خوشی محمد کی آف شور کمپنی
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
انسان کسی محدود چیز کا نام نہیں لیکن رہنا
اسے ایک محدود دنیا مین پڑتا ہے ، یہی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ
ہمیشہ یہی شکایت کرتا سنائی دیتا ہے :ـ بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم
نکلے
خوشی محمد عرصہ دراز سے محلے بلکہ شہر بھر میں ایک تجربہ کار گور کن کے طور
پر جانا جاتا تھا۔ بہت کم ہوتا تھا کہ اس کی بنائی ہوئی قبر بھی بیٹھ جائے۔
وہ قبر کھودنے کی مہارت اپنے تجربے سے کچھ اس طرح حاصل کر چکا تھا کہ اس کو
سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور وہ ایک دم سے قبر کی جگہ اور اس کے
اندازکا تعین کر لیتا تھا۔ قبر صندوقی ہو یا کہ بغلی اس کے لئے کو ئی مسئلہ
نہ تھا۔اس کا پیشہ ہی گور کنی بن چکا تھا۔ کوئی اور کام اسے آتا بھی نہ تھا۔
وہ صرف ماہِ صیام کے دوران سحر خیزی کے لئے ڈھول بجایا کرتا تھا ، اس زمانے
میں ابھی وسل نہیں آئے تھے۔ اس سے پہلے یہ کام اس کا باپ کیا کرتا تھا۔ جب
بہت سے سال پہلے شہر میں خوفناک سیلاب آیا تھا تو اس کا باپ ساری ساری رات
ڈھول بجا کر لوگوں کو نیند کی بے ہوشی سے بچایا کرتا تھا۔ انیس سو پینسٹھ
کی جنگ میں اس کے شہید ہوجانے کے بعدیہ کام زندگی بھر کے لئے خوشی محمد نے
اپنے سر لے لیا تھا۔ اس جنگ میں خوشی محمد کی گلی میں دو گھروں پر دشمن کی
توپوں کے گولے گرے تھے۔ ویسے شہر بھر میں کئی ایک جگہوں پر ان گولوں کے
گرنے سے کئی ایک خوش نصیبوں نے جام ِ شہادت نوش کیا تھا اور اپنے خدا کے
حضور ابدی زندگی کی کامیابی سے سر فراز ہوئے تھے۔
خوشی محمد کی گلی میں جس دوسے گھر میں توپوں کے گولے گرے تھے اس گھر کے
سربراہ کا نام بھی خوشی محمد ہی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ اپنے بچوں کے
ناموں میں’ دین‘ کا لفظ اکثر استعمال کیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ناموں میں
یہ الفاظ پرانا سالگنے لگا اور پھر ایسے نام جن میں خاص طور پر ’دین‘ کا
لفظ شامل نہ ہو عام استعمال میں آگئے۔ ایسے ہی ’خوشی محمد‘ کا لفظ جو کبھی
اس معاشرے میں بہت عام تھا نا پید ہو گیا ۔ یہ خالصتاً لسانی رویہ تھا اس
کا مذہبی جذبات سے تعلق نہ تھا۔ زبان اس طرح کی تبدیلیوں سے گزرتی رہتی ہے۔
سماجیاتی لسانیات میں ایسا ہوتا ہے۔
خوشی محمد کا سارے سال میں جن دو دنوں میں ڈھول اپنے سر اور تال کے لحاظ سے
دید اور شنید لے لحاظ سے اپنے عروج پر ہوتا تھا ، وہ چاند رات اور عید
الفطر کا دن ہوتا ۔ چاند رات کا اعلان ہوتے ہی جیسے اس کا ڈھول خود ہی
دھمال ڈالنے لگتا تھا۔ خوشی محمد سر پر نیا’ پٹکا‘ باندھتا، نئے کپڑے پہنتا
اور اپنی دھن میں یوں ڈھول بجاتا چلاجاتا کہ اسے کسی کی خبر نہ ہوتی ،کہ
کون اسے پورے مہینے کی سحر خیزی کے عوض کیا دیتا ہے۔ وہ اپنے گلے میں کپڑے
کی ایک جھولی باندہ لیتا اور گلی گلی اپنے ڈھول کی تاپ پر لوگوں کے دلوں کو
گرماتا چلا جاتا۔ وہ عام شب بیداری کروانے والوں کی طرح کبھی بھی کسی کا
دروازہ نہ کھٹکھٹاتا۔ وہ بس اپنی دھن میں یوں کھو جاتا کہ کسی سامنے سے آنے
والے کو دھیان سے دیکھتا بھی نہ کہ کون آ رہا ہے اور اس کی جھولی میں کیا ڈ
ال رہا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسے لگتا کہ وہ لوگوں سے تو مانگ ہی نہیں رہا ۔ وہ
تو جیسے کسی اور ذات سے مانگ رہا ہو اور اس ذات نے اسے حکم دیا ہو کہ سارا
محلہ پھر کر آؤ میں تمھیں پھر بہت کچھ دوں گا۔ اور وہ اس ذات سے مانگے کے
لئے اس کے حکم کے مطابق محلے بھر کا چکر لگانے نکلا ہو اور پھر جا کے اس نے
اس ہستی کو اطلاع کرنی ہو کہ وہ محلے بھر کا چکر لگا آیا ہے اب اپنے پاس سے
جو دینا ہے اسے دے دیا جائے۔ اس کی یہ شانِ بے نیازی، دیکھنے والوں کو
حیرانی میں ڈالتی کہ وہ پانچ، دس ، بیس ، پچاس روپے کا تقاضا کیوں نہیں
کرتا، اس نے سارا مہینہ محنت کی ہے، ساری ساری رات جاگ کر گزاری ہے۔ اس شب
بیداری کے نتیجے میں وہ کوئی اور کام بھی پورا مہینہ نہیں کر سکا ہوتا ۔
لیکن وہ عجیب مردِ بے نیاز ہے کہ کسی کے پاس رکتا ہی نہیں ، کسی سے کچھ
مطالبہ ہی نہیں کرتا۔ اس نے اپنا ایک رویہ اختیار لیا ہواتھا اور شاید اسے
یہ رویہ وراثت میں ملا تھا یعنی کسی سے کچھ نہیں مانگنا۔ محلے کے لوگ بھی
اچھے تھے اور اپنی خوشی سے خوشی محمد کی مدد کر دیا کرتے، اگرچہ اتنی زیادہ
تو نہیں کہ اس کے شب و روز میں کوئی انقلابی تبدیلی آ جاتی بس اتنا کہ اس
کا سرکل چلتا رہے۔ اور وہ ان کی خدمت کرتا رہے۔
ان دنوں ابھی زندگی موٹر سائیکل پے نہیں بیٹھی تھی: ٹانگے تھے، سائیکل تھے
یا پیدل مارچ ہوتا تھا۔ شہر بھر میں ابھی ایک، دو کاریں جلوہ گر ہوئی تھیں۔
سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کی لا متناہی قطاریں ابھی وجود میں نہیں آئی تھیں۔
ابھی زندگی میں سکون باقی تھا اور تیز رفتاری نے ابھی ہواؤں کے پچھاڑنے کا
ارادہ نہیں کیا تھا۔ موبائل نے آنکھوں، کانوں اور دماغوں پر اپنی یلغار
نہیں کی تھی۔ ابھی کیبل کا جال نہیں بچھا تھا، ابھی نیٹ کی زندگی کی سحر
انگیز ی نے انسانوں کے لا شعور پر اپنی سامراجیت کا جھنڈا نہیں لہرایا
تھا۔ابھی ملک میں باہر کا پیسہ نہیں آیا تھا اور شاید ابھی ملک کا سرمایہ
باہر بھی نہیں گیا تھا۔ ابھی لوگ انٹرنیشنل نہیں ہوئے تھے۔ابھی زندگی مقامی
اور شخص عوامی تھا۔ ابھی شام کو چڑیاں گھروں کے آنگنوں میں لگے درختوں پر
لوٹ آتی تیں اور پھر خوب شور مچایا کرتی تھیں اور سارے دن کا حال ایک دوسری
سے یوں شئیرکرتیں تھیں جیسے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہو۔ ابھی
ہوائیں اتنی آلودہ نہیں ہوئیں تھیں ،ابھی محلوں سے باہر چاروں اطراف میں
بچوں اور نوجوانوں کے کھیلنے کے لئے کھلی جگہیں میسر تھیں، ابھی مقامی اور
سادہ کھیلیں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھیں: گلی ڈندا ، پٹھو گرم، باندر
کلا، گولہ باری، روڑا چھپانا، کمس گھوڑی، سرم سلائی، برف جام، پھڑن
پھڑائی،کُھتی رکھنا، ونج وڑیکاوغیرہ وغیرہ۔
ابھی میلوں میں روایتی انداز باقی تھا، نوجوانوں میں بے حیائی درنہیں آئی
تھی اور نہ ہی برہنگی نے نظروں میں زہر بھرا تھا۔ ابھی بناسپتی گھی لوگ
چھپا چھپا کے لاتے تھے ،گو دیسی گھی کا آخری دور چل رہا تھا۔گھروں میں
مرغیاں پالی جاتی تھیں اور دیسی انڈے کھائے جاتے تھے۔ ابھی لوگوں نے چار
پانچ سوٹوں میں شب وروز گزارنا دقیانوسی قرار نہیں دیا تھا، ابھی چالیس
پچاس سوٹوں کی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی تھی۔ ابھی استری اس طرح لازمی نہیں
ہوئی تھی جیسے آج کل گھروں میں پینٹ کروانا۔ابھی پتنگوں سے آسمان سجا کرتا
تھا لیکن کسی کی گردن نہیں کٹتی تھی۔ ابھی مکانوں کی چھتوں کی منڈیریں اتنی
چھوٹی تھیں کہ ایک دوسرے کے گھر میں نہ صرف جھانکا بلکہ جایا بھی جا سکتا
تھا اور ان کے گھر آنے والے مہمانوں کی بابت بھی بات ہو سکتی تھی۔ ابھی
کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ آپ کو اس سے کیا ، تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات
میں دخل دینے والے۔یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ابھی شخصی آ زادی کی ہوائیں
یورپ سے پاکستان نہیں پہنچی تھیں ، ابھی یورپ بہت دور تھا ۔ ابھی ترقی کی
شاہراہیں تنگ گزرگاہوں میں چھپی ہوئی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خوشی محمد کا تعلق ایک وڈیرے سے قائم ہوا اور اس وڈیرے
نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔اس وڈیرے نے خوشی محمد کے لئے ایک آف شور
کمپنی قائم کر دی لیکن اس نے ساری معلومات خوشی محمد سے شیئر نہ کیں کیوں
کہ اس بچارے کو ان باتوں کی سمجھ ہی نہ آنی تھی۔لیکن اس نے خوشی محمد کو اس
بات کا یقین دلا دیا تھا کہ اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ
اس کے لئے اتنی دولت جمع کروا دے گا کہ اس کی نسلیں فارغ بیٹھ کے بھی کھاتی
رہیں تو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اس وڈیرے پر خوشی محمد کو مکمل اعتماد تھا۔وہ
کسی اور سے کچھ مانگا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ وڈیرہ اسے کچھ رقم گاہے گاہے
بھیجتا رہتا تھا۔ اور ایک بڑی رقم اس نے خو شی محمد کی آف شور کمپنی میں
لگائی ہوئی تھی، اگرچہ یہ کمپنی کہاں اور کیسی ہے ان باتوں کا خوشی محمد کو
کوئی پتہ نہیں تھا اور نہ وہ اس کا تعین ہی کرنا چاہتا تھا۔ وڈیرہ اس کے دل
کا پہلا اور آخری سہارا تھا۔
آخر وہی ہوا جو سب کے ساتھ ہوتا ہے : آہستہ آہستہ خوشی محمد پر بڑھاپا جوان
ہوتا گیا۔ اس کی صحت کمزور سے کمز ور ہونے کے ساتھ ساتھ بیماری کا گھر بھی
بنتی گئی۔اس کی صرف ایک ہی بیٹی تھی جو اس نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی
اور اس وڈیرے کی طرف سے بھیجی گئی اعانت سے اچھے طریقے سے اپنے گھر بھیج دی
ہوئی تھی۔ اب اس کی فکریں صرف یہ تھیں کہ اس کی زندگی کا آخری مرحلہ خوش
اسلوبی سے طے ہو جائے۔
اسے طرح طرح کے خیالوں نے گھیرا ہوا تھا۔ وہ آخری رمضان میں ڈھول بھی نہیں
بجا سکا تھا۔ اسے اس بات کا اتنا صدمہ تھا کہ جیسے اس کی زندگی کا درخت کاٹ
کر گرا دیا گیا ہو۔اس سے ضبط نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کس کے آگے جا کے روئے۔
وڈیرہ تھا تو اس کا ہمدرد لیکن وہ بہت دور رہتا تھا ، ویسے بھی بڑے لوگوں
سے چھوٹی باتیں کرنا مناسب نہیں ہوتا ہے۔ وہ سنتے بھی کب ہیں؟
اس کی نظر اپنے دور کے ایک بھتیجے پر پڑی، جو چند گلیوں کے فاصلے پر رہتا
تھا۔ اس کے مالی حالات بھی تنگی کا شکار تھے۔اس کی فیملی بھی ڈنگ بڈنگی پر
گزارہ کر رہی تھی۔ وہ کچھ بیمار بھی تھا۔ لیکن ابھی جوان تھا کہ حالات سے
پنجاہ آزمائی کر سکتا تھا۔اس نے اپنے اس بھتیجے سے رمضان کی سحری میں ڈھول
بجانے کی بات کی ۔ اس نے دودن کا وقت مانگ لیا کہ سوچ کر بتائے گا۔ کیوں کہ
نیم شب کو اٹھنا آسان نہیں اور پھر دوسروں کو اٹھانا تو بہت ہی مشکل ہے۔
ویسے بھی اس وقت آدمی اکیلا ہی سنسان اور تاریک گلیوں سے گزرتا ہوا ڈرتا ہے
کہ اب لوٹ مار کی وارداتیں معاشرے میں بڑھنے لگی تھیں۔ خوشی محمد کا زمانہ
بہت پر سکون تھا۔ لیکن اب ایک ایسی نئی صبح کا آغاز ہو چکا تھاجس کا چہرہ
بہت ہی زیادہ سرخ تھا: اتنا سرخ جتنا کہ خون ، یہ صبح ہر طرفخوف و ہراس کے
سائے پھیلا رہی تھی۔
دو دن کی گہری سوچ بچار کے بعد جب خوشی محمد کے بھتیجے ، سلیم ، نے اس کی
بات کا جواب ’ہاں‘ میں دیا تو خوشی محمد کو اتنی خوشی ہوئی جیسے اسے دوبارہ
جوانی مل گئی ہو۔ اس نے ڈھول کی قیمت بھی وصول کرنے کی خواہش کا اظہار نہ
کیا ، اور خوشی، خوشی اپنی زندگی کا سب سے پرانا ساتھی ،جو اسے اپنے باپ کی
وراثت سے ملا تھا ، لا کر سلیم کے آگے رکھ دیا اور اس ڈھول پر ہاتھ پھیرتے
ہوئے سلیم سے کہا :’ اسے احتیاط سے رکھنا ، یہ میری زندگی کا ساتھی اور
میرے باپ کی نشانی ہے۔ اگر میرا بیٹا ہوتا تو میں اسے کبھی کسی اور کے
حوالے نہ کرتا ۔ تم میرے بھتیجے لگتے ہو ، میں تمھیں اپنا پیارا ساتھی بیٹا
سمجھ کر دے رہا ہوں۔ میرے بعد اگر یہ ڈھول لوگوں کی خدمت کرتا رہے گا تو
میری روح کو سکون ملتا رہے گا۔‘
اس نے حامی بھر لی کہ جب تک اس سے ہو سکے گا وہ اس ڈھول کو رمضان میں لوگوں
کی خدمت کے لئے بجاتا رہے گا اور جب اس کی طاقت جواب دے جائے گی تو اس وقت
کا وعدہ نہیں کرتا۔
یہ خوشی محمد کا آخری رمضان تھا ۔ اسے اس بات کا صدمہ تو تھا کہ اس نے اس
بار ڈھول بجا کر لوگوں کو نیند سے بیدار کرنے کی خدمت ادا نہیں کی ، لیکن
اتنا سکون ضرور تھا کہ اس کا ڈھول یہ فریضہ ضرور ادا کر رہا ہے اگرچہ کسی
اور کے گلے میں ۔ اسے روزانہ سحری کے وقت بیداری ہو جاتی اور جیسے ہی اس کا
ڈھول بجتا ہوا اس کے گھر کے پاس سے گزرتا اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی
مسکراہٹ پھیل جاتی۔ اور پھر کچھ ہی لمحوں بعد وہ دوبارہ نیند کی آغوش میں
جا چکا ہوتا۔ اس کا اپنے ڈھول کے ساتھ ایک روحانی رشتہ استوار ہو چکا تھا۔
اور ہونا بھی تھا کہ اس کی تمام عمر اس ڈھول کے بجانے میں ہی صرف ہو ئی
تھی۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے اس کی نظر قبر کھودنے والے اوزاروں پر پڑی جو کہ زنگ
آلود ہو رہے تھے۔ اس نے ان کے بارے میں بھی فکر کی کہ وہ کس کے سپرد کئے
جائیں۔ اسے ان کا کوئی مناسب ٹھکانہ سمجھ نہ آیا۔ پھر اسے یک دم ایک امید
افزا خیال آیا : ’کیوں نہ وہ اوزار بھی سلیم کے ہی حوالے کر دیئے جائیں۔
ویسے بھی اب ان کی قیمت کیا لگے گی۔ پرانے اور استعمال شدہ ہیں۔ اور ہو
سکتا ہے کہ گور کنی کا کام بھی سلیم اپنے پیشے کے طور پر اپنا لے ، کون سا
لوگوں نے مرنا چھوڑ دینا ہے، چلتی سرائے ہے، کوئی آج تو کوئی کل جا رہا
ہے‘۔ویسے بھی سلیم کبھی کبھی قبر کھودنے کے کام میں اس کی مدد کر دیا کرتا
تھا۔ یہ اس وقت ہوتا جب خوشی جسمانی طور پر ٹھیک نہ ہوتا تھا یا جب موسم
قابلِ برداشت نہ ہوتا تھا اور قبر کھودنے کا کام بھی کرنا پڑتا۔
اس نے اسی شام سلیم کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ سلیم سے دوچار ابتدائی باتوں کے
بعد وہ اپنی اصل بات پر آگیا اور کہا :’ اس کے پاس قبر کھودنے کے اوزار پڑے
خراب ہو رہے ہیں۔ کیوں نہ ہو کہ تم ڈھول کی طرح وہ بھی اپنے قبضے میں کر لو
، زندگی میں کام آئیں گے‘۔ سلیم بھی شاید یہی سوچ رہا تھا لیکن اپنے منہ سے
بات کرتے ہوئے ہچکچاتا تھا کہ چچا خوشی کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اسے مارنے
کی خواہش کر رہا ہے۔ یا اس بات سے اس کی بیماری اور کمزوری میں کہیں اضافہ
نہ ہو جائے۔ کیوں کہ زندگی کا پتا امید کی ڈالی پر ہی لہرا سکتا ہے۔
خوشی کی زندگی کے دن گنے جا چکے تھے۔ وہ اب کمزوری سے ضعف کی طرف مائل ہو
چکا تھا۔ اس کی آنکھوں کی بینائی تیزی سے کمزور ہو رہی تھی، اس کی کھانسی
ایک بار شروع ہو کر رکنے کا نام ہی نہ لیتی ۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر جو کہ
گلی کے ایک کونے پر تھا ، گلی کے دوسرے کونے تک کھانستا چلا جاتا۔ اس کی
زندگی جیسے اب کچھ مہینوں تک سمٹ آئی تھی۔
آخر ایک دن اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے پرانے وڈیرے دوست کی طرف
سے پیغام ملا : ’ اسے پتہ چلا ہے کہ خوشی محمد اب بہت زیادہ کمزور ہو چکا
ہے، اس کے علاج معالجے، اور اس کی آف شور کمپنی کی مذید ترقی کے لئے اور
اسے اپنی اس کمپنی کی کمائی اس کے حوالے کرنے کے لئے اس کا خیال ہے کہ خوشی
محمد کو اپنے پاس بلا لے‘۔
خوشی محمد کے لئے یہ لمحہ کسی غیر متوقع طور پر ملنے والی عظیم نعمت سے کم
نہ تھا۔ اس پیغام کے ملتے ہی اس کی جیسے ساری کمزوری اور بیماری رفو چکر ہو
گئی ۔وہ تو جیسے بیمار یا کمزور تھا ہی نہیں ، لیکن یہ صرف احساس تھا ۔ وہ
واقعی کمزور بلکہ قریب المرگ تھا۔ لیکن اپنے سفر کرنے سے پہلے وہ اپنے محلے
کے سارے لوگوں سے ملنا چاہتا تھا۔ اس نے محلے کی مسجد میں اعلان کروایا کہ
اس نے آنے والے جمعہ کے دن یہاں سے چلے جانا ہے اور پھر واپسی کا کوئی پتہ
نہیں ہو یا نہ ہو۔ اس لئے سارے محلے والوں سے اس کی گزارش ہے کہ وہ اسے اس
کے گھر میں مل لیں تا کہ زندگی کا آخری سلام کر لیا جائے۔
خوشی محمد کی محلے کے لوگوں میں اچھی سلام دعا تھی، وہ اگرچہ خود بھی غریب
تھا لیکن پھر بھی غریب لوگوں کا خیال رکھا کرتا تھا۔ ان سے اپنی مزدوری بھی
کم لیا کرتا اور بعض کی مالی امداد بھی کر دیتا۔ اس لئے اس دن سارا محلہ
جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد خوشی کے گھر آگیا۔ خوشی نے اس موقع کے لئے
ایک نیا سفید لباس سلوایا تھا جو اس نے اس دن پہنا تو اس کے چہرے پر ایک
عجیب سی تمازت اور نورانیت جلوہ گر ہو گئی۔
لوگوں نے باری باری اس سے سلام دعا کی، ہاتھ ملائے، کسی نے معانقہ کیا، کسی
کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کسی کے مذاق کی راہ اختیار کی، تا کہ آخری وقت کو
کسی خوش گوار یاد کے ساتھ ختم کیا جائے۔
لوگوں کی خاطر خواہ خدمت بھی کی گئی۔ ان کو گرمی کی شدت میں ٹھنڈے مشروب
پلائے گئے اور پھر بریانی بھی کھلائی گئی جو کہ لوگوں کو زیادہ پسند تھی۔
لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے ، اس وڈیرے کے چند ملازم ایک سفید گاڑی میں وارد
ہوئے ، خوشی کے گھر کا پتہ پوچھا اور اسے اس وڈیرے کا پیغام سنایا ، خوشی
کو اس بات کا پہلے ہی علم تھا کہ آج ان لوگوں کے آنے کا وعدہ تھا۔ خوشی،
خوشی خوشی سے ان کی گاڑی میں سوار ہو گیا۔ لوگوں نے جو اس وقت تک وہاں رہ
گئے تھے، اسے الوداع کہا، اور اپنے دلوں میں اپنی سوچ کے مطابق بحرِ خیالات
وجذبات لے کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
ادھر خوشی اس قسم کی گاڑی میں پہلی بار بیٹھا تھا۔ اسے کوئی علم نہیں تھا
کہ گاڑی کس طرف جا رہی ہے۔ گاڑی کے شیشے بھی اتنے کلیئر نہیں تھے، دوسرا
اسے ان باتوں کے متعلق جاننے کی فکر بھی نہیں تھی۔ وہ اپنا فریضہ ادا کر
چکا تھا۔ اس کی آف شور کمپنی اسے اپنی طرف بلا رہی تھی۔وہ اپنے دوست وڈیرے
سے ملنے جا رہا تھا۔ اس کی آف شور کمپنی اس کا استقبال کرنے کے لئے چشم
براہ تھی۔ |
|