آج اسے گھر پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ آج
اسکے اکلوتے بیٹے ہادی کی سالگرہ تھی۔ صبح آفس جاتے ہوئے علیشہ نے اسے جلدی
گھر واپسی کا کہا تھا۔ اس نے جلدی سے آفس کا کام نمٹایا، سیکٹری کو ضروری
ہدایات دیتا باہر نکل آیا۔ راستے سے ہادی کے لیے کچھ کھلونے اور علیشہ کے
لیے گجرے خریدے۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کی تو خیال آیا کہ ماں جی نے صبح کہا
تھا؛ 'بیٹا میری دوائیاں ختم ہو گئی ہیں واپسی پر لیتے آنا'. لیکن وہ بیٹے
کے جنم دن کی خوشی میں ماں کی یہ 'فرمائش' بھول گیا تھا۔ لاؤنج میں ہادی
کھیل رہا تھا. بیٹے کو گود میں اٹھائے، اس سے خوش گپیاں کرتے وہ اپنے کمرے
میں چلا گیا۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،
'علیشہ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم عمرہ کرنے چلتے ہیں'. فیضان نے چائے کا گھونٹ
بھر کے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا. 'ماں جی کی دیکھ بھال کے لیے زینب (کام
والی) ہے. ویسے بھی وہی سنبھالتی ہے انکو'
'بہت ہی خوب سوچا ہے آپ نے. ہمیں اللہ کا گھر دیکھنے کی سعادت نصیب ہوجائے
گی. اس سے بڑی کیا خوش نصیبی ہے۔' علیشہ خوش ہوتے ہوئے بولی.
'ٹھیک ہے پھر تم تیاری شروع کرو۔ ان شاءاللہ بہت جلد ہم یہ سعادت حاصل
کرلیں گے'
ماں جی کی صحت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی۔انکا کمرہ گھر سے الگ تھلگ سا تھا۔
زینب ہی انکو سنبھالتی، صبح شام انکی دیکھ بھال کرتی ۔ پر ماں جی منتوں
مرادوں سے مانگے اپنے اکلوتے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترس گئی تھیں۔ فیضان دن
کو آفس اور رات کو بیوی بچے میں اتنا مصروف رہتا کہ بوڑھی ماں کے لیے وقت
نکالنا اسے مشکل لگتا تھا۔ ،،،،،،،،،
ماں جی کو زینب کے حوالے کر کے وہ تینوں عمرہ کرنے چلے گئے. عمرہ کی سعادت
حاصل کر کے واپس آئے تو بیٹے کی ایک جھلک کو ترسنے والی ماں تنہائی کے
زنداں سے تنگ آکر اس فانی دنیا سے منہ موڑ چکی تھی۔۔ ،،،،، ۔۔ (عمرہ کی
سعادت حاصل کر لی پر ماں کی خدمت کی سعادت سے محروم ہو گئے).
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نمازیں ، روزہ ، قرآن وغیرہ جیسے حقوق
اللہ کی پابندی تو کرتے ہیں، حج و عمرہ بھی کر لیتے ہیں، لیکن حقوق العباد
کو پورا نہیں کر پاتے۔ والدین کی قدر و خدمت نہیں کرتے۔ جبکہ اسلام نے
بندوں کے حقوق کی پاسداری کا بھی حکم دیا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایسے انسان کے لیے بدعا فرمائی ہے جس نے اپنی زندگی میں والدین میں سے
کسی ایک کو بھی بڑھاپے کی حالت میں پایا اور اپنے لیے جنت نہ بنا سکا۔
از قلم عائشہ ایمان جڑانوالہ |