گالیوں کی کلاس

گالیوں کی کلاس کے مضمون کا مقصد لوگوں میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہے جو اپنے بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو یا کسی دوسرے کو گالیاں نکالتے ہیں ۔ کیونکہ اس طرح سے بچے گالیاں سیکھ جاتے ہیں اور سمجھ بوجھ نا ہونے کی وجہ سے بچے یہی گالیاں اپنے سے بڑوں کو اور دوسرے بچوں کو بھی دیتے ہیں جس سے گالیوں کی کلاس ایک نا ختم ہونے والے راستے پر چلتی رہتی ہے۔

گالیوں کی کلاس ۔۔۔۔
بچہ جب کوئی گالی دیتا ہے تو اس کو منع کیا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ گالی دینا بری بات ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اچھے بچے گالیاں نہیی دیتے۔

آج میں آپ سب کو بتاتا ہوں کہ بچہ گالیاں کہاں سے سیکھتا ہے اور بچوں کی گالیوں کی کلاس کہاں لگتی ہے۔ بچے گالیاں اپنے گھر سے سیکھتے ہیں یعنی بچوں کی گالیوں کی کلاس ان کا اپنا گھر ہی ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ بچے گالیاں کیسے سیکھتے ہیں ؟
تو اس کا جواب ہے کہ بچے گالیاں اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں ۔

بچہ جب سکول جاتا ہے تو وہاں اس کو علم سکھایا جاتا ہے جس سے اس میں شعور اجاگر ہوتا ہے بات کرنے کی تمیز آتی ہے اور اس کے علاوہ ایک بچے کو ایک انسان بھی بنایا جاتا ہے ۔

جب بچے کو کوئی سبق بار بار پڑھایا جاتا ہے تو وہ سبق اس کو ہمیشہ کے لیے یاد ہو جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جب گھر میں بچے کے سامنے طرح طرح کی گالیاں بار بار دیں جاتیں ہیں تو اس بار بار کی کلاس سے بچہ ہمیشہ کے لیے گالیاں سیکھ جاتا ہے ۔

بچوں کو چونکہ سمجھ بوجھ کم ہوتی ہے اسی لیے بچے سوچے سمجھے بغیر اپنے سے بڑوں کو بھی گالیاں دیتے ہیں اور سب کے سامنے بھی ایک دوسرے کو گالیاں نکالتے ہیں جس وجہ سے بچے کے والدین کو باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔ جیسا کہ آپکے بچے کو تمیز نہیں ہے کہ کسی کے سامنے گالیاں نہیں نکالتے یا آپ نے اپنے بچے کو ذرا تمیز نہیں سیکھائی کہ یہ سب کے سامنے گالیاں نکالتا ہے یا یہ کہ آپ کے بچے نے گالیاں کہاں سے سیکھی ہیں یا کس سے سیکھی ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہ سب باتیں سننے کے بعد آپکو شرمندگی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں سے آپ کے بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا وہ پھر بھی گالیاں جاری رکھتا ہے اور جب یہی بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کو یہ سب گالیاں روز روز کی کلاس کی وجہ سے اچھی طرح یاد ہو چکی ہوتی ہیں بالکل ایک سکول کے سبق کی طرح اور پھر یہی بچہ وہ گالیاں جو اس نے آپ سے سیکھی ہوتی ہیں اپنے بچوں میں منتقل کر دیتا ہے ۔

نتیجہ۔۔۔۔۔۔

گالیوں کی کلاس نسل در نسل چلتی رہتی ہے اور اس طرح آپکی دی ہوئی ایک گالی بچہ نا جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ بچہ یہی گالی اپنے سکول کے بچوں کو بھی بتاتا ہے اور اس آپکی دی ہوئی ایک گالی سکول کے ذریعے دوسرے بچوں اور ان کے خاندانوں تک پہنچ جاتی ہے ۔

سکول والوں کا کیا قصور ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ بچہ گالیاں اپنے سکول سے سیکھتا ہے لیکن اس بات میں کوئی حقیقت نہیں سکول والوں کا اس بات میں کوئی قصور اور غلطی نہیں ہوتی ۔ جب بچہ اپنے گھر سے کوئی گالی سیکھتا ہے تو کم عقلی کی وجہ سے بچہ اس گالی کو پتا نہیں کیا سمجھتا ہے اور بڑا خوش ہو کر بچہ وہ گالی اپنی کلاس کے دوسرے بچوں کو سیکھاتا ہے ۔ اور جب بچہ سکول میں کسی بڑی کلاس میں ہوتا ہے تو بچے ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ یا والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے نے یہ گالیاں اپنے سکول سے سیکھی ہیں لیکن سکول والوں کا اس بات میں کوئی قصور اور غلطی نہیں ہوتی ۔

میرا ایک میسج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو والدین اپنے بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو یا کسی دوسرے شخص کو کوئی گالیاں نکالتے ہیں ان کو چاہیے مہربانی کر کے ایسا نا کیا کریں اس سے آپ کا بچہ گالیاں سیکھ جاتا ہے ۔ اس کہ علاوہ بچوں کے علاوہ بچوں کے والدین کو اپنے بچوں کے سکولوں کے ماحول پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں انکا بچہ اپنے سکول کے کسی دوسرے بچے سے کوئی گالی تو نہیں سیکھ رہا اگر سیکھ رہا ہے تو بچے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اس سکول کے انتظامیہ کو اس بات سے انفارم کریں ۔

میں نے پہلی بار کوئی ایسا آرٹیکل لکھا ہے اگر اس میں کوئی غلطی ہوئی تو معاف کرنا اور آپ سب کو میرا یہ آرٹیکل گالیوں کی کلاس اگر پسند آئے تو مہربانی کر کے اس پر عمل ضرور کریں ۔ آپکی مہربانی ہو گی ۔ ۔۔۔

suleman ajmal chughtai
About the Author: suleman ajmal chughtai Read More Articles by suleman ajmal chughtai: 5 Articles with 3744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.