خاوند کا درجہ اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
اﷲ رب العزت کی طرف سے حکم ہوتا کہ "کن" بس
"فیکون" ہو جاتا، پھر اس کائنات کے اندر لاکھوں کروڑوں مخلوقات ، کہکشائیں،
چرند وپرند، جن و انسان ، حیوانات و عجائبات، گو کہ آسمان کی بلندیوں میں
اُڑنے والے شاہین سے لے کر سمندرکی تہہ میں پائے جانے والے ایک چھوٹے سے
کیڑے سمیت سب کی تخلیق کی ، ان کے رہنے ، سہنے اورپھر یہ ہی نہیں سب کو بہم
رزق مہیا کیا یہاں تک کہ پتھر کے اندر موجود کیڑے کو بھی رزق کی ترسیل
مسلسل کی مگر ان سب مخلوقات میں سے اﷲ رب العزت نے سب سے زیادہ عزت و شر ف
اشرف المخلوق "انسان" کو دی ۔۔۔مگر کیوں۔۔۔؟؟؟کیوں کر اس ساری کائنات کو
بنانے کی ضرورت پیش آئی ۔۔۔؟؟؟ انسا ن کے دنیا میں آنے سے قبل بھی رب کی
حمد و ثنا ہوتی رہی ، ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی، فرشتے جو نوری مخلوق ہے
ایسی مخلوق جو ہر وقت رب کی عبادات میں مصروف ہیں مگر انسان کو مٹی سے بنا
کر بول دیاکہ انسان اپنے اعمال سے فرشتوں سے بھی افضل بن سکتا ہے، اسی لیے
اﷲ عزوجل نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا اور وہ بڑی کریم ذات ہے جب
انسان گناہ سے لبریز ہو کر ، دنیا سے بے نیاز ہو کر زندگی کے کسی بھی لمحے
میں اپنے رب کے ہاں مغفرت کے حصول کے لیے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہے تو
آسمانوں پر جشن سا سما ہوتا ہے ( توبہ وہ بھی اگر کسی نوجوان کی) وہ رب جس
نے انسان کو عقل سلیم کے ساتھ دنیا میں بھیجا کہ وہ یا تو دنیا کا ہو یا
پھر آخرت کا۔۔۔مگر یاد رہے جیسا بھی اُس سے اُس کا رب بہت پیار کرتا ہے (
ایک ماں اپنے بیٹے کے اندر لاکھوں عیب ہونے کے باوجودبھی اس کی اچھا ئی
بیان کرتی ہے)، بہت پیار ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار ۔۔۔ رب ِ کائنات نے
اپنی اشرف المخلوق کی فلاح و اصلاح کے لیے رفتہ رفتہ انبیاء اکرام علیہ
السلام کا ایک قافلہ بھیجا جن کے آخر میں رب تعالیٰ نے حضرت محمدی ﷺ کو
رحمت بنا کر بھیجا، مگر سب ہی انبیاء اکرام علیہ السلام نے اپنی تبلیغ میں
سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ شرک کو بیان کیا کہ شرک نہ کرنا۔۔۔اﷲ کے ساتھ
کسی کو شریک نہ بنانا ۔۔۔اور شرک کرنے والے کو رب تعالیٰ نے سخت نا پسند
کیا ہے۔۔۔جو رب الکریم سے جس قدر التجا کرے گا جس قدر اس کے در سے مانگے گا،
جس قدر وہ رب کی عبادت مخلص ہو کر کرے گا تو اسی قدر رب تعالیٰ اپنے رحمت و
کرم کی بارش اس پر نازل کرکے یہ بتا دیتا ہے کہ وہ رحیم و کریم بھی ہے ،
مگر جب رب تعالیٰ کی ذات ِ پاک سے کوئی شریک ٹھہرائے گا تو پھر اﷲ جباربھی
ہو گا اور قہاربھی ۔۔۔خداسب کچھ معاف کر سکتا ہے مگر شرک جیسا گناہ ِ عظیم
نہیں بالکل اسی طرح ٰاﷲ رب العزت نے اپنی کچھ صفات خاوند کے اندر رکھی ہیں
۔۔۔ انہی میں سے ایک یہی صفت مرد کے خون میں بھی ڈال دی ہے ۔۔۔ کہ وہ اپنی
بیوی کا شرک برداشت نہیں کرسکتا ،جس طرح رب تعالیٰ اپنی مخلوق سے پیار کرتا
ہے اسی طرح ایک اچھے مرد کو اپنی بیوی سب سے زیادہ پسند ہوتی ہے۔شوہر کسی
بھی بیوی کے لیے (معاذ اﷲ) خدا نہیں مگر وہ خدا کے حکم اور دین سے اپنی
بیوی کے لیے سب کچھ مہیا کرتا ہے،یا پھر پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں
تک کہ اس کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو ہر لمحہ رحیم بن کر معاف بھی کرتا ہے مگر
نہیں برداشت کرسکتا تو اپنی بیوی کا شرک ۔۔۔روایات میں ملتا ہے کہ اگر خدا
کے بعد کسی کو سجدے کا حکم ہوتا تو بیوی کو ہوتا کہ وہ اپنے خاوند کو کرے
۔۔۔کبھی آ پ نے سوچا ہے کہ خادند کو اتنی عظمت کیونکر ملی ہے۔۔۔سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ مرد شادی کیوں کرتا ہے۔۔۔؟؟؟یہ وہ سوال ہے کہ جو تقریباََ
سب ہی اشخاص کو سوچ میں ڈال سکتا ہے۔کیا ایسی ضرورت پیش آتی ہے کہ مہینے
بعد حساب کیا جائے تو بیوی کا خرچہ اپنی عیاشی کے اڈوں پر جانے سے زیادہ
بنتا ہے۔ ٖکیوں وہ خود خالی پیٹ رہ کر بیوی کی خواہشات کی تکمیل میں جتن
کرتا رہتا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں وہ شادی پر لاکھوں کا خرچہ کرتا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں ہمت
سے زیادہ بیوی کے نخرے برداشت کرتا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں گھر کی چاردیواری میسر کر
کے اس کے اندر عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کماکر لا کے دیتا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں
بیوی کے آرام کے لیے لاکھوں جتن کرتا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں دھوپ میں خود اپنے آپ
کو جلا کر کالا کر کے بیوی کو آسائش کا سامان میسر کرتا ہے۔۔۔ کیوں محنت کی
چکی میں خود پستا ہے مگر بیوی کو سکون کی نیند سُلاتا ہے۔۔۔؟؟؟ضرورت پیش
آئے تو اس کے لیے کبھی اپنی آنا کو قربان کر دیتا ہے اورکبھی کبھی اپنی
چمڑی تک کی پروا نہیں کرتا۔۔۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ مرد ایسا کیوں
کرتا ہے۔۔۔؟؟؟لیکن مرد پھر بھی شادی کرتا ہے۔۔۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
وہ کیوں شادی کرتاہے۔۔۔؟؟؟بیوی کے حقوق کے لیے سب ہی آگے بڑھتے ہیں مگر
خاوند کی ہستی کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا ہے کہ یہ کتنا عظیم ہے اور اس
کو کس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ خاوند ہی ہے جو سخت حالات کی چکی
میں پستا ہے مگر اپنے حوصلوں کو سلامت رکھتے ہوئے اپنی فیملی کو تحفظ فراہم
کرتا ہے، کبھی مزدوری کرنے والے خاوند کے ہاتھوں کو دیکھا ہے کہ کس قدر سخت
ہو جاتے ہیں مزدوری کر کر کے، کبھی دیکھا ہے راتوں کی شفٹیں کر کے اپنی
نیندوں کی قربانی دیتے ۔ اسی لیے شاید روایات کے اندر بیان کیا گیاہے کہ
باپ کی دعا و بدعا بہت جلد لگتی ہے۔۔۔وہ عورت بخشی جاتی ہے جو اپنے خاوند
کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرتی رہی ہو۔ ۔۔ |
|