یہ طریقے پرانے ہیں !
(Falah Uddin Falahi, India)
گزشتہ روز جس طرح سے دہلی سمیت ملک بھر سے
۴۹مسلم نوجوانوں کو آئی ایس اور جیش کے نام پر اٹھایا گیا ہے یہ طریقہ بہت
پرانا ہے ۔سابقہ کانگریس حکومت نے ہی اس کی بنیاد ڈالی تھی ۔جب حکومت کی
ناکامی کے چرچے عام ہونے لگتے ہیں تو حکومت نرم چارے کے طور پر مسلم
نوجوانوں کا شکار کرتی ہے ۔اور پھر ملک کا میڈیا ان کی تمام ناکامیوں کو
بلائے طاق رکھ کر ٹی وی پر اس کو اس طرح چلاتے ہیں گویا یہ سب حکومت کی
پالیسی کے مطابق طے شدہ امر ہیں ۔کانگریس کے دور میں جب ملک میں پے در پے
کئی دھماکے ہوئے اور آر آر پاٹل کپڑے بدل بدل کر ٹی وی پر بیان بازی دینے
لگے تو میڈیا نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے کپڑے پر ہی تنقید شروع ہو گئی
جس کا بدلہ انہوں نے دو معصوم مسلم نوجوانوں کوشکار بنا کر کیا ۔یہ سب کس
طرح ہوا سب عوام کے سامنے ہے ۔اس کے پیچھے کتنے مقاصد تھے وہ بھی عوام کو
پتہ ہے ۔لیکن اس واقعہ کے بعد محترم وزیر کو راحت ضرور ملی ۔جب مسلمانوں نے
اس کی جانچ کی بات کی تو کہا گیا کہ پولیس کا مورل ڈاؤن ہوگا اس لئے اس کی
تفتیش نہیں کرائی جا سکتی ہے ۔اس واقعہ میں سنیئر پولیس افسر کی بھی موت
ہوئی جسے مڈ بھیڑ کا نام دیا گیا اورآناً فاناً میں سنیئر پولیس افسر
کوشہید بتا کر قصہ تمام کیا گیا ۔اس طرح یہ طریقہ سیاسی پارٹیوں کا بہت
پرانا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اب کوئی بتائے کہ جو لوگ سیکولر سیکولر
کے نعرے لگا کر دیگر پارٹیوں میں شامل ہیں اور انہیں ووٹ دینے کی وکالت
کرتے ہیں وہ سب ایسے مواقعے پر کہاں غائب ہو جاتے ہیں ۔مسلم چہرہ جو سیاسی
پارٹیوں میں شامل ہیں وہ ان سب کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے ہیں ؟کیا اسی
دن کیلئے مسلم امیدوار کو ووٹ دیکر پارلیمنٹ یا اسمبلی مسلمان بھیجتے ہیں
۔وہ مسلمانوں کے حق میں تو خاموش رہتے ہیں لیکن پارٹی کیلئے وہ اپنا سب کچھ
قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ٹھیک اسی طرح ’’بیگانے کی شادی میں عبداﷲ
دیوانہ ‘‘۔شرم آتی ہے ان کی بے شرمی پر ابھی تک کسی نے بھی اس کے خلاف آواز
نہیں اٹھائی کیونکہ وہ سب بے ضمیر ہیں جنہیں قوم کا سودا کرنے کے لئے ہی
پارٹی میں جگہ دی جاتی ہے۔ ابھی این ڈی اے سرکار جس طرح ناکامی سے دوچار ہے
اور اسے جس طرح چوطرفہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے حکومت کی ساکھ
خراب ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی بھی بدنام ہو رہی ہے اور ان کے لیڈران کے جو
کرتوت اور بیان بازی ہیں ،اس پر حکومت کی خاموشی اور سرد مہری نے پوری دنیا
میں این ڈی اے حکومت کو بدنام کر دیا ہے ابھی ابھی دنیا کی مذہبی امور کی
ایجنسی نے رپورٹ جاری کر کے حکومت کی ناکامی کو پیش کیا تھا ٹھیک اس کے ایک
دن بعد ہی حکومت نے دھڑ ا دھڑ ملک بھر سے تقریباً ۴۹ مسلم نوجوانوں کو
اٹھانے کا کام کر کے اپنی ناکامی اور بدنامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے
۔آخر میں میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں اگر عزت کی زندگی
گزارنی ہے تو تمام سیاسی پارٹیوں سے توبہ کریں اور اپنے دینی شعور رکھنے
والے لیڈر کو آگے کر کے اپنی سیاسی طاقت کو مجتمع کریں اسی میں مسلمانوں کی
بھلائی ہے ۔یہ نہ سوچیں کہ ووٹ تقسیم ہوگا بلکہ اگر مسلمان متحد ہو کر کسی
بھی علاقے میں اپنی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے تووہ کامیاب ضرور ہونگے اور
نہ بھی ہونگے تو کیا ہوا کم از کم یہ دن تو نہیں دیکھنے پڑیں گے کہ ہمارے
مسلم ممبر پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی ہونے کے باوجود ہماری کوئی وقعت نہیں
ہے ۔اب تک سیاسی پارٹیوں کے پیچھے پیچھے چلنے میں مسلمانوں کو کیا ملا ؟آگ
،خون ،مذہبی منافرت ،عزتوں کی پامالی ،وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد ،بے
روزگاری ،تعصب ،تعلیمی اداروں سے دستبرداری کی کوشش،مسجدوں کی مسماری
،سرکاری نوکریوں سے نکارہ کشی ،دو نمبر شہری بن کر جینے کی مجبوری ،اعلی
عہدے پر فائز مسلم افسران کو سازش کے تحت ٹھکانے لگانے کا عمل ،جانوروں کی
بیوپاری کرنے والے مسلم کو سولی ،بقرہ عید کے موقعے پر فریج کی تلاشی اور
جنون سے شرابور بھیڑ کے ہاتھوں معصوم کاپیٹ پیٹ کر قتل ،دنیا کی تنظیموں کا
نام بتا بتا کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ،محبت وطن ثابت کرنے کیلئے جبراً
شرکیہ کلمے کی ورد کو لازمی قراردینااور نہ ادا کرنے پر سرعام ذدوکوب کرنا
،تعلیمی اداروں میں سوریہ نمسکارکو لازمی قرار دینا، مسلمانوں کے لاکھوں
سروں کوکاٹنے والے کے ساتھ مسلمان کے چہیتے لیڈر کی یاری ،کسی بھی سرکاری
عمارت کے افتتاح کے موقع پر ناریل توڑنا کیا یہ سب سیکولراز کی نشانی
ہے؟کیا یہ سب ملک عزیز میں نہیں ہورہا ہے ۔کب تک آخر کب ظلم کی چکی میں
پیستے رہیں گے آزادی کے ۶۸سال ہو چکے ہیں اور اب تک مسلمانوں کو عزت نہیں
ملی آزادی تو دور کی بات ہے ۔اپنی عزت اور سربلندی چاہئے تو اپنے ووٹ کا
استعمال اپنی سیاسی پارٹی بناکر کسواہا ،مانجھی ،رام ولاس پاسوان ،لالو
،نتیش ،ملائم اور مایاوتی کی طرح سیاسی پارٹی چاہئے اور اگر ہے تو اس پر
مکمل اعتماد اور بھروسہ چاہئے بس یہی ایک راستہ ہے جس کے بل بوتے پر ہم
اپنا حق لے سکتے ،نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ظلم کی چادر اس قدر دراز ہو
جائے کہ ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم کر دئے جائیں ۔خدارا ابھی موقع ہے
نہیں تو پھر ملک شام کو دیکھ لیں جہاں ۴۰ سالوں سے سرکاری دہشت گردی جاری
ہے اور حکومت وقت آبادی کے آبادی پر بم برسا رہا ہے دنیا خاموش تماشا بنی
ہوئی ہے ۔ |
|