خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے!!
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
مدارس کے طلبہ کلرک بھی نہیں لگ سکتے،مدرسے
کی تعلیم قومی دھارے میں روزگارکی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتی،ملاکی دوڑ
مسجد تک،یہ ملاتوبسم اﷲ کے گنبد میں بند ہوتے ہیں،انھیں حاضر وموجود کی
کوئی خبر نہیں ہوتی،یہ توبس حاضر وناظر کی لایعنی بحثوں میں لگے رہتے
ہیں،یہ معاشرے پر ایک ناروابوجھ ہیں،انھیں تعلیم کے دوران دس بارہ سال
پالنے والے والدین ان کی فراغت کے بعد ان سے توقع کرتے ہیں کہ یہ ہمارے
بڑھاپے کا سہارابنیں گے،نازنخروں سے لائی گئی دلہن امید کرتی ہے کہ میری
خواہشات کے تاج محل کی تعمیر کاوقت آگیا،دوست احباب توقع کرتے ہیں کہ مولوی
صاحب اب تک تواپنے حصول تعلیم کے جھمیلوں میں مصروف تھے،اب ہماری خوشی غمی
میں شریک ہوں گے،برادری والے توقعات وابستہ کرتے ہیں کہ اب ان کو وقت دیں
گے،دوست احباب جوپہلے توطالب علم سمجھ کر کبھی چائے کھانے کاتقاضانہیں کرتے
تھے،اب اس فضول خرچی کابھی تقاضاکرنے لگتے ہیں۔
مدرسے کافاضل ان تمام باتوں کاتذکرہ اپنے ان مشفق اساتذہ سے کرتاہے جنھوں
نے اسے یہ درس دیاکہ مریں گے ان کتابوں میں،ورق ہوگاکفن اپنا تووہ اسے
ترغیب کالالی پاپ دینے لگتے ہیں،نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجاہدے بھری
زندگی دہراتے ہیں،صحابہ کرام ؓ کی کس مپرسی کے واقعات دہراتے ہیں،وہ کہتاہے
محترم!یہ کسی تعلی ہے جس نے مجھے بارہ سال لگانے کے بعد بھی والدین کے
بڑھاہے کا سہارابننے کے قابل نہیں بنایا،میری شادی تومیرے گھر والوں نے
مجھے طالب علم سمجھ کر جیسے تیسے کردی،مگریہ کیسی تعلیم ہے کہ میں اپنی
بیوی کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتا،کیایہ دینی غیرت کے تقاضوں کے خلاف
نہیں کہ میں اس کے لیے بھی دست سوال دراز کروں؟یہ بارہ سال لگانے کے باوجود
میں اتنابھی معاشی اسٹرکچربنانے کااہل نہیں ہواکہ برادری کی تقریبات میں
حصہ لے سکوں،خوشی غمی میں شرکت کرسکوں،کہ وہاں بابھی پیسے کی ضرورت پڑتی
ہے،یہ کیسی تعلیم ہے جومجھے اپنے بچوں اور والدین کی ضروریات کا بھی کفیل
نہ بناسکی،تواسے سوائے ترغیبوں کے کچھ نہیں ملتا۔کیایہ واقعات،یہ ترغیبیں ،یہ
نصائح اس کے دردکادرماں بن سکتی ہیں؟نہیں اور ہرگز نہیں۔
کیایہ المیہ نہیں ہے؟آپ نے بارہ سال لگانے اور دن رات ایک کرنے کے نتیجے
میں اس وارث علم نبوت کواس قابل بھی نہ سمجھاکہ ایک عام مزدور جتناہی
مشاہرہ اس کامقرر کرتے،آپ نے اسے مسجد ومنبر کااہل بنایا،لیکن ائمہ وخطباء
کی جوتنخواہیں ہیں،ان پر ایک لطیفہ یادآیا،لگے ہاتھوں آپ بھی سن
لیجیےبادشاہ کے لیے ایک ہاتھی خریداگیا،بادشاہ نے کہا جواس ہاتھی کو رلائے
گا،اسے انعام واکرام سے نوازا جائے گا،ایک سے ایک مسخرے،اداکار،فن کار،مزاح
کے ماہرین آئے،مگرکوئی ہاتھی کو ہنسانے میں کام یاب نہ ہوسکا۔آخر میں ایک
مولوی صاحب اٹھے جوایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے،وہ ہاتھی کے قریب گئے،اس کے
کان میں کچھ کہاتوہاتھی زاروقطار رونے لگ گیا۔مجمع حیرت سے بت بنامولوی
صاحب کودیکھ رہاتھا۔بادشاہ نے انھیں قریب بلاکر پوچھا:ہم آپ کی کرامت کے
قائل ہوگئے،ذرااس عقدے سے پردہ اٹھائیے کہ آپ نے کیا منترپڑھاتھا۔مولوی
صاحب گویاہوئے:منترونترمیں کیا جانوں،میں نے تو اس کے کانوں میں اپنی
تنخواہ بتائی تھی،جسے سن کر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور اس نے آنسوؤں
کے دریابہادیے۔
اب اگر آپ کاطالب علم ادھر ادھرتاک جھانک رہاہے،کوئی کورس کررہاہے،کوئی
عصری تعلیم حاصل کررہاہے،کہیں تعلقات استوارکررہاہے،کسی باطل کے لیے
استعمال ہورہاہے،کسی کے راتب پر کام کرنے کے لیے صف بندی کررہاہے،تومعذرت
کے ساتھ،اس کے سوااس کے پاس اور چارہ ہی کیاہے؟
وفاق ہائے مدارس اس زاویے سے آخر کب غور کریں گے؟اس کاکب حل نکالیں گے،پلوں
کے نیچے سے کافی ساراپانی نکل چکاہے،انتظارکس بات کاہے؟آپ کے نصاب پر
اعتراض کرنے والوں پر چارحرف،لیکن اس مسئلے کاحل نکالناکس کی ذمے داری
ہے؟لدگئے وہ دور جب گھر کاہر فردولی اﷲ ہواکرتاتھا،فاقوں پرگھر کے بچے
خوشیاں منایاکرتے تھے،خواتین خانہ جھوٹے موٹے پر خوش رہاکرتی تھیں،بیماریاں
کم اوران کے علاج سستے تھے۔اب دنیاکے اطوربدل چکے ہیں۔معاف کیجیے!پیٹ
کافتنہ کہ کرآنکھیں چرانے کاوقت گزرچکا،پیٹ کے مسئلے کو حل نہ کیاگیاتوفتنے
ٹوٹی مالاکی طرح یوں ہجوم کریں گے کہ سنبھالنامشکل ہوجائے گا۔اﷲ کے لیے،اس
مسئلے کاحل نکالیے۔مہنگائی کی برق رفتاری کودیکھیے اور مشاہروں کااس سے
موازنہ کیجیے۔دردکادرماں لازمی ہے۔آپ نہ کریں گے توکوئی اور کرے گا۔
خوگرحمد سے تھوڑاساگلہ بھی سن لے |
|