تہران ہو گر عالم ِ مشرق کا جنیوا

 دانائے راز کی پیش گوئی جو بالآخر سچ ثابت ہو گئی

علامہ کی دور اندیشی:
حضرت علی ؑکا ایک قول ہے کہ’’ ظن العاقل کہانۃ‘‘ یعنی عاقل کا تخمین و ظن پیشن گوئی ہوتاہے بالفاظ ِ دیگر ایک دور اندیش دانشمندومفکراپنے دورِ زندگی سے پرے یعنی آئندہ زمانے کے متعلق بسااوقات پیشگی کچھ ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ جو اس وقت درویش کی بڑھ معلوم ہوتی ہے لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد وقت خود ہی اس کی دور اندیشی کو ظاہر کرتا ہے ۔علامہ اقبال کی دانشمندانہ دور اندیشی نے بھی اپنا لوہا منوایا ہے ان کے معتدد اشعار عرصہ دراز تک تشنہ ٔ توضیح رہے یہا ں تک مختلف ادوار کے ادلتے بدلتے حالات و واقعات نے ان اشعار میں پوشیدہ رازہائے سربستہ کو خود بخودآشکارکیا ۔اسی تناظر میں پروفیسر آل احمد سرور اپنی کتاب ’’دانشور اقبال ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں’’ نکلسن نے کہا تھا کہ اقبال اپنے زمانے کے آدمی ہیں ۔ وہ اپنے زمانے سے آگے کے بھی آدمی ہیں اور اپنے زمانے سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔اس بات کا اظہار علامہ اقبالؒ نے بھی کنایتاً ہی سہی جا بجا اپنے معتدد اشعار میں کیا کہ وہ نہ صرف ماضی کے تہہ خانے اور حال کے منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنی دانش و بینش کے بالا خانے سے مستقبل کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ایک جگہ فرماتے ہیں
سبزۂ ناروئیدہ زیبِ گلشنم گل بشاخ ِ اندر نہاں در دامنم
وہ سبزہ جو ابھی تک اُگا ہی نہیں ہے وہ میرے گلشنِ افکار کی زینت میں چار چاند لگا رہا ہے۔ اور وہ پھول جو ابھی شاخوں کے رگ و پے میں ہی پوشیدہ ہے وہ میرے دامنِ افکار میں موجود ہیں۔
خاکِ من روشن تر از جام جم است محرم از نازادہائی عالم است
میرا خاکی وجود جمشید کے جہاں نما پیالے سے بھی روشن ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں ان تمام حوادث سے بخوبی آشنا ہوں کہ جو ابھی دنیا میں رونما نہیں ہوئے ہیں۔
نغمہ ام، اززخمہ بے پرواستم من نوائے شاعرِ فرداستم
میں وہ نغمہ ہوں جو سازِمضراب کا محتاج نہیں ۔میں آنے والے کل یعنی مستقبل کے شاعر کی آواز ہوں۔
مندرجہ بالا چند اشعار کسی شاعر کا بے دلیل دعویٰ نہیں ہے بلکہ ثبوت کے طور معتدد اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں فی الوقت اس بات کو ثابت کرنے کے لئے یہ ایک شعر ہی کافی ہے ؂
طہران ہو گر عالم ِ مشرق کا جنیوا
تو شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
شعر کا تاریخی پس منظر:
قبل اس کے مندرجہ بالا شعر کے نفسِ مضمون کو زیر ِ ِ بحث لایا جائے ،اس کے تاریخی پس منظر کو پیش کرنا لازمی ہے۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں اکثر و پیشتر ممالک بالواسطہ یا بلا واسطہ جنگ کی حالت میں تھے اس دور کو انسانی خون کی ارزانی کے دور سے یا د کیا جائے تو بجا ہے انسانی جانوں کا زیاں اپنے عروج پر تھا پہلی جنگ ِ عظیم میں قریباًٍ ایک کروڑ فوجی اور ایک کروڑ تیس لاکھ کے عام انسان مارے گئے۔ پوری دنیا میں افرا تفری کا عالم تھا ۔ امن و سکون کا کہیں پر سراغ مل پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن دکھائی دیتا تھا۔قریب تھا کہ دنیا تباہ و برباد ہوجاتی قیامت سے قبل ہی قیامت برپا ہو جاتی ۔جنگ وجدل اور قتل و قتال میں مصروف دنیا کو کوئی راہ نہیں سوجھتی تھی کہ کیسے اس قتل و غارت گری سے دنیا کو بچایا جائے۔اسی رستا خیزی اور خون آشامی کے پیش نظر جمعیت اقوام ( league of nations) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے عالمی سطح پر ابھرنے والی ان سیاسی رنجشوں کا سدِ باب کرنا تھا جو رنجشیں بعد ازاں جنگوں کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے قریب المرگ عالم ِ انسانیت کے لئے جمعیت اقوام عالم کی تشکیل سراسر زندگی کی نوید تھی ۔
علامہ اقبال کا جدا گانہ نقطۂ نگاہ:
عالمی سطح کی سیاسی قیادت اور دانشور طبقے کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کا عام آدمی بھی اس لیگ آف نیشن کے متعلق پر امید تھا کہ ہو نہ ہو یہی زخموں سے چور انسانیت کے لئے مرہم ثابت ہو جائے مگر دانائے راز اس عمومی طرز تفکر سے صد فی صد مختلف زاویہ نگا ہ رکھتے تھے انہوں نے جب اس خاص زاویہ نگا ہ سے اپنے معاصرعالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی توانہیں ایک ایسی حقیقت کا ادراک ہوا کہ عمومی اور سطحی نظرر کھنے افراد کی سرحدِ ادراک سے بھی پرے تھا۔اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اپنے ایک مضمون علامہ اقبال اور سماجی تعمیر نو میں رقمطراز ہیں۔کہ علامہ نے یکم جنوری 1938کو نئے سال کے پیغام میں فرمایا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاہدے، لیگیں، پنچایتیں اور کانفرنسیں دنیا کو جنگ و جدل اور خون ریزیوں سے نجات نہیں دے سکتیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ان لیگوں اور کانفرسوں اور معاہدوں کے ذریعے سے طاقت ور قومیں کمزور قوموں کو اپنے ظلم و ستم کا شکار بنانے کے لیے زیادہ پْرامن وسائل اختیار کر لیں گی۔ ضرب کلیم کی ایک نظم میں علامہ نے مجلس اقوام متحدہ جیسے اداروں کے با رے میں انہی خیالات کا اظہار کیا:
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم!
شاعر ِ مشرق کی جمعیت اقوام کے بارے میں جداگانہ بلکہ رائے عامہ سے متضاد رائے باعث ِ حیرانگی تھی۔اندازہ لگا لیجئے جہاں جمعیت ِ اقوام (leage of nation) کو خاص و عام اپنی امیدوں کا مرکز سمجھتے تھے وہاں علامہ اقبال کا یہ کہنا کس قدر عجیب ہے کہ چند ایک کفن چوروں نے مل بیٹھ کر عالمی سطح پر ایک تنظیم بنا لی ہے تاکہ آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے مل بھانٹ کر اپنے کام کو جاری و ساری رکھیں۔
من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند
ترجمہ :۔ میں اس کے سوا کچھ بھی نہیں جانتا ہوں کہ قبروں کو آپس میں مل بیٹھ کر بھانٹنے کے لئے چند (عالمی) کفن چوروں نے ایک تنظیم بنا لی ہے ۔
عالمی سطح پر تسلیم شدہ معتبر ادارے کے حوالے سے علامہ اقبال کانقطہ نگاہ ممکن ہے کہ ان کے دورِ حیات میں حسبِ توقع اثرات کا حامل نہ رہا ہو لیکن اس عالمی تنظیم کا حشر اور اس کے بطن سے جنم لینے والی دوسری تنظیم یعنی اقوام ِ متحدہ کا منافقانہ کردار موجودہ دور میں مندرجہ بالا شعر کی زندہ توضیح ہے ۔جس زمانے اور جس عالمی صورت حال کے تناظر میں یہ شعر کہا گیا ہے اس میں اس کی معنوی حیثیت بظاہرحقیقت ِ حال کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔لیکن دور ِ حاضر میں اقوام ِ متحدہ کی کارگزاری کے پیش نظر ہر صاحبِ نظر کے سامنے روز بروز اس کی عصری معنویت روشن سے روشن تر ہوتی جارہی ہے۔اور آج شاید ہی کوئی صاحبِ فہم و ادراک فرد اس بات کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں(جیسے یورپی یونین ،خلیج تعاون کونسل عرب ،لیگ ،اوپیک وغیرہ) طاغوت کی فرمانبردار کنیزیں ہیں جو اپنے آقا کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔
پیش گوئی کی مخلتلف کڑیاں:
ضرب کلیم میں’’ جمعیت ِ اقوام ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس میں اس تنظیم کے متعلق دانائے راز کی پیش بینی پر مبنی ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے اس نظم میں انہوں نے کہا ہے کہ کہ جمعیت ِ اقوام اپنی کج روی کے سبب بہت جلد اپنی موت آپ مرے گی۔ گویا اس کی اصل حقیقت اور اس قرار واقعی انجام کے حوالے سے جو پیشن گوئی علامہ نے کی تھی اس کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آ سکتا ہے ۔بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جمعیت اقوام کے اختتام کی یہ پیشگی خبر سچ ثابت ہوئی۔ علامہ فرماتے ہیں ؂ـ
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر ِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر مبرم نظر آتی ہے ولیکن
پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک ِ افرنگ
ابلیس کے تعویز سے کچھ روز سنھبل جائے
گویا زیرِ بحث شعر ’’یعنی طہران ہو گر عالم ِ مشرق کا جنیوا‘‘کے پس منظرمیں اور بھی معتدد اشعارکلام اقبال میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ ان اشعار میں بھی قبل از وقت چند ایک عالمی حقائق کو بیان کیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے ان تمام اشعار کا متذکرہ شعر کے ساتھ گہرا ربط و تعلق ہے۔ بالفاظ ِ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہے۔ علامہ اقبال نے تہران کومستقبل کے مشرقی جنیوا کا درجہ یوں ہی شاعرانہ ترنگ میں آکر نہیں دیا ۔بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور دور بین وجدانی نگاہ کے ذریعے ان عوامل و محرکات کو درک کیا تھا ۔جو پکار پکار کر مشرقی جنیوا کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے تھے۔لہٰذا اس شعر کی عصری معنویت تک رسائی کے لئے لازمی ہی ہے کہ اس سے منسلک علامہ کے پیش کردہ سیاق و سباق کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ جس کا اظہار انہوں نے جمیعت اقوام عالم جیسی نظم اور اسی قبیل کے دیگر اشعار میں کیا ہے۔
اقبال۔۔مغربی استعمار کی بالا دستی کے مخالف:
در اصل علامہ اقبال مشرق پر مغرب کی سیاسی ،معاشی، تہذیبی،فکری بالادستی کے زبردست مخالف تھے اور ان کی اس مخالفت کی وجہ مشرق کے ساتھ اقبال کی پیدائشی وابستگی نہیں تھی ۔بالفاظ ِ دیگر علامہ اقبال کی غرب بیزاری محض اس لئے نہیں تھی کہ وہ خود نسبی اعتبار سے مشرقی تھے ۔اقبال مشرق پرست تھے نہ مغرب کے پرستار ۔ البتہ کسی بھی قسم کی غلامی انہیں منظور نہیں تھی اور وہ اس طرح کی تنظیم سازی کے پس ِ پردہ حقائق اور عوامل کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے وہ جانتے تھے کہ مغربی سامراج کی بنیاد مختلف قسم کی غلامی کو باقی اقوام پر لادنے پر قائم ہے۔اور اپنے ابلیسی منصوبے کو عملی جامہ پہناننے کے لئے طاغوتی طاقتیتں مختلف ادوار میں مختلف دلکش نعرے لگاتی آئی ہیں۔
اقبال مغرب کے سیاسی قمار بازوں کی طینت سے واقف تھے یہی وجہ کہ ان کی انجمن سازی کے دام ِ فریب میں فکر ِ اقبال کا شاہیں گرفتار نہ ہو سکا ۔اقبالؒ ظاہر بین نہیں تھے کہ مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک دھمک پر فریفتہ ہو جاتے بلکہ ان کی ژرف نگاہی اسکے پر فریب کھول کو چھیرتی ہوئی اسکے اندرون تک جا پہنچتی ہے اور اس کی اصل حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ جس دور میں مشرقی انسان علی الخصوص دانشور طبقہ مغرب کی روش ِ زندگی کو مشرق کی بقائے حیات کا ضامن گردانتا ہے ٹھیک اسی دور میں اقبال فرنگی معاشرے کو آخری پہر کا چراغ سمجھتے ہیں جس کی لو کے حد سے زیادہ بھڑکنے کو اس کے بہت جلدغل ہونے کی علامت تصّور کی جاتی ہے ؂
نظر آتے نہیں ہے بے پردۂ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
بظاہر جمعیت ِ اقوام اور دیگر عالمی تنظیوں کی تشکیل کا واحد مقصد بین المللی تنازعات کو فر و کرنا تھا ۔لیکن در اصل فرنگی استعمار کی سیاسی، تہذیبی ،اقتصادی ،اور ثقافتی اجارہ داری کو بین الاقوامی سطح پر آئینی شکل دینے کے لئے اس طرح کی تنظیمیں وجود میں لائی گئیں۔ اور تمام اقوام عالم کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیمیں عالمی سامراج کی محض آلہ ٔ کار ہو کر رہ گئیں
فکرِ اقبال میں توازن وتبادل:
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر علامہ اقبال ؒ مغرب کے جنیوا سے مرعوب نہیں ہیں اور مغرب کے سیاسی رہنماووں کی تشکیل کردہ جمعیت اقوام ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں بلکہ اس طرح کی انجمنوں کو’’عالمی کفن چوروں ‘‘کی کارستانی کا نتیجہ قراردیتے ہیں تو کیا اقبال ؒ کے یہاں مغرب کی اس پر فریب حکمت عملی کا کوئی متبادل نظریہ تھا یا وہ محض تنقید کو ہی کافی سمجھتے ہیں ؟یقینا فکرِاقبال ؒ میں توازن و تبادل پایا جاتا ہے جہاں کہیں وہ کسی ایک فکر کو رد کرتے ہیں وہاں وہ اس کی متّبادل اور متّوازن فکربھی پیش کرتے ہیں۔انہوں مغرب کے جنیوا کو یوں ہی رد نہیں کیا بلکہ مشرق کے جنیوا کا تصّور بھی ان کے پیشِ نظر تھا وہ مشرق و مغرب کے مابین سیاسی ، علمی ، سائنسی اعتبار سے طاقت کے عدم ِ توازن کو تمام تر ناانصافیوں کا پیش خیمہ گردانتے ہیں اور وہ اس عدم ِ توازن کو ہر سطح پر ختم کرنے کے عزم بالجزم سے مشرق علی الخصوص دنیائے اسلام کو مملو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمعیت اقوام عالم ہو یا اقوام متحدہ ان کی تشکیل کے پس پشت مغربی امپیریلزم کا یہ مقصد بھی کارفرما تھا کہ پوری دنیا کی سیاسی طاقت کو مرتکز کر کیا جائے اور اور اس مغربی امپیریلزم کے تمام سیاسی حریفوں کو ٹھکانے لگانے میں یہ مرتکز سیاسی قوت کام آجائے۔علامہ اقبال ؒ اس بات کے متمنی ہے کہ اس سیاسی قوت کے مد مقابل ایک متبادل سیاسی قوت مشرقی دنیا میں بھی ابھرے تاکہ مغرب کی اجارہ داری کا کماحقہ سد باب ہو سکے۔ اور سیاسی قوت کے عدمِ توازن کا کسی حد تک سدِ باب ہو ۔ اس مجوزہ مرکز کے خد و خال انہوں نے اپنی ایک نطم میں واضع طور پر ابھارے ہیں۔ ؂
پانی بھی مسخر ہے ،ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بد ل جائے
ایک ناگزیر وضاحت:
یہاں پر یہ بات واضع کرنا نہایت ہی ضروری ہے کہ جس دور میں علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی تھی اس دور کے عالمی منظر نامے پر نظر دوڑانے سے یہ بات عیا ں ہو جا تی ہے کہ تہران میں مشرق کاجنیوا بننے کی اہلیت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ہے اس دور کے ایران کی حیثیت محض عالمی سامراج کے گماشتے کے سوا کچھ بھی نہ تھی ۔ تختِ شاہی پر براجمان مطلق العنان حاکم کو بھی مغربی طاغوت کی غلامی پر ناز تھا۔مغربی تہذیب کی تقلید میں اپنی شناخت کھو دینے والے اُس وقت کے تہران کو مشرقی اقوام کی امامت کا اہل سمجھنا سرا سرناانصافی تھی ۔سیاسی سطح پر با غیرت قیادت کے فقدان سے ایران کی مجموعی صورت ِ حال دیگر مشرقی ممالک سے مخلتف نہیں تھی۔مغربی سامراجیت کی تہذیبی ،ثقافتی اور سیاسی جارحیت کے کرگس مشرق کا بے روح بدن نوچ رہے تھے۔بحیثیتِ مجموعی ایران قوم پرستی کے ساتھ ساتھ دنیا میں ابھرنے والی مختلف فکری اور سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔اغیار کی تقلید سے ایران نے اپناملی تشخص کھو دیا تھا۔نیز ایرانیوں کا تہذیبی اور مذہبی ورثہ وطن پرستی اور قوم پرستی کے ریلے میں بہہ نکلا تھا۔ اس سلسلے میں استاد محترم جناب پروفیسر بشیر احمد نحوی صاحب اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں’’جاوید نامہ‘‘ میں نادرشاہ جب اقبال سے ایران کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو اقبال نے اس زمانے کے حالات کے مطابق یہ کہا تھا کہ ’’ایران نے فقط وطن دوستی اور ایرانی قومیت پر توجہ کی ، اپنا دل رستم (پہلوان) سے ملایا اور جناب علی مرتضیؑ ٰسے دور چلے گئے۔‘‘ملکی نظام کو چلانے کے لئے وہی فرسودہ شہنشاہیت بر سر اقتدار تھی ۔جو علامہ اقبال کی نظر میں ہر لحاظ سے معتوب و معیوب تھی۔امت ِ مسلمہ کے ملی مفادات کے پیش نظر ایرانی شہنشاہیت موجودہ عربی شہنشاہیت کی ہو بہو تشبیع تھی۔فی زمانہ ملت ِ اسلامیہ کو کمزور اور پارہ پارہ کرنے میں جو کردار عرب کی شہنشاہیت کے ذمہ ہے اُس دور میں عالم ِ استعمار نے ا عجمی شہنشا ہیت کووہی کردار تفویض کیا تھا۔ بقولِ پروفیسر آل احمد سرور’’ وہ(اقبالؒ)ہر قسم کی شہنشاہیت کے خلاف ہیں خواہ وہ انگریزی سامراج ہو یا عرب شہنشاہیت ۔ ان کے نزدیک اسلام کے جوہر اس وجہ سے نمایاں نہ ہو سکے کہ عرب شہنشاہیت نے اس پر اقتدار حاصل کر لیا ‘‘۔جب عرب شہنشاہیت علامہ اقبال کی منظور نظر نہیں ہے تو عجمی شہنشاہیت کیونکہ کر ان کی نظر میں عالم ِ مشرق کے لئے مرکزی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔علامہ اقبال تو عرب و عجم کی تفریق سے ماواراء تھے کہ ایک ملک کا منفورنظام کسی دوسرے ملک میں ان کے نزدیک لائق ِ شتائش ہوتا۔وہ اپنی دنیا آپ بنانے اور سنوارنے کا وژن اور عزم و حوصلہ رکھتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جدیدیت کے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہوئے نہ قدیم شاہی طمطراق سے مرعوب۔عالمِ اسلام علی الخصوص مشرق وسطیٰ میں اس وقت ایک جانب ترکی میں کمال اتاترک جدیدیت کا ڈنکا اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ پیٹ رہا تھا ۔وہ خود کو روایت سے بغاوت کی علامت کے طور ظاہر کر رہا تھا ۔دوسری جانب ایران میں رضا شاہ پہلوی اپنی ڈھائی ہزار سالہ قدیم شہنشاہی ورثہ کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتا تھا۔شاعر ِ مشرق کا ’’طائرِ لاہوتی‘‘سینکڈوں سال قدیم رضا شاہ کے’’ گنبد ِ شاہی ‘‘کو اپنا بسیرا بنانے پر آمادہ ہوا اور نہ ہی مصطفی کما ل اتاترک کے تخلیق کردہ جدیداور جاذب نظر پنجرے میں سما سکا۔
نہ مصطفی رضا شاہ میں نمود اس کی
روح مشرق بدن کی تلاش میں ہے
شاعرِ مشرق ۔۔روحِ مشرق کا متلاشی:
بحیثیت مجموعی علامہ اقبال اپنے معاصر مشرقی اور اسلامی ممالک کی سیاسی اور مذہبی قیادت سے ناامید تھے اور ان کی امید آنے والے اس دور سے وابسطہ تھی جو ایک اہم حادثہ اور انقلاب کو لے کے آیا ہی چاہتا تھا۔
حادثہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینہ ادراک میں ہے
انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا
عصرِ من دانندۂ اسرار نیست
یوسفِ من بہر ایں بازار نیست
مفہوم:۔ میرازمانہ بھیدوں سے واقف نہیں ہے اور میرایوسف ِ افکار موجودہ بازار کے لئے نہیں ہے۔گویا علامہ اقبال ؒاس بازار ِمصر کا متلاشی ہے کہ جو اس کے حسن ِ افکار و نظریات کا قدر دان ہو۔مگر امر واقع یہ ہے کہ ایسے بازار خود بخود نہیں سجتے بلکہ انہیں سجانے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایران کی بے بصیرت سیاسی قیادت اور وہاں کے غالب عوامی رجحان کو دیکھ کر علامہ اقبال اس وقت کے ایران کے متعلق نا امید تھے گویا ایران علامہ اقبال کے مطلوبہ ایران سے سراسر مختلف بلکہ متضاد تھا ۔ یعنی اقبال کسی اور قوم و قیادت کے خواہاں تھے۔البتہ یہ بات یہاں پر واضع کرنا لازمی ہے کہ وہ کلی طور ملت ِ ایران سے ناامید نہیں تھے وہ جانتے تھے کہ اگر نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایران وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
یہی وجہ ہے کہ انہوں اپنی مادری زبان کو تج کر فارسی کو ہی اپنے اظہار ِ خیالات کا وسیلہ قرار دیا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے افکار کی تخم ریزی کے لئے اسی مردم خیز سرزمین یعنی ایران کا انتخاب کیا ۔ اس سلسلے میں معروف اسلامی ا سکالر اور ماہر ِ اقبالیات مرحوم ڈاکٹر اسرا احمد صاحب کا یہ فرمانالائق ِ توجہ ہے ۔کہ’’ میرے ذہن میں ایک عرصے تک یہ سوال رہ رہ کر آتا تھا کہ کیا وجہ ہے لاہور میں رہنے والا ایک پنجابی الاصل اور زیادہ گہرائی میں جائیں تو کشمیری الاصل ہندوستانی شخص ،اور اس کا دو تہائی کلام فارسی میں ؟ حالانکہ (یہاں برِ صغیرمیں) فارسی جاننے والے اس وقت بھی بہت زیادہ نہیں رہ گئے تھے۔لیکن ایران کے اسلامی انقلاب نے اس معمے کو میرے لئے حل کر دیا۔ دراصل یہ جو ایران کا انقلاب آیا ہے اس کی بنیاد میں علامہ اقبال کا کلام ہے ۔ ایرانی انقلاب میں علامہ اقبال کے ولولہ انگیز افکار و نظریات کا اثر نمایاں ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا‘‘
اک ولولہ ٔ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخاروسمر قند
شاعرِ فردا منتظرِ فردا:۔
علامہ نے ان آثار و قرائن کو درک کیا تھا جو ایک نئے ایران کووجود میں کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوئے ۔وہ اپنی وجدانی آنکھ سے ایک نئی قیادت اور عوامی سطح پر جذبہ خودی کی باز یافت کے جدوجہد کی زیریں لہر محسوس کر رہے تھے۔انہیں اس بات پر کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور ایک مضبوط اور مستحکم ایران وجود آئے گا جس میں مشرق کا جنیوا بننے کی اہلیت ہو گی۔نیز جو مغربی استعماریت کے لئے گلے کی ہڈی ثابت ہو گا ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی ایک فارسی نظم میں انہوں ایران کی نئی نسل سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ میں تمہاری بصیرت اور ہمت پر اپنی جان تک وارے جا رہا ہوں ۔
چوں چراغِ لالہ سوزم در خیابانِ شما
اے جوانانِ عجم جانِ من و جانِ شما
ترجمہ:اے جوانانِ ایران! قسم ہے مجھے اپنی اور تمہاری جان کی ،میں تمہارے چمن میں چراغ ِلالہ کی طرح فروزاں رہوں گا۔
می رسد مردے کہ زنجیرِ غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما
ترجمہ:وہ مرد ِحرآ یا ہی چاہتا ہے کہ جو غلاموں کی زنجیریں توڑکر رکھ دے گا۔ میں نے تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے اْسے آتے ہوئے دیکھ ہے۔
ایران کی نئی نسل کے نام کس قدر واضع اور غیر مبہم نوید ہے ۔غلامی اور محکومی کے دور میں غلام قوم کو آزادی کی مژدہ سنانا باعث حیرت ہے۔اور اس سے بڑھ کر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ نوید سچ ثابت ہوئی۔ کیونکہ اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ بالآخروہ مردِ حر، آزادی کی سوغات لے کر آ ہی گیا ۔اس نے نہ صرف ایران کو طاغوت کی غلامی سے نجات دلا دی ۔ بلکہ ایران کو طاغوت مخالف قوتوں کا مرکز بنا دیا ۔ اور یوں علامہ اقبال کی اس آرزو کو عملی جامہ پہنایا جو ایران کے متعلق ان کے دل میں ایک عرصے تک کروٹیں لے رہی تھی۔
 

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.