شہر میں مقیم ہوگیا جہاں مادیت کا غلبہ اور سیکولر خود
مختار کشمیر کے حامیوں کے نعرے ذرا بلند تھے۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ ان
سے الجھ بیٹھا اور جواباً تشدد کا شکار ہوا ۔ وہ کہتا تھا کہ خود مختاری
اہل کشمیر کے لیے نیا نعرہ ہے ۔ ہم تو جنم جنم سے الحاق پاکستان کے حامی
ہیں ۔اسی کے لیے جانیں بھی دیں اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔
پاکستان کی محبت اس کے رگ و ریشے میں اتری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو
پاکستان کے خلاف بات کرتے سنتا یا خود مختار کشمیر کا ذکر ہوتاتو اس کے
چہرے کا رنگ بدل جاتا ۔ طویل مارشل لاء کی ستائی پاکستانی قوم کشمیر کا ذکر
کیا کرتی اسے تو اپنے مستقبل کے لالے پڑے تھے۔ چنانچہ امیر محمد کی کوئی نہ
سنتا تھا۔ اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی رفتہ رفتہ وہ بد ظن ہونے لگا ۔
ایک شام جب منگلا جھیل کے کنارے شام کے سائے لہرانے لگے تھے وہ اداس میرے
پاس آیا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ بہت تھک چکا ہوں ۔میں نے راجوری سے یہاں آ کر غلطی کی تھی ۔‘‘ وہ کہہ
رہا تھا۔
میں نے سوچا تھا آزادخطے کے لوگوں سے نیا جذبہ لے کر جاؤں گا لیکن افسوس
میں اپنے تمام تر جذبوں کا خون کر چکا ہوں ۔
میں تو پہاڑوں سے جھپیاں ڈالتا رہا ہوں ۔ یہاں تو کسی کو ہماری آزادی کی
فکر نہیں ۔اس شام وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔ خود مختار کشمیر کے حامیوں کے
طعنے سنتے سنتے وہ زچ ہو چکا تھا۔ اس شام اس نے عجیب سوال اٹھائے تھے۔
منگلا ڈیم کی رائلٹی کہاں جاتی ہے ؟’ یہ آزاد خطے کی ترقی پر خرچ کیوں نہیں
ہوتی ۔ آزاد کشمیر کو سب سے مہنگی بجلی کیوں ملتی ہے جب کہ بجلی پیدا بھی
یہاں ہی ہوتی ہے ؟
کچھ روز گزرے تھے امیر محمد منظر سے ہٹ گیا اور کئی ماہ بعد کسی نے بتایا
کہ وہ واپس راجوری چلا گیا ہے ۔ جہاں قید و بند کی ایک نیا دور اس کا منتظر
تھا۔ اسے پاکستانی ایجنٹ ہونے کے کے جرم میں عقوبت خانے میں ڈال
دیاگیا۔آزاد خطے میں اس کے بارے میں عجیب طرح کی کہانیاں عام مشہور ہو چکی
تھیں ۔ کوئی کہتا وہ تھا ہی جاسوس ‘ کسی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی
ایجنسیوں کے لیے کام کرتا تھا ۔ جموں ‘ پونچھ ‘ راجوری اور بھارت کی مختلف
جیلوں میں زندگی کے دس برس گزارنے کے بعد وہ منظر عام پر آیا تو اسی طرح بے
تاب بے قرار اور مضطرب تھا۔ ریاست کی آزادی اور بھارتی تسلط کے خلاف اس کی
آواز پہلے سے زیادہ توانا ہو چکی تھی ۔ ظلم کے اثرات اس کی ہڈیوں کے گودے
تک پہنچ گئے تھے۔ بھارتی جبر کے ہر حربے کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔ راجوری کا ہر
پیر و جواں اس کی اس بے تاب جدوجہد کا گواہ ہے ۔ وہ مزاحمت کا استعارہ بن
گیا۔لیکن اب کے اس کا موقف بدل رہا تھا۔
آج مدتوں بعد اس سے بات کر کے کرب کے پہاڑ اٹھا لیے تھے۔ اس کا موقف بدل
رہا تھا ۔اس کا موقف بدل رہا تھا لیکن عزم وہی تھا۔ بھارت سے آزادی لیکن
گریٹر کشمیر کا قیام ۔ ریاست جموں وکشمیر کے باسی رفتہ رفتہ مایوس ہوتے جار
ہے ہیں ۔ امیر محمد جیسے استقامت کے پہاڑوں میں اگر دراڑ پڑے گی تو پاکستان
کا دفاعی حصار کیا رہے گا ۔
آج دل میں درد سوا ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو کون سمجھائے کون بتائے کہ
دوسروں کی جنگ لڑتے لڑتے ہم اپنی جدوجہد بھول گئے ہیں ۔ کشمیریوں کے حقوق
کی جنگ لڑتے لڑتے ہم اپنے عوام کے حقوق بھول رہے ہیں ۔ پہاڑوں سے معانقے
کرتے کرتے اپنے سینے چھلنی کر ڈالے۔آزادی آزادی پکارتے ہم غلامی کی طرف بڑھ
رہے ہیں ۔ اپنے سپاہی اور جاں نثار ختم کر رہے ہیں ۔سرحد کے اس پار بھی اور
اس جانب بھی……!! |