سفر جو برسوں سے طے تھا....
(Ashraf Iqbal Mailk, Karachi)
عرصے سے خواہش تھی کہ بچوں کے ساتھ پورے
ملک کی سیر کی جائے! پہلے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کہ وہ اپنے آپ کو
سنبھال لیں پھر مصروفیات کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ....بہر حال اس سال
بچوں سے وعدہ پورا ہوا اور ہم نے بکنگ کے ساتھ ہی چھٹی منظور کروا لی۔ساتھ
ساتھ سفر اورموسم کے لحاظ سے تیاری بھی جاری رہی کیونکہ جس دن بچوں کے
امتحان ختم ہونے تھے اس کے اگلے دن کی روانگی تھی اگرچہ خوف تھا کہ امتحان
ملتوی نہ ہوجائیں مگر ایسا ہوانہیں ا اور ہم اپنے پروگرام کے مطابق اسٹیشن
کی طرف روانہ ہوگئے۔ اللہ کا شکر کہ پڑوس س سے ہی گاڑی مل گئی اور ہم بآ
سانی ٹرین میں جا بیٹھے۔ بچوں کے دمکتے چہرے دیکھ کر خوشی محسو س ہو رہی
تھی۔تیز گام اپنے مقررہ وقت پر چل پڑی۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں کراچی کا
مضافاتی علاقہ دیکھتے رہے۔ تین گھنٹے بعد رات آٹھ بجے ہم حید رآباد کے
اسٹیشن پہنچے۔رات کا کھانا نو بجے تک کھاکر سونے کو چلے گئے۔ ٹرین مین سونے
اور کھانے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے؟ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اسٹیشن آتے
رہے اور آنکھ کھلتی رہی۔ رات گئے روہڑی پہنچے۔
صبح اٹھے تو ہم پنجاب کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔چاروں طرف ہرے بھرے کھیت
نظر ٓارہے تھے۔اکژ جگہوں پر آم کے باغات دل فریب منظر لیے ہوے تھے۔ ٹرین
تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔مختلف چھوٹے اسٹیشن آتے رہے بلآخر راونڈ اور پھر
لاہور آگیا۔لاہور اسٹیشن پر ہم نیچے اترے اور اسٹیشن گھوما۔آدھے گھنٹے بعد
ٹرین چلی۔دوپہر جب ہم لاہور سے آگے گئے تو موسم تبدیل ہوگیا ۔لالہ موسیٰ سے
کالی گھٹاؤں نے نیلے آسمان کو اپنے اندرچھپالیا۔کھاریاں اسٹیشن کے بعد شام
ہونے کے باوجوداندھیرا چھاگیا اور گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی۔کراچی
والوں کو بارشوں کی عادت نہیں اس لیے ہم پریشان ہوئے۔ پنڈی اسٹیشن جیسے
جیسے قریب آتا جا رہا تھا موسم سرد ہوتا جارہا تھا۔رات ۹بجے کے قریب ہم
اپنی منزل پر پہنچے تو برفیلی اور ہڈیوں کو سن کرنے والی ہواؤں نے ہمارا
استقبال کیا۔پنڈی اسٹیشن سے باہر آکر ایک گاڑی والے سے بات کی۔ہماری رہائش
پشاور روڈ پر واقع تھی جو کہ اسٹیشن سے کافی قریب تھی۔گاڑی والے نے ہمیں
اپنی منزل پر اتار دیا۔ہم بے حد تھکے ہوے تھے۔ گھر پہنچتے ہی کھانا کھا کر
سو گئے۔
اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہم باہر نکلے اور چہل قد می کرتے ہوئے
صدر جاپہنچے۔موسم انتہائی خوشگوار ہورہا تھا۔اگلے دن ہم اسلا م آباد کی سیر
کے لیے نکلے۔سب سے پہلے راول ڈیم گئے۔وہاں پر،آئسکریم کھائی اوربوٹنگ
کی،دور دور تک پھیلے اس ڈیم کے نیلے پانی میں بو ٹنگ کرنے میں بہت مزہ آیا۔
یہاں پر لمبے لمبے درختوں پر گلہریاں گھوم رہیں تھیں۔راول ڈیم کے بعد ہم نے
روز اینڈ جاسمین گارڈن کا رخ کیا جہاں ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔یہاں سے ہم
لوک ورثہ چلے گئے۔لوک ورثہ میں چاروں صوبوں،فاٹا اور گلگت کی ثقافت کی
بھرپور منظر کشی کی گئی تھی، ہر چیز کا اصل ہونے کا گمان ہورہا تھا۔یہاں سے
نکلنے کے بعد ہم نے مونیومنٹ کا رخ کیا۔مونیومنٹ دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہاں
سے اسلام آباد کا بھی نظارا کیا۔ جب ہم یہاں سے نکل رہے تھے تو ہلکی ہلکی
بارش شروع ہوگئی تھی۔گاڑی میں بیٹھ کر مارگلہ ہلز کا رخ کیا۔دامنِ کو ہ تک
پہنچتے پہنچتے بارش میں تیزی آگئی لیکن پوری طرح انجوائے کیا یہاں تھوڑی
دیر کے لیے ٹھہرے اس کے بعد فیصل مسجد گئے اس کے بعد ہمیں دعوت پر جانا تھا
لہذا ہم نے defence-phase#1کا رخ کیا۔تھوڑی تگ ودو کے بعد ہمیں گھر مل
گیا۔انتہائی خوش اخلاق اور مہمان نواز لوگ،کھانے کے بعد ہم نے واپسی کی
اجازت مانگی۔گھر واپس پہنچ کر اگلے دن کا پروگرام طے کیا اور نرم گرم
بستروں میں گھس کر سو گئے۔
جمعرات کو ہمارا مری،ایوبیہ جانے کا ارادہ تھا۔اس دن بھی بہت بارش ہو رہی
تھی موسم انتہائی خوشگوار اور سہانا تھا۔گاڑی اپنے وقت پر آپہنچی اور ہم
کھانے پینے کا سامان اور متوقع موسم کے لحاظ سے ضروری اشیاء لے کر گاڑی میں
جابیٹھے اور مری کی طرف سفر شروع کر دیا۔ گاڑی اونچائی کی طرف جانے لگی تو
مختلف موسم نظر آتے رہے۔ بارش، بادلوں کے ساتھ ساتھ دھند اور بالآ خر برف
باری ہونے لگی۔ بہت ہی مزہ آ رہا تھا۔ ہم نے برف میں کھڑے ہوکر تصاویر
بنوائیں۔ اس کے بعد ایک ہوٹل میں بیٹھ کر گرما گرم چائے کسی بڑی نعمت سے کم
نہیں لگ رہی تھی۔ ہوٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ اس دفعہ موسم کی برف باری
ہوئی نہیں اور آج بے موسم کی اچانک ہوئی ہے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ
اس نے ہمیں یہ منظر دکھائے۔ چائے پی ہم سب تازہ دم ہو چلے تھے۔ جب کافی دیر
گزر گئی تو واپسی کا فیصلہ کیا کہ برف باری بڑھ رہی تھی اور درجہ حرارت
منفی آٹھ ہوچکا تھا۔ راستے بند ہونے کے خوف سے ہم واپس ہوچلے۔ اب نیچے کی
طرف سفر تھا۔ خوفناک بل کھاتی سڑکیں اب نیچے کی طرف جارہی تھیں۔ برف سے
پگھلتا پانی آبشار کی شکل میں اوپر سے گرتا انتہائی دلفریب نظارہ تھا۔جگہ
جگہ رک کر ہم لطف اندوز ہوئے۔ایک جگہ رک کر انجن کو آرام کی غرض سے گاڑی
روکی تو ہم نے بھی کھانے پینے سے انصاف کیا۔پہاڑوں سے اترے تو شام ڈھل چکی
تھی۔ہم سب تھک کے چور تھے لہذا جلد ہی سوگئے۔ اگلے دن جمعہ تھا اور میں
اپنے بیٹے کے ساتھ بذریعہ میٹرو بس فیصل مسجد جمعہ پڑھنے گیا۔ شام تک پھر
بادل آچکے تھے۔
ہفتہ ویک اینڈ تھا لہذا ہمارے میز بانوں نے بڑی پکنک کا انتظا م کیا تھا۔
سب سے پہلے تو ہم ٹیکسلا میوزیم گئے وہاں کھدائی کے دوران نکلے چار ہزار
سال پرانے نوادرات دیکھے۔ کافی معلومات حاصل ہوئیں تھا۔ اس سے ملحقہ گارڈن
میں کچھ وقت گزارا۔ بہت ہی خوبصورت نظارے تھے۔ جنہیں دیکھ کر ہماری زبان سے
سبحان اللہ نکل رہا تھا۔تھوڑی دور پر سر کپ کے دریافت شدہ تین ہزار سال
پرانے شہر وں کو دیکھ کر عبرت ہورہی تھی۔ اگلی منزل ہماری خان پور ڈیم تھی۔
راستے میں ہری پور سے گزرے یعنی ہم اب صوبہ خیبر میں داخل ہو چکے تھے۔ ڈیم
کا راستہ خاصہ دشوار اور کچھ کچھ پر اسرار لگا۔ پگڈنڈیاں کافی تھیں۔ بالآخر
ہم ڈیم کے کنارے جا پہنچے۔ یہ ایک بہترین منظر تھا۔نیلے آسمانوں میں سفید
چمکتے بادل! پہاڑ کے دامن میں خوبصورت تفریح گاہ میں ہم سب نے بہت عمدہ وقت
گزارا۔ وہاں ہم نے زبر دست لنچ کیا۔ دل اپنے میزبانوں کو دعائیں دے رہا تھا
جنہوں نے اتنی اچھی تفریح کروائی۔ بچے جھولے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہم نے
ہوٹل سے چائے بنواکر پی۔ پہاڑ کی چوٹی پر بنا گندھارا ہوٹل ایک ایک اچھی
سیاحتی جگہ ہے۔یہاں رہائش کا بہت عمدہ انتظام نظر آیا۔
چائے پی کر ہم نے بوٹنگ کا ارادہ کیا۔ ہم سب کو بچوں سمیت لائف جیکٹ
پہنوائی گئی۔بوٹنگ میں بہت مزہ آیا۔ کشتی سے اترے تو سورج ڈھل رہا تھا۔
پانی میں ڈوبتے سورج کا عکس دیکھ کر دل اللہ کی تخلیق دیکھ کر اش اش کر رہا
تھا۔ رات کو واپسی کا سفر تھا۔ مالٹے خرید کر کھائے اور گھر بھی لائے۔تھک
کر سوگئے۔
اگلے دو دن ہم نے پنڈی اسلام آباد کی مزید سیر کی۔ایوب پارک کاکچھ ہی حصہ
دیکھ پائے کیونکہ یہ ایک وسیع و عریض پارک ہے۔ میٹرو بس کے ذریعے اسلام
آباد دیکھا۔ کچھ شاپنگ کی اور اب ہم لاہور کی طرف جانے کو تیار تھے۔ |
|