سوچ‎

باجی .......
پکار پر اس نے یکدم ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو دس گیارہ سالہ بچی میلے کچیلے حلیے میں کھڑی نظر آئ .
مریم اور ندا بازار میں شاپنگ کی غرض سے آئ تھیں اور اب تھک ہار کر واپسی کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ گھر جاکر کھانا پکانے کی ہمت نہیں لہذا بچوں کے لیئے ان کی من پسند دکان سے شوارما لے جائیں....خود تو دوران شاپنگ ہی جوس پی لیا تھا اور پسندیدہ دہی بھلے بھی کھائے جنہیں کھائے بغیر بازار سے نکلنا محال تھا.....
اس خیال کے نتیجے میں اب وہ دکان سے شوارما لے کر نکل ہی رہی تھیں کہ اس بچی کی آواز پر رک گئیں...
ندا نے پرس سے چند سکے نکال کر اس کی پھیلی ہتھیلی پر رکھ دیئے اور چل دی...
بچی کے چہرے پر مایوسی پھیل گئ ، اس نے مریم کی جانب دیکھا .
مریم نے پرس میں جھانکا تو اسے سو پچاس کے نوٹ ہی دکھائ دئیے، اس نے پچاس کا نوٹ نکال کر اسے تھما دیا...
بچی کی خوشی دیدنی تھی ، اسکو خوش دیکھ کر مریم کو لگا کہ اس کا رب بھی اس کے ساتھ مسکرایا ہے ، اس کے اندر اطمینان اور سکون بھر گیا.
وہ جلدی سے آگے بڑھی اور ندا کے ہم قدم ہو کر چلنے لگی.
ندا جو اس کاروائ کو ملاحظہ کرچکی تھی ، کہنے لگی ...
مریم ! ان لوگوں کو اتنا سر مت چڑھایا کرو.کہہ دیتی کہ کھلے پیسے نہیں ہیں .میں نے جو دے دیے تھے تو وہی کافی تھے ....
ندا ! ایسے موقعے پر میرے ذہن میں ہمیشہ سے یہی سوچ آتی ہے کہ دو روپے یا پانچ روپے کے سکے کے بدلے آخر کیا خریدا جا سکتا ہے ؟؟؟
مگر میرا دل مجھے کبھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا ، جب ہم اپنے تفریحی کھانے پر کئ سو روپے بلا جھجھک خرچ کرلیتے ہیں تو ان مستحقین کو کم از کم اتنا تو دے دیں کہ وہ کسی نہ کسی درجے میں اپنا پیٹ بھر سکیں ....
ان بچوں کو دیکھ کر میری نگاہوں کے سامنے اپنے بچوں کی صورتیں آجاتی ہیں ....

مریم کا پر سوز لہجہ ندا کے دل کو بھی گداز کر گیا تھا !

بنت میر
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 20431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.