مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا
کیجئے کچھ علاج کانٹوں کا
اک طرف مملکت ہے پھولوں کی
اک طرف سامراج کانٹوں کا
اپنی سچائی کی گواہی دی
پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا
اب تو کانٹے بھی کہتے ہیں مضطر
کیجئے کچھ علاج کانٹوں کا
اگر ہمارے گھر کے باغیچہ میں باغبان پھولوں کی بجائے کانٹوں کا بیج ڈال دے
تو ہمارا باغیچہ پھولوں کی خوشبو بجائے کانٹوں سے بھر جائے گا اور ہمارے
جسم اور دامن کو تار تار کرنے لگے گا تو ہم اپنے جسم کو بچانے کے لئے ان
کانٹوں کو اوپر سے کاٹ دیتے ہیں چند دن بعد پھر یہ کانٹے ہمارے دامن کو تار
تار کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ ہم انہیں کاٹتے ہیں اور یہ پھر تیار
ہوجاتے ہیں یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اگر ہم نے اپنے جسم اور اپنے دامن
کو تار تار ہونے سے بچانا ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ ان کانٹوں کو جڑ سے
اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جائے۔
پاکستانی معاشرہ بھی آج کل ایسے ہی باغیچہ کی مثال ہے جس کے باغبانوں نے
ماضی میں خود اس باغیچہ میں انتہا پسندی اور تنگ نظری کے بیج بو دئے تھے
اور آج ان کی فصل تیار ہو چکی ہے جس کہ وجہ سے ہمارے معاشرے میں رہنے والا
کوئی بھی فرد ان کانٹوں سے محفوظ نہیں اس نفرت و انتہا پسندی کے کانٹوں کو
جتنا بھی کاٹیں ہم اس کو چند دن کے لئے تو ختم کر سکتے ہیں مگر اس سے ہمیشہ
کے لئے جان چھڑا نہیں سکتے اور یہ کانٹوں پھری فصل ہمارے جسم و جان کی اس
وقت تک دشمن بنی رہے گی جبتک کہ ہم ان کانٹوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر نا پھنیک
دیں۔
تنگ نظری اور انتہا پسندی‘‘ کے کانٹوں بھرے پودوں کی شاخوں پر کبھی نفرت کے
کبھی کفر اور کبھی قتل کے فتووں کے کانٹے لگتے ہیں ۔
اسی تنگ نظری اور انتہا پسندی کی وجہ سے،عاشورہ کا جلوس شیعہ کمیونٹی کا ،
کوئٹہ کے گلی محلے ہزارہ برادری کا ،صفورہ چورنگی اسماعیلی کمیونٹی کا،
لاہور کا ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو احمدیہ کمیونٹی کا ، اور پشاور کا گرجا
گھر عیسائیوں کا مقتل بن جاتا ہے ۔
یہی تنگ نظری اور انتہا پسندی کی آگ کبھی شانتی نگر ،یوحناآباد کو جلا کر
راکھ کر دیتی ہے اور کبھی اس کی آگ میں ہم گوجرہ کے عیسائیوں کوجلتا ہوا
دیکھتے ہیں۔کبھی جہلم کی چپ بورڈ فیکٹری کو جلتا ہوا دیکھتے ہیں۔
جس معاشرہ میں یہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کا پودہ اگ جاتا ہے اس میں ہم
اس کی تباہ کاریاں دیکھتے ہیں اگر یہ تنگ نظری کے کانٹے ماضی میں یونان میں
اگا تو اس میں سقراط جیسے عظیم فلاسفر کو ذہر کا پیالا پینے پر مجبور کردیا
اور اگر یورپ میں اگا تو برونو جیسے سائنسدان کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر
زندہ جلا دیا گیا اور گلے لیو جیسے سائنسدان کو اپنی بقیہ زندگی نابینا کے
طور پر گزارنی پڑ ی اور اگر ماضی میں مسلم معاشرے میں اگا تو ابن رشد کو
مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا اور ہر آنے جانے والا اس کے منہ پر
تھوکتا اور ابن سینا جیسے عظیم سائنسدان کو جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنے
پر مجبور کر دیا گیا اور جب یہ تنگ نظری اورانتہا پسندی کے کانٹے پاکستان
کے معاشرے میں اگے تو عالمی عدالت کے چیف جسٹس چوہدری ظفر اﷲ خان جیسی عظیم
شخصیت کو وزارت خارجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیاگیااور کبھی نوبل
انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام کو جلا وطنی پر مجبور کردیتا ہے ۔
اسی تنگ نظری اور انتہا پسندی کی وجہ سے سلمان تاثیر اپنے محافظوں کی ہی
گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے اور ڈاکٹر جاوید احمد غامدی جیسے عالم دین اور
دانشور اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑ
جاتی ہے کبھی ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر فاروق خان جیسے صاحبان علم کو ہلاک
کردیا جاتا ہے۔اور کبھی زہرہ آپا ،داکٹر صبین محمود اور اب خرم ذکی جیسے
سماجی کارکنوں اور معاشرے میں وسعت نظری پیدا کرنے والوں کو ہلاک کردیا
جاتا ہے ۔
اب یہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کی فصل پک چکی ہے اگر ہم نے اس کو اکھاڑ کر
اپنے باغیچہ سے الگ نہ کیا تو اس کے بیج مزید کانٹے دار جھاڑیاں اگائیں گے
جس کی وجہ سے اس باغیچہ جس کو پاکستان کہتے ہیں جس کو ہم سبھی نے قربانیاں
دے کر حاصل کیا ہے اس میں پھولوں کی کوئی جگہ نہ رہے گی کیونکہ ہمارے پھول
جیسے لوگوں کو تو یہ کانٹے گھیرے ہوئے ہیں اور ان پھولوں کی زندگی خطرات
میں ہے اسی لئے تو پاکستانی معاشرہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکمرانوں کے
سامنے یہ دہائی دینے پر مجبور ہیں کہ
’’کیجئے کچھ علاج کانٹوں کا‘‘- |