پارلیمنٹ کے چوہے

 پشاور کے چوہوں نے خوب دھوم مچا رکھی ہے، آئے روز کسی نہ کسی کو کاٹ لیتے ہیں، عوام تو پریشان ہیں ہی، وہاں کی حکومت بھی پریشانی میں مبتلا ہے۔ چند روز قبل چوہے مارنے کے عوض انعام وغیرہ کا اعلان کیا گیا تھا، پھر خبر آئی کہ چوہے مارنے پر طے شدہ انعام نہیں ملا، ایسے معاملات کو سیاسی مخالفین خوب اچھالتے ہیں، سو انہوں نے اپنا کام کیا۔ چوہے مارنے سے مسئلہ حل نہ ہوا، یعنی سارے چوہے نہیں مارے گئے، کہ لوگوں کو چوہوں کے کاٹنے کی وارداتوں میں اضافے کی خبریں آنے لگیں۔ عوام اور حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی اثناء میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے خیبر پختونخوا حکومت پر طنز کا تیر چلایا، ’’جو حکومت چوہوں کو قابو نہیں کرسکی، وہ ملک کیسے چلائے گی․․․‘‘۔ اور پی ٹی آئی کے زخموں پر مزید نمک یوں چھڑکا گیا کہ بنوں میں وزیراعظم پاکستان کے جلسے میں تازہ تعلقات بحالی پر مولانا فضل الرحمن نے خطاب کیا تو میاں نواز شریف سمیت تمام مسلم لیگی بھی حیرت زدہ رہ گئے، انہیں توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن وزیراعظم کی تعریف اور محبت میں اس حد تک سفر کر جائیں گے۔ ان کا جو جملہ اخبارات میں شہ سرخی کے لئے منتخب کیا گیا وہ یہ تھا کہ ’’جو خیبر پختونخوا میں چوہوں سے ڈر گئے، وہ پنجاب میں ’شیروں‘ کا کیا مقابلہ کریں گے؟‘‘۔

ابھی خیبر پختونخوا حکومت پر طنز کے تیر برس ہی رہے تھے کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز میں بھی چوہوں کی موجودگی کی اطلاع آئی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک معزز رکن قومی اسمبلی کو بھی ایک چوہے نے کاٹ لیا ہے۔ اس خبر کے سامنے آنے سے اب کم از کم حکومتی ارکان کو پہلے اپنی چارپائی کے نیچے ڈنڈا گھمانا پڑے گا، تب جا کر دوسروں پر تنقید کرنے کا ماحول پیدا ہو سکے گا۔خیر اپنے ہاں یہ روایت عام ہے کہ اپنے آپ میں کوئی خامی ہونے کے باوجود بڑی ہمت سے اسی قسم کی خرابی پر دوسروں پر تنقید کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی جاتی۔ اتنا ضرور ہے کہ جب پشاور کے چوہوں کو قابو کرنے کے لئے صوبائی حکومت پر اعتراض کیا جائے گا تووہ بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے پارلیمنٹ لاجز کے چوہوں کا ذکر چھیڑ دیں گے، یہ طعنہ وفاقی حکومت کے لئے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کی موجودگی کی خبر نئی نہیں، یہاں ہمیشہ سے ہی چوہے موجود ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں ا ور کبھی کم۔

تازہ خبر صرف پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کی موجودگی کی ہی نہیں،بلکہ بتایا گیا کہ ایک معزز رکن کو چوہے نے کاٹ بھی لیا ہے۔ خبر سے یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ ان خاتون رکن کا تعلق کس صوبے سے ہے، اگر وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتی ہیں تو اور بات ہے، کیا جانئے کہ یہ چوہے سونگھنے کی مخصوص طاقت کے ذریعے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پہچان لیتے ہوں، وہ جہاں بھی جائیں تو یہ بھی ان کے پیچھے جاسکتے ہیں۔ یہاں یہ حقیقت قابلِ غور ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں اگر کوئی ایک قوم کے لوگ پائے جاتے ہیں تو وہ پٹھان بھائی ہیں، اب اگر پشاور کے چوہے اُن کے پیچھے ہو لئے تو وہ پورے ملک میں پھیل جائیں گے۔ اگر وہ خاتون ایم این اے کسی اور صوبے سے تعلق رکھتی ہیں تو بھی معاملہ سنگین ہے، کہ چوہوں نے خیبر پختونخوا سے باہر بھی قدم رکھ دیا ہے، اب اس کو قابو کرنا بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ پارلیمنٹ لاجز تو بذاتِ خود وفاق کی علامت ہے، چوہوں کا وہاں تک پہنچ جانا حکومت کے لئے بھی بہت خطرناک ہے۔ پارلیمنٹ لاجز کے چوہے بھی یقینا پشاور کے چوہوں کی طرح صحت مند ہی ہونگے، کیونکہ انہیں بہت ہی بہتر خوراک میسر ہوگی۔ نفیس اور اہم لوگوں کا جھوٹا کھانا اور انواع و اقسام کے پھل وغیرہ یہاں دستیاب ہوتے ہیں، اور اگر کسی انسان کو ہی کاٹنا پر جائے تو بھی عام آدمی نہیں، لاکھوں لوگوں کے نمائندہ کو کاٹنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہ چوہے چونکہ خاص ہیں، اس لئے خاص مقام پر رہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کیا ہاتھ کرتی ہے، یا رائے عامہ کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق کے خلاف ساز ش کرتے ہوئے چوہے اسلام آباد بھیج دیئے ہیں۔ چوہوں کا خاتمہ اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ انہوں نے اب غریبوں کے علاقے چھوڑ کر امیروں کے ایوانوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے، غریبوں کی سطح پر آنا حکومت اور اشرافیہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 478495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.