اس پیار کو کیا نام دوں ( قسط نمبر ا )

پیش لفظ:
السلام علیکم! ’’ اس پیار کو کیا نام دوں؟‘‘ میرا دوسرا ناول ہے جو کہ میں ہماری ویب کے لئے لکھ رہا ہوں۔ پہلے بھی ایک ناول ’’ محبت پھول جیسی ہے‘‘ لکھ چکا ہوں۔جو کہ آپ قارئین نے بہت پسند کیا۔ ’’اِس پیار کو کیا نام دوں؟‘‘ اسی ناول کی ایک کڑی ہے بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا اسی ناول کا پارٹ ٹو ہے۔’’ محبت پھول جیسی ہے‘‘ گذشتہ برس یکم اگست سے ہماری ویب پر شروع ہونے والا سلسلہ تیس اقساط مکمل کرنے کے بعد تین میں مکمل ہوا تھا۔ اس کے بعد ہماری ویب پر واپسی ممکن ہو نہ سکی لیکن اب کافی عرصہ بعد ایک بار پھر نئے سلسلے کے ساتھ حاضر ہوں۔

’’اس پیار کو کیا نام دوں ؟‘‘ لکھنے کا مقصدکچھ ایسی کہانیوں کو مکمل کرنا ہے جو شائد ’’ محبت پھول جیسی ہے‘ ‘ میں ادھوری رہ گئی تھی۔ کچھ ایسے احساسات جو ابھی بیان ہونا باقی تھے۔ کچھ ادھورے سپنے جو پورے ہونا باقی تھے۔ کچھ ادھورے وعدے جن کو پورا کرنا باقی تھا۔ کچھ ادھوری یادیں جن کو سمیٹنا باقی تھا۔ ’’ اس پیار کو کیا نام دوں؟‘‘ اسی حصے کی ایک کڑی ہے۔ جو کئی کہانیوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ میں امید کرتا ہوں کے آپ اس سلسلے کو بھی ایسے ہی پسند کریں گے جیسا کہ ’’ محبت پھول جیسی ہے ‘‘ کو پسند کیا تھا۔آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ اپنی رائے سے آگاہ ضرور کیجیے گا۔(محمد شعیب)
* * * *
اِس پیار کو کیا نام دوں؟( قسط نمبر ایک)
کمرے میں سورج نے اپنی کرنیں بکھیرنا شروع کر دیں۔ کھڑکی میں لٹکے سفید جھالروں والے پردے کی اوٹ سے شعاعیں اس کے چہرے کو بوسہ دینے لگیں ۔ اس نے لحاف سرکا کر چہرے کو ڈھانپا اور کروٹ تبدیل کر لی مگر ایک بار پھر الارم نے اس کی نیند میں مخل کیا۔ وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ بیٹھا اور اپنے دائیں طرف نگاہ دوڑائی تو جگہ کو خالی پایا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ ایک پل کے لئے اس کے چہرے سے پریشانی چھلکنے لگی مگر جیسے ہی اس کی نظر دیوار پر لٹکے ہوئے کلینڈر پر گئی توچہرے پر طمانیت آگئی۔ وہ جان چکا تھا کہ وہ کہاں گئی ہے؟ وہ اٹھا اور سلیپر پہن کر واش روم میں فریش ہونے کے لئے گیا۔ واپس آیا تو وال کلاک آٹھ بجنے کی نوید سنا رہا تھا۔کندھے پر ایک ٹاول بالوں سے گرنے والے پانی کے قطروں کو اپنے اندر سمو رہا تھا۔وہ وارڈ روب کی طرف بڑھا اور داہنے ہاتھ سے دروازہ وا کیا۔اندر سے ڈارک بلیو کلر کی شرٹ نکالی اور ٹاول کو بیڈ پر رکھنے کے بعد اسے پہنا اور بعد میں ڈریسنگ کے سامنے آکر اپنے بالوں کو کنگا کیا۔آنکھوں میں طمانیت واضح دیکھی جا سکتی تھی۔ ان کے رشتے کو ایک عرصہ ہو چکا تھا مگر شائد وہ آج بھی ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھی۔ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دور۔شائد وہ تو کب کی اسے چھوڑ کر چلی جاتی اگر اُس وعدے نے اسے مجبور نہ کیا ہوتا۔ وہ آج بھی اپنا وعدہ نبھا رہی تھی۔ اپنی محبت سے کیا گیا وعدہ۔ اپنے آپ سے کیا گیا وعدہ۔

نہیں۔۔۔ پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو۔۔۔ آج سے تم نئی زندگی کی شروعات کرو گی۔۔ دانش کے ساتھ۔۔۔۔۔"
" پلز۔۔۔۔۔۔۔ وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرن۔۔۔۔"

ایک نمی اس کی آنکھوں میں نمودار ہوگئی۔مگر اس نمی کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ آج دانیال کو بچھڑے تین سال بیت گئے مگر اس کی روح آج بھی ان دونوں کے درمیان حائل تھی۔ اس کی محبت آج بھی دانش کا راستہ روکے ہوئے تھی۔مگر اس پر اسے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔آخر اسی کی وجہ سے آج وہ اس دنیا میں نہیں تھا۔ وہ آج بھی دانیال کی موت کا ذمہ دار اپنے آپ کو مانتا تھا۔ مگر اس سے کیا گیا وعدہ اسے کسی بھی قیمت پر نبھاناتھا۔ کرن کو خوش رکھنے کا وعدہ۔

’’ سوری دانیال۔۔!! میں تم سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کر پایا۔ میں کرن کو وہ خوشی نہیں دے پایا جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ اس کی زندگی میں آج بھی ویرانی ہے۔ آج بھی اندھیرا ہے۔ مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ وہ میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میری نہیں ہے مجھے دکھ ہے تو صرف اس بات کا دکھ ہے کہ میں اسے وہ خوشی نہیں دے پایا ، جو تم دے سکتے تھے اور شائد کبھی دے بھی نہیں سکتا۔ خوشیاں تو روح سے جڑی ہوتی ہیں اور میں نے تو اس کی روح ہی چھین لی۔ خوشیوں کی وجہ ہی چھین لی پھر بھلا وہ کیسے خوش رہ سکتی ہے۔ ‘‘ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر پھر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ آنکھوں میں موجود نمی اکٹھی ہونا شروع ہوگئی۔ دھندلا پن غالب آگیا مگر اس سے پہلے کہ وہ نمی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگتی، پٹاخ سے دروازہ کھلا اور اس کی بیٹی مہک اندر آئی
’’ میری مہک اٹھ گئی۔۔ ‘‘بیگ اٹھائے وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ دانش نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے کو چوما اور پھر پیار سے اس کے بال سہلائے۔
’’ پاپا، ماما کہاں ہے؟‘‘مہک نے چند سیکنڈز میں ہی کمرے کو چھان مارا تھا
’’ آپ کی ماما کسی کام سے باہر گئی ہیں۔ ابھی آ جائیں گی۔۔‘‘مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا
’’لیکن پاپا، آج تو ماما نے پرامس کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ پیرنٹس میٹنگ میں جائیں گی۔‘‘ اس نے منہ بگاڑ کر کہاتھا۔ مہک کی بات سن کر وہ ثانیے کے لئے خاموش ہوگیا۔ کہتا بھی کیا؟ کچھ کہنے کے لئے ہوتا تو کچھ کہتا۔ ایک پیرنٹس میٹنگ نے ہی تو اس کو ماضی میں دھکیل دیا تھا۔ پانچ سال کی محنت پر پانی پھیر دیا تھا ۔ دانیال کو اس کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اس دن کے بعد کرن ایسے بکھری کہ کبھی پیرنٹس میٹنگ میں جانے کی ہمت ہی نہ رہی۔ ہمیشہ دانش ہی مہک کے سکول جایا کرتا۔ مہک ہمیشہ کرن سے خفا رہتی ۔ گذشتہ شب بھی اس نے بڑی مشکل سے کرن کو منایا تھا
’’ ماما، پلز۔۔۔‘‘ وہ منتوں سے اس کے آگے گڑگڑا رہی تھی
’’مہک۔۔۔ زیادہ ضد نہیں کرتے۔۔‘‘اس کو ڈریسنگ پر بٹھایا اور اس کی پونی کو کھول کر اسے سلجھایا
’’ماما ۔۔ پلز ون ٹائم ۔۔ پلز۔۔‘‘ وہ اب بھی اپنی ضد پر قائم تھی
’’ مہک۔۔‘‘ اس کے لہجے میں سختی تھی
’’ٹھیک ہے، اگر کل آپ میرے ساتھ نہیں گئیں تو میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔‘‘اس نے بھی ضد پکڑ لی اور کرن یہ بخوبی جانتی تھی کہ اگر مہک کسی بات کی ضد پکڑ لے تو اسے پورا کر کے رہتی تھی۔ اسی لئے اس نے ہامی بھر لی
’’تھینک یو ماما۔!!‘‘ وہ اس کے گلے لگ گئی اور خوشی سے جھومنے لگی
’’ کوئی بات نہیں میری پیار مہک۔۔!! میں ہوں ناں!!میں چلوں گا آپ کے ساتھ۔۔‘‘ اس نے مہک کو گود میں اٹھا لیااور ایک بار پھر اس کا ماتھا چوما
’’ ہنہ۔۔‘‘ ناک سکیڑ کر جواب دیا
’’ اتنی سی جان۔۔ اور اتنا غصہ۔۔ تھوک دو غصہ۔۔۔‘‘ تھوڑی سے اس کے چہرے کو ہلایا
’’نہیں تھوکنا۔۔۔‘‘ گردن جھٹک کر جواب دیا
’’ چلو میں تھوک دیتا ہوں ۔۔۔ تھو ۔۔‘‘ دیوار کی طرف کر کے فرضی تھوکااور پھر اس کے چہرے کو بوسہ دیا
* * *
میری زندگی کی ادھوری کہانی ہو تم
خوابوں میں بسنے والی روانی ہو تم
سمجھتی رہی میں ہمیشہ غلط تمہیں
نہ جان پائی میری زندگی ہو تم
صبح کے وقت ہر طرف خاموشی تھی۔ سورج نے اگرچہ اپنی کرنیں بکھیر دی تھیں مگر قبرستان میں صرف خاموشی نے ڈیرا جمایا ہوا تھا۔وہ خراماں خراماں اس کی قبر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو، دل میں درد امڈ رہا تھا۔ گلاب کی پتیوں کی خوشبو ماحول میں تو اپنی رعنائی بکھیر رہی تھی مگر وہ اس سے محروم تھی۔اس کی زندگی میں سے تو وہ خوشبو کب کی نکل چکی تھی۔
’’ دانیال! اس دن صرف تم ہی مجھے چھوڑ کر نہیں گئے تھے، میری روح بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ تمہارے جسم کے ساتھ صرف تم ہی قبر میں داخل نہیں ہوئے، میری خوشیاں، میری محبت بھی تمہارے ساتھ زندہ درگور ہو گئی تھیں۔‘‘ آنکھوں کے سامنے ہنستا مسکراتا چہرہ وہ منوں مٹی کے نیچے سے بھی دیکھ سکتی تھی۔وہ اس کے قدموں میں بیٹھ کر اپنی محبت کا ثبوت دے رہی تھی
’’دانیال! تمہیں پتا ہے، آج تین سال بیت گئے، تمہارے وجود کو محسوس کئے ہوئے، تمہیں چھوئے ہوئے۔آج سے تین سال پہلے تم نے آخری بار مجھے چھوا تھا۔ آخری بار مجھ سے کچھ مانگا تھا۔ شائد پہلی اور آخری بار۔۔صرف تمہارے کہے کا مان رکھ رہی ہوں میں ، صرف تمہارے کہے کا۔۔۔‘‘ آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو اس کی قبر کو تر کرنے لگے۔
* * *
’’ اس پیار کو کیا نام دوں؟‘‘ میں ہونے والے واقعات کو جاننے کے لئے انتظار کیجئے اگلی قسط کا
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 106976 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More