اسلام کی دعوۃ توحید یا کے خلافت کا قیام - 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم قارئین ہم، ان شاء اللہ، ایک بہت اہم نقطہ کو دلائل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے اور وہ ہے کیا اسلام کی دعوۃ توحید ہے یا کے خلافت کا قیام اور اسکی کوشش؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خلافت اللہ کی توفیق سے قائم ہوتی ہے. لیکن کبھی بھی خلافت کو خاص طور پر قائم کرنے کی دعوۃ نہیں دی جاتی. ہمارا کام یہ نہیں کہ خلافت قائم کریں بلکہ ہمارا کام دعوۃ دین، اصلاح اسی طرح توحید کی تفصیلا دعوۃ اسی طرح شرک سے برآءۃ کی تفصیلا سمجھ اور دعوۃ ہے جب ہم یہ عمل متواتر کریں گے تو جب اللہ چاہیے گا خلافۃ قائم کرنے کی توفیق ہوجاۓ گی.

اگر ایک شخص خاص خلافت قائم کرنے کی کوشش کرے اور اسکے لیے محنت کرے تو اس میں بہت سے مفاسد شامل ہوجاتے ہیں. ہمارا کام اقتدار قائم کرنا نہیں بلکہ اسکے لیے دعوۃ وتبلیع کی راہ ہموار کرنا ہے. جیسے کہ انبیاء کا منہج وطریقہ تھا. انبیاء نے یہ نہیں کہا کے اقتدار حاصل کیا جاۓ تاکہ وہ اپنی بات منوا سکیں بلکہ توحید کی دعوۃ کو عام کیا اور شرک سے برآءۃ کو عام کیا. جب یہ دعوۃ عام ہوگی لوگ اسکو سمجھیں گے تو اللہ خلافت کے اسباب بنا دے گا.

توحید میں اثبات اور نفی ہے یعنی اثبات ہے کہ عبادت اللہ کی ہے اور نفی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں. اثبات ہے کہ دعا اللہ سے مانگو. نفی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے دعا نہیں مانگو. اثبات ہے کہ رب اللہ ہے اور نفی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئ رب نہیں، اثبات ہے کہ اللہ کو اسکے ناموں اور صفاۃ سے پہچانو اور نفی ہے کہ یہ نام اور صفاۃ اللہ کے علاوہ کسی اور کے نہیں وغیرہ. گویا ساری توحید کو ہمیشہ اثبات اور نفی پر سمجھا جاتا ہے. ہمارا کام اس توحید کی دعوۃ کی خدمت کرنا اور اسکو نشر واشاعت کرنا اور اس پر خود بھی اصول کے مطابق عمل کرنا اور اسکو اصول کے مطابق پھیلانا ہے. اب ان شاء اللہ ہم اس بات کو قرآن والسنۃ سے ثابت کریں گے.

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
وما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون

ترجمہ و مفہوم: اور نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر محض اسلیے کہ وہ میری عبادت کریں
(سورۃ الذاریات سورۃ نمبر:51 آیت: 56)

دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:
ولقد بعثنا فی کل أمة رسولا أن اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت فمنهم من هدي الله ومنهم من حقت عليه الضلالة

ترجمہ و مفہوم:
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اسکے سوا تمام معبودوں سے بچو پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالی نے ھدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئ.
(سورۃ نحل آیت: 36)

اسی طرح اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا:
"و ما أرسلنا من قبلك من رسول إلا نوحي إليه أنه لا إله إلا أنا فاعبدون."

ترجمه و مفہوم: تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائ کہ میرے سوا کوئ معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو
(سورۃ الانبیاء: 21 آیت: 25

اسی طرح اللہ نے فرمایا:
لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ و مفہوم: ہم نے نوح (علیہ السلام) کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اسکے سوا کوئ تمھارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے
(سورۃ الاعراف 7 آیت: 59)

اگرچہ یہ قول تو سیدنا نوح سے منسلک ہے مگر یہ ہی وہ دعوۃ ہے جو امۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فرض ہے یعنی توحید کی دعوۃ اور شرک سے برآءت کی دعوۃ.

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
إِنَّهُ مَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّ‌مَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ‌ ۖ

ترجمہ و مفہوم: بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کر چکا ہے، اور اسکا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئ مددگار نہیں
(سورۃ المائدۃ: 5 آیت: 72)

ان آیات سے جو کچھ ہمیں سمجھ آیا وہ یہ ہے اسلام کی اصل دعوۃ توحید عبادت ہے جس کے لیے جن و انس کو اللہ عزوجل نے پیدا فرمایا نہ کے خلافت کا قیام.

اور اسی طرح توحید کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شرک اکبر و اصغر ہے جسکو تفصیلا ہم نے پہلے سمجھا، والحمد للہ.

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=72616
(شرک اکبر)

اور اسی لیے ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے توحید کی دعوۃ اسکے لیے محنت اور نشرو اشاعت اور شرک سے برآءت اور شرک اکبرواصغر کی پہچان اور اسکی مستقل اور ہر قصبہ اور کریہ اور شہر اور ہر فورم اور مجلس میں مستقل امن سے دعوۃ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جہالت اور گمراہی کے دور میں کم وبیش تیرا سال مستقل ایسا کیا.

اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں بڑے پیارے انداز میں فرمایا:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌

ترجمہ و مفہوم:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں انکے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں.."
(سورۃ الحج آیت: 41)

اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ جو لوگ خلافت قائم کریں تو پھر وہ ان صفات سے مزین ہوں گے بلکہ یہ کہا کہ اللہ جب انکو تمکن عطاء فرماۓ

اور اللہ کن لوگوں کو تمکن، حکومت یا خلافت عطاء فرماتا ہے؟ اس نقطہ کو اللہ نے سورۃ نور آیت: 55 میں ایک وعدہ کے ساتھ بتایا:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا

ترجمہ و مفہوم:
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
‏سورۃ النور سورۃ نمبر: 24 آیت: 55))

اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ انکی صفات یہ ہے کہ وہ ایمان (صحیح عقیدہ) اور نیک اعمال کی دعوت کے ساتھ ساتھ جو اہم شرط بتائ وہ یہ ہے:
يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا

‏ ترجمہ:
وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے

کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کی دعوت اور شرک سے براءت کی دعوت کرتے ہیں اور جب یہ نیک اعمال کسی قوم میں پھیل جاتے ہیں تو جوابا اللہ خوف کو امن سے اور شرعی خلافت کا قیام عمل میں لے آتا ہے

کوئ یہ بھی کہ سکتا ہے کہ قرآنی آیات سے ماخوذ یہ فہم میرا ذاتی ہے. جس کا جواب یہ ہے کوئ بھی معتبر قرآن کی تفسیر کو اٹھا کر دیکھ لیں اس سے مختلف فہم نہ پائیں گے. مثلا تفاسیر کی ماں یعنی حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جس کو تفسیر ابن کثیر بھی کہتے ہیں سورۃ نور آیت 55 کی تفسیر جلد: 3 صفحہ: 639 سے صفحہ: 642، طبع مترجم مکتبہ اسلامیہ میں اس سے منسلک تفصیل موجود ہے

تفسیر ابن کثیر میں صحابہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کے دور کے وسیع ہونے کا ذکر مذکور ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ خلافت کا اصل قیام اور گمراہی کا دور ہونا صرف دعوۃ توحید اور شرک کی پہچان اور اس سے برآءت کی دعوۃ سے ہی ممکن ہوا. اسی طرح اس آیت کی ضمن میں دوسری تفسیر، حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر احسان البیان جو ایک ہی جلد میں ہے اسکا صفحہ: 585، طبع دارالسلام پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے

کلمہ توحید کی اہمیت پر ایک روایت:

ایک دفعہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے. اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من أحد یشھد أن لا إله الله وأن محمدا رسول اللہ، صدقا من قلبه إلا حرمه الله علی النار

مفہوم: جو کوئ بھی سچے دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے تو اللہ اس پر (جہنم کی) آگ حرام کر دیتا ہے
(صحیح بخاری،رقم: 128)

یاد رہے کے اس روایت کے آخری حصہ میں سیدنا معاذ نے یہ خوشخبری عام کرنے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ نے فرمایا، مفہوم: "تو وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے." اسی لیے سیدنا معاذ نے یہ خبر وفات کے وقت دی. معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ کو صدق دل سے ادا کرنے کے بعد اس پر عمل بھی ہے. افسوس ہے کئ لوگ عمل پر یقین نہیں رکھتے جبکہ اس کلمہ کے تقاضوں پر عمل اس کلمہ کا ایک جز ہے. اسی طرح شرک سے براءت بھی اسکا جز ہے

خلافت کی دعوۃ کے مقابلہ میں توحید کی دعوۃ کی اہمیت اس صحیح روایت سے سمجھتے ہیں:

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ حَدَّثَهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهْوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ ‏"‏ مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ، إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ ‏"‏ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ ‏"‏ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ ‏"‏ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هَذَا عِنْدَ الْمَوْتِ أَوْ قَبْلَهُ، إِذَا تَابَ وَنَدِمَ وَقَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ غُفِرَ لَهُ‏.‏

ترجمہ و مفہوم:
ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو جسم مبارک پر سفید کپڑاتھا اور آپ سورہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ نے فرمایا جس بندہ نے بھی کلمہ لا الہٰ الا اللہ ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا ۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو ، چاہے اس نے چوری کی ہو ، آپ نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو ۔ میں نے ( حیرت کی وجہ سے پھر ) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہوچا ہے اس نے چوری کی ہو ۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے علی الرغم ( وان رغم انف ابی ذر ) ضرور بیان کرتے ۔ ابوعبداللہ حضرت امام بخاری نے کہا یہ صورت کہ ( صرف کلمہ سے جنت میں داخل ہو گا ) یہ اس وقت ہو گی جب موت کے وقت یا اس سے پہلے ( گناہوں سے ) توبہ کی اور کہا کہ لا الہٰ الا اللہ ، اس کی مغفرت ہو جائے گی ۔
(حوالہ: صحیح بخاری رقم: 5827)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ لا الہ الا اللہ کی صدق دل سے دعوۃ، اس کلمۃ پر موت اور اسپر عمل انسان کے جنت میں جانے کا باعث بنے گا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو دعوۃ کے لیے یمن بھجوایا تو آپ سے فرمایا:
إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى فَإِذَا عَرَفُوا ذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ

ترجمہ و مفہوم: سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوۃ دینا جب وہ قبول کرلیں تو پھر انکو بتانا کہ اللہ نے پانچ وقت نماز فرض کی ہے.."
(صحیح بخاری، رقم: 7372)

یاد رہے میری معلومات کے مطابق یمن وہ علاقہ تھا جس نے دعوۃ سے اسلام قبول کرلیا اور ان سے نبی کریم کو جہاد و قتال نہیں کرنا پڑا، واللہ اعلم

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ‌ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَ‌ادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَ‌دَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ

ترجمہ و مفہوم:
بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنے آپ کو/اپنے نفس کو نہ بدلے. اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرتا ہے تو وہ بدلہ نہیں کرتا اور سواۓ اسکے کوئ بھی انکا کارساز نہیں
(سورة الرعد سورة نمبر: 13 أيت: 11)

یعنی معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توحید کی دعوۃ بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ایک شخص شرک وکفر پر ہے اور کلمہ توحید کو نہیں جانتا یا پھر کلمہ گو مشرک ہے تو ہر وقت خلافت کی کوشش کرنا، مگر باطل عقائد مثلا وحدت الوجود، وحدت الشھود وغیرہ پر رہنا گویا یہ کوشش و عمل اسکے لیے کوئ فائدہ مند نہ ہوگا چاہے وہ خلافت کے لیے تو کوشش کرتا رہا، معصیت کے خلاف بھی بولتا رہا یا پھر سود کے خلاف بھی مہم چلاتا رہا مگر توحید اور اسکی اقسام کی پہچان نہ کی اور شرک سے براءت نہ کی اور اسی پر مر گیا تو نا کام ہو گیا اور اوپر آیت کے مطابق نہ ہی اللہ ایسی قوم کی حالت بدلتا ہے

اللہ نے فرعونیوں کے حال، انکے کفر و معصیت کا ذکر کیا اور انکو انکے گناہوں میں پکڑ لیا. اسکے بعد اللہ تعالی نے فرمایا:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرً‌ا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ

ترجمہ و مفہوم:
اللہ تعالی ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئ نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ انکی اپنی تھی
(سورۃ الانفال 8 آیت:53)

یعنی کوئ قوم خود ہی توحید سے دور، شرک وکفر اور گناہوں میں ہو یا چلی جاۓ تو اللہ ایسا نہیں کہ اچھائ سے برائ کی طرف اسکو پھیر دے، بلکہ یہ تو انکو اپنا عمل تھا جس کی انہیں سزا ملی.

اللہ نے سورۃ الجاثیہ میں فرمایا کہ بعض لوگ جو برے کام کریں اور بعض جو اچھے کام کریں کیا یہ دونوں اور انکی زندگی اور موت یکساں ہوگی؟ اسکے بعد آسمانوں اور زمین کی خلقت کو عدل سے تعمیر کا ذکر کیا اور یہ کے کسی پر ظلم نہ کیا جاۓ گا یہ ذکر کرنے کے بعد ایک بہت اہم نقطہ اہم ارشاد فرمایا.

اسکے بعد اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
أَفَرَ‌أَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِ‌هِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّـهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ

ترجمہ و مفہوم: کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ہے؟ جس نے خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے (کیونکہ وہ اس گمراہی کا حق دار تھا) اور اسکے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے
(سورۃ الجاثیہ 45 آیت: 23)

محترم قارئین، اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو مسئلہ بھی قرآن والسنۃ سے لو اسکا فہم اپنی سوچ سے نہ رکھو بلکہ یہ دیکھو کہ کیا یہ فہم صحابہ کرام سے صحیح یا حسن اسناد سے ثابت ہے کہ نہیں؟ ورنہ تم صرف خواہش نفس کی پیروی کرو گے اور گمراہ ہوجاؤ گے. اور تمہاری اس گمراہی کی وجہ سے اللہ تمہیں اسی حال پر چھوڑ دے گا اور تمہارے دل و دماغ پر مہر لگا دے گا اور تمھاری آنکھوں پر بھی پردہ ڈال دے گا پھر تمہیں حق باطل اور باطل حق نظر آۓ گا، ولعیاذ بللہ.

اللہ تعالی نے دوسری جگہ سورۃ الغاشیہ میں سعاۃ یعنی قیامت کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ﴿٢﴾ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ﴿٣﴾ تَصْلَىٰ نَارً‌ا حَامِيَةً ﴿٤﴾

ترجمہ و،مفہوم: اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہوں گے. اور کئ لوگ محنت کر کر کے تھک چکے ہوں گے. اور وہ دہکتی ہوئ آگ میں ڈال دیے جائیں گے
(سورۃ الغاشیہ 88 آیت: 2 تا 4)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس سے مراد نصرانی (عیسائ) ہیں دیکھیں صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تحت سورۃ ھل اتاک.

اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ اور سدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے
(تفسیر ابن کثیر، مترجم اردو جلد: 5 صفحہ: 554 مکتبہ اسلامیہ)


اس آیت کا مطلب اگر عام مراد لیں تو اس میں مسلمان بھی شریک ہیں. مثلا فسق وفجور کی راہ اپنا، مبتدعین و اہل بدعۃ کا طریقہ اختیار کرنا. دین پر بغیر تحقیق کے عمل کرنا، تنظیم پرستی وغیرہ.

دوسری جگہ اللہ کریم نے کفار اور جہنم کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِ‌ينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾

ترجمہ و مفہوم: پوچھ لے کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال کے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں
(سورۃ کہف آیت: 103، 104)

عَنْ مُصْعَبٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبِي ‏{‏قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً‏}‏ هُمُ الْحَرُورِيَّةُ قَالَ لاَ، هُمُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى.."

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے انکے صاحبزادے مصعب رحمہ اللہ نے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا، یہود و نصاری.."
(بخاری رقم: 4728)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں
(الطبری 18 صفحہ 127)

مطلب یہ کہ کیونکہ یہ آیت عام ہے اسلیے یہود و نصاری و خوارج کے علاوہ اگر کوئ شخص اپنی طرف سے عبادات و اطاعت اپنی ذاتی فہم پر کرے اور یہ کہے کہ، مثلا: وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بھتا بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجروثواب ضرور ملے گا لیکن اسکا یہ گمان غلط ہے اسکے اعمال مقبول نہیں بلکہ مرود ہیں.

اور وہ غلط گمان شخص ہے. یہ آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکہ میں یہود و نصاری مخاطب نہ تھے اور خارجیوں کا تو اس وقت وجود بھی نہ تھا. پس ان بزرگوں (صحابہ) کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں
(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 345، 346 مترجم اردو،طبع مکتبہ اسلامیہ)

گویا اس وعید میں وہ بھی شامل ہے جو قرآن والسنۃ کو بغیر دلیل کے اپنی ذاتی سوچ کے مطابق غلط سمجھے.

محترم قارئین اب تک جو چیز ہم نے قرآن کی آیات واحادیث سے ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلام کی اصل دعوۃ توحید اور اسکی سمجھ ہے اور شرک سے برآءت ہے. اس ضمن میں قرآن کی آیت کی تفاسیر اور چند جید اور کبار علماء کا اس پر فہم بھی پیش کیا گیا. اسلیے مجھے اور آپ کو چائیے کہ ایک عام مسلمان کی حیثیت سے اس فہم کو مجالس، ای میل اور اس ایم اس وغیرہ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور علماء کو چائیے کہ مدارس و مساجد سے پھیلائیں تاکہ ہم میں دین کی اصل کا شعور پیدا ہو.

محترم قارئین یاد رہے کہ توحید عبادت کی یہ دعوۃ اور شرک سے براءت اور دوری اختیار کرنے کی یہ دعوۃ دونوں یعنی عوام الناس اور خواص اور حکام سب کے لیے ہیں اسلیے بجاۓ فضول مجالس میں بیٹھنے کے اور گمراہی پھیلانے کے اور حکام کے خلاف اپنا اور دوسروں کے ذہن کو پراگندہ کرنے اور غیبتیں کرنے کے ہمیں چاہیے کہ اس دعوۃ کو عوام اور خواص اور حکام سب تک دلائل کے ساتھ کھول کھول کر اور بار بار پہنچائیں.

کیونکہ تیرا سال تک متواتر اس دعوۃ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مسلسل عوام و خواص تک پہنچاتے رہے. کوئ شخص یہ بھی کہ سکتا ہے کہ پاکستان کو بنے سڑسٹھ سال ہونے کو ہیں مگر اسلام کا نفاذ نہیں ہوا ہر طرح کی کوشش کی گئ مگر بے سود، اس لیے ہمیں پاکستان کی ایسی بے دین حکومت کو بزور طاقت ہی ہٹھانا پڑے گا، اور شریعت کا نفاذ کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ اللہ کا دین ہے اور اسکا نفاذ ضروری ہے! اس اشکال پر ہمارا جواب:

اس اشکال پر ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ قول اور فہم باطل ہے. کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق کسی نے بھی پاکستان بننے سے آج تک مستقلا دعوۃ توحید کو عام کرنے، شرک سے برآءت، صحیح عقیدہ و ایمان کی ترویج اور نیک اعمال کی مستقل دعوت کو اپنا طریقہ نہیں بنایا. اسکے مقابلے میں کسی نے چھ نمبر کی دعوۃ دی، کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر درود پڑھنے اور انگھوٹے چومنے کو اپنا دین بنا لیا. اسی طرح کسی کی دعوۃ و دین قبروں سے توسل اور غیر اللہ کی نیاز ہے اور دن رات وہ اسکی دعوۃ دیتے نظر آتے ہیں. ایک اور فرقہ کے جس کا دین بارہ اماموں کے پیچھے قائم ہے اور انکا دین صرف اہل بیت کی پیروی کا نام ہے. بعض لوگوں نے اپنے دین کو تنظیم پرستی اور بعض نے دن رات جہادو قتال کی دعوۃ کو اپنا دین بنا لیا. جبکہ شائد انکو خود جہاد الطلب اور جہاد الدفع انکی شرائط وضوابط اور اصول کا پتا نہ ہو.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 411964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.