مذہبی منافرت میں سوشل میڈیا کا کردار

کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کی تذلیل یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کیلئے اظہار رائے کی آزادی کا نام دے ۔پاکستان میں فرقہ واریت کا عفریت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ دہشت گردی میں معصوم بے گناہوں کی جانوں کے نذرانے بھی کسی سے پنہاں نہیں ہیں ، کراچی میں جتنے بے گناہ انسان لسانیت کے نام پر شہید کئے گئے اس کی بھی کوئی حد نہیں ہے ۔ ہم اگر خیبر پختونخوا میں دیکھیں تو جس طریقے سے وہاں انسانیت کا قتل عام ہوا ، گلے کاٹے گئے ، سوات کی سڑکوں کو خون سے دھویا گیا ۔ اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ، پاکستان میں جتنے بم دہماکے ، خود کش بم دہماکے اور معصوم بچوں کے اسکولوں اور بچیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنا کر صدیوں کی تاریخ رکھنے والی قوم کو جاہل بنانے کی کوشش و سازش کی گئی اس سے بھی کوئی اپنی نگاہ جھکا نہیں سکتا ، ان کا مسلک کیا تھا اس پر کیا کبھی کسی نے بات کی۔یہ طے ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی سیاست عروج پر ہے اس لئے بہت سنبھل کر اور نپے تلے انداز میں الفاظوں کا چناؤ کرنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا نے انسانیت کی جو درگت بنائی ہے اور یرا غیرا کے سیاسی و مذہبی معاملات میں ہر ایک مفکر اور دانش ور بننے سے معاشرے میں بے چینی و عدم برداشت کو بڑھاوا دیا ہے یہ بات تو طے شدہ ہے کہ فرقہ واریت کے نام پر جہاں پڑوسی ممالک نے اپنے ایجنٹوں کو کراچی سمیت پورے پاکستان میں جال پھیلایا ہوا ہے تو انھیں سیاسی چھتری مہیا کرنے کیلئے مذہب و سیاست کا سہارا بھی دیا ہوا ہے۔میں اس بات پریقین رکھتا ہوں کہ کسی انسان کو کسی دوسرے کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ، نا ی قانون اجازت دیتا ہے ، نہ اخلاقیات اور نہ ہی کوئی مذہب۔پاکستان پچھلے15برس سے دہشت گردی کی لیپٹ میں ہے ،کیا شیعہ کیا سنی ، کیا بریلوی ، کیا دیو بندی سب ہی اس دہشت گردی کی آگے میں جل رہے ہیں ۔اگر دہشت گردی میں مسالک اور فقہی عقائد کا میزان کرنے بیٹھ جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں صرف حنفی مسلک کے دیو بند اور پختون قوم کی نسل کشی ہو رہی ہے ۔ لیکن ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے ، بلکہ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ کیا را تنظیم کے ایجنٹوں نے یہ اقرار نہیں کیا کہ محرم الحرام کے جلوس جامع کلاتھ میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کیلئے کیا سازش رچائی گئی تھی ۔کراچی کے علاقے نمائش میں واقع ایک مذہبی تنظیم کے سربراہ علامہ عباس کیملی کے دروازے پر صبح سے شام تک کون سی لسانی جماعت روزحاضری لگاتی تھی کہ صرف ایک بیان دے دیں کہ ہماری جماعت اس سانحے میں ملوث نہیں ہے۔ نمائش کراچی کے علاقے میں واقع شاہ خراسان میں رہنے والے مذہبی شیعہ اسکالر نے انھیں جامع کلاتھ کے بم دہماکے سے آج تک بری الزما قرار نہیں دیا۔ اور اب تو اس سانحے کے کئی ایجنٹ گرفتار ہوچکے ہیں ، کہ انھیں فرقہ واریت پھیلانے کا ٹاسک دیا جاتا تھا ، کیا علما دیو بند ، کے جید علماؤں کی شہادتوں میں بھی اسی لسانی تنظیم کے کارکنان ملوث نہیں تھے ۔ تو کیا سنی کی نسل کشی کیا شیعہ کی نسل کشی ، دراصل ایجنڈا کچھ اور ہے ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم سے سچ نہیں بولا جاتا ۔ ہم سچ بولنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ریاست ہمیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ الیکٹرانک میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے کہ وہ اپنے ٹکرز اور نیوز کو کس انداز میں عوام کے سامنے لاتا ہے ۔ انوسٹی گیشن رپورٹنگ کا تو تصور ہی ناپید ہوچکا ہے اگر کوئی کرتا بھی ہے تو اس کے ساتھ جو حشر ہوتا ہے اس سے بھی کوئی نا واقف نہیں ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی 60ہزار افراد شکار ہوئے ہیں۔مدارس کے طلبہ اوراساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ آن ریکارڈ ہے۔ہم کسی ایک فرد کے قتل کو پوری نسل کا قتل قرار نہیں دے سکتے لیکن لاکھوں افراد کے قتل کو نسل کشی کا نام دیا جا سکتا ہے جیسے افغانستان ، عراق ، شام ، لبنان ، روہنگیا ، افریقہ سمیت مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔کراچی میں فرقہ وارنہ دہشت گردی کا واقعہ ہونے کے بعد اسے کسی کے سر ڈالنا بہت آسان نظر آتا ہے ۔ لیکن یہاں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان میں ممتاز قادری نے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر گورنر پنجاب کا قتل کردیا ۔ ممتاز قادری کی پھانسی پر کون سی مسلک کی مذہبی جماعت سراپا احتجاج نہیں تھی ، ممتاز قادری مسلک کے حساب سے اہلسنت بریلوی کا مسلک کے تھے۔ لیکن ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ہر مذہبی جماعت نے اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے ممتاز قادری سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ۔ جنازے کومیڈیا نے بلیک آؤٹ کیا۔گذشتہ دنوں نجی چینل کا سابق ملازم سماجی ویب سائٹ پر پوسٹ شیئرز کرنے کے حوالے سے متنازعہ شہرت اور مسلمانوں کے جذبات عقائد کے لحاظ سے مشتعل کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا ۔ اس کے خلاف باقاعدہ سائٹ ایریا میں نجی نیوز چینل میں اصحاب رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کئے جانے پر بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا ۔ اہل بیت کی شان میں گستاخی پر ایک معروف چینل کے خلاف سخت ترین کاروائی کی گئی اور اسے بند کردیا گیا لیکن اس اصحاب رسول ﷺ کے توہین کرنے والے کسی بھی چینل کے خلاف آج تک کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی ، احتجاجی مظاہرے پرانتظامیہ نے مظاہرین سے معافی مانگی اور مظاہرین پر امن پر منتشر ہوگئے۔ مخصوص ایجنڈے کے تحت سوشل میڈیا کے مختلف گروپوں کی طرح ایک سول سوسائٹیکے گروپ اراکین سماجی ویب سائٹوں پر پیچ بناتے ہیں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان نفرتوں کو بڑھانے کیلئے جعلی آئی ڈیز بنا کر 24گھنٹے نفرت انگیز مواد شائع کرتا رہتے ہیں۔ حال ہی میں اسی گروپ نے لاہور سانحے کے بعد ایک جعلی فتوی بنا کر پھیلایا تھا ۔مذہبی و سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا کے اہم رکن سا کو براہ راست قتل کا ٹھہرایا گیا اور دیگر مسلک کو" تکفیری دیوبندی خارجی"کے القاب دئیے گئے۔

ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے اس کی تہہ تک جانے کیلئے باشعور عوام کو خود ان کے سوشل اکاؤنٹ دیکھنے چاہیں کہ کسی دوسرے مسلک کو تکفیر و نہ جانے کن کن القابات سے یاد کیا جاتا ہے ، سائبر کرائم ایکٹ بن چکا ہے ۔ تشدد کے بجائے ایف آئی اے میں ان عناصر کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں ، ان کے سوشل اکاونٹ بند کرائیں۔ مذمت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو بھی پہلے دیکھنا چاہیے کہ ہماری مذمت فرقہ واریت کو جلا بخش رہی ہے یا پھر کسی نئے ردعمل کو ہوا دے رہی ہے ۔اگر اسی طرح سوچے سمجھے بغیر مذمت کرتے رہے تو کالعدم جماعت طالبان کی ہلاک ہونے والوں کی بھی مذمت کرنے لگ جائیں گے۔ مذہبی عدم برداشت ہمارے معاشرے کا حصہ بن گیا ہے ۔ سوشل میڈیا میں کسی مذہبی مسلک کے خلاف جو جو پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ سر مارے شرم کے جھک جاتا ہے کہ کیا اسلام کی یہی تعلیمات تھیں۔ غازی علم الدین شہید ، ممتاز قادری جیسے لوگ قانون کو کیوں ہاتھ میں لیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ قانون پر عمل درآمد نہ نہ ہونا ہے ۔ سماجی رابطوں کے سائٹس پر کتنا اور کس قدر نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے ۔ ہمارے سرکاری ادارے کیا کر رہے ہیں ، اگر ان صفحات پر صرف سوشل میڈیا میں شائع مواد کو من و عن لکھنا شروع کردیا جائے تو ایک ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جیسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔کسی انسان کی جان لینا پوری انسانیت کی جان لینے کے برابر ہے لیکن اﷲ تعالی کا یہ حکم بھی ہے کہ تم کسی غیر مسلم کے خداؤں کو بھی بُرا مت کہو ۔ ہم تو پھر بھی مسلمانی کا دعوی کرتے ہیں۔ کسی کے قتل کو قطعی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن قتل کے اسباب کیا بنے اس پر تفتیشی اداروں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔ کسی پر بھی الزام لگا دینا بہت آسان ہے لیکن ثابت کرنا مشکل ہے۔ کبھی جماعت اسلامی پر الزام لگا دیا جاتا ہے تو کبھی سوشل میڈیا میں رینجرز افسران کے ساتھ بحث کرتی تصاویر سے اداروں کے خلاف عوام میں بد گمانیاں پیدا کرنے کیلئے مخصوص ایجنڈے کے تحت سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی و سیاسی عدم برداشت کے اس ماحول میں ہمیں ایک دوسری کے مسلک ، سیاسی نظریات اور مذہب کا خیال رکھنا ہوگا ۔ اگر ہم ان باتوں کا خیال رکھے بغیر مدر پد آزاد اپنی رائے ٹھونکتے رہیں گے تو معاشرے میں عدم استحکام اور مذہبی منافرت کا یہ سلسلہ کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔سوشل میڈیا بے لگام گھوڑا ہے حکومت ، عوام اداروں اور میڈیا کو غلط و صحیح کا فیصلہ کرنا ہوگا ۔سوشل میڈیا ایک سماجی ایٹمی بم ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.