دوہرا معیار

تصویر کا ایک رخ :
آج میں نے سکول نہیں جانااااا !
ایں ... ایں..... ایں
تین سالہ ننھا محمد مسلسل روئے چلے جارہا تھا.
گھر بھر کا لاڈلا ، جس کو روتے دیکھنا کسی کو بھی گوارا نہیں تھا مگر اس معاملے میں اس کی ضد پوری کرنا گویا اس کی زندگی تباہ کرنے کے مترادف تھا ۔ اس لیئے اسے حیلےبہانوں سے سکول جانے پر آمادہ کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری تھیں۔
دیکھو بیٹا ! سارے بچے سکول جاتے ہیں، کتنے اچھے لگتے ہیں سب ! اور میرا بیٹا تو سب سے اچھا ہے ، یہ بھی سکول جائے گا ، ہے ناں۔
وہ اسے پچکارتے ہوئے بولی ۔
ایک لمحے کو رونا بھول کر وہ ماں کا منہ تکنےلگا ۔
میں تو اچھا ہوں مگر سکول نہیں جاؤں گا بالکل بھی ! میں گھر میں ہی رہوں گا بس !
وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔
ارے ! اتنے اچھے بیٹے تو سب سے پہلے سکول جاتے ہیں، بابا،ماما،بھائ اور ٹیچر سب ہی ایسے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں جو خوشی خوشی سکول جاتے ہیں۔
مجھے پارک لے کر جائیں ،مجھے سکول نہیں جانا ! میں نے یونیفارم بھی نہیں پہننا!
اس کا والیوم فل ہوگیا تھا ۔
غرض سکول کی تمام تیاری کے دوران اس کی لن ترانی جاری رہی ۔مگر جو ہونا تھا وہ تو ہو کر ہی رہا !
اس کی بہتیری ناں ناں کے باوجود اسے خالہ کے ہمراہ سکول روانہ کر دیا گیا، سکول پہنچ کر زبردستی ہی ٹیچر کے حوالے کردیا گیا۔وہ مچل مچل کر روتا رہا مگر اس کے اچھے اور نادیدہ مستقبل کے لئے یہ سب ناگزیر تھا ۔
تصویر کا دوسرا رخ :
ظہر کے بعد ناعمہ کالج سے تھکی ہاری گھر لوٹی اور آتے ہی بستر پر ڈھے سی گئ، پھر جو تھکاوٹ کے مارے آنکھ لگی تو عصر ہی کی خبر لائ ۔اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور باورچی خانے کی راہ لی ، کھانا دے دیں امی ، بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے ۔
امی نے کھانا گرم کرکے سامنے رکھا،فٹافٹ کھانا کھایا تو یاد آیا کہ کل انگلش کا ٹیسٹ ہے اور مس افشاں کے تصور ہی سے کلاس بنک کرنے کا خیال اڑنچھو ہوگیا ۔
اپنے کمرے میں آکر نوٹس کھولے اور لگی رٹا لگانے ۔ آخرکار خدا خدا کرکے ٹیسٹ یاد ہوا تو اب بوریت ہونے لگی ۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ہوتے ہوئے بھلا کون فارغ رہ سکتا ہے۔
چیٹنگ میں مصروف تھی کہ آپی نے یونہی پوچھ لیا، ناعمہ! لگتا ہے کہ تم نے آج کوئ بھی نماز نہیں پڑھی؟ ابھی ناعمہ جواب بھی نہ دینے پائ تھی کہ امی بول پڑیں :
" آئے ہائے! میری بچی کو کچھ کرنے کا ٹائم ہی کب ملا ! یہ تو تم جیسے فارغ لوگوں کے جھمیلے ہیں ، ارے ! ہماری عمر کو پہنچے گی تو کرلے گی سب کچھ ، ان کاموں کے لیئے تو ساری عمر پڑی ہے ابھی . "
قارئین کرام ! تین تین سال کے ننھے منے بچوں کو صبح تڑکے جگانا اور سکول کے لیئے بھاری بھرکم تیاری کرانا تو عقل کے تقاضوں کے عین مطابق قرار پائے جبکہ سات سال کے بچے کو نماز کے لیئے جگانا عین ظلم سمجھا جائے .
فانی اور عارضی زندگی کی فانی اور غیر ضمانت شدہ آسائشوں کے لیئے اپنا تن ، من اور دھن سبھی داو پر لگادینا تو دانشمندی قرار پائے جبکہ کسی بھی لمحہ شروع ہوجانے والی ابدی زندگی کے لیئے تیاری تو کجا ،سوچنے کی بھی زحمت گوارا کرنا ناگوار خاطر ہو.
اسی پر بس نہ کی جائے بلکہ جو خیرخواہ اس طرف دھیان دلائے اس پر اپنا اور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہونے کا فتوی لگا دیا جائے ، دقیانوسیت کے طعنے دیئے جائیں ...
گویا فطرت انسانی سےراہ فرار اختیار کی جائے،حقائق سے نظریں چرائ جائیں،اپنی ناپاک سوچ ونظریات کو اسلام پر مسلط کیا جائے اور ان سب باتوں کے باوجود خود کو مسلمان کہلوانے پر بضد ہوا جائے !!!
تو.......
فیصلہ آپ ہی پر چھوڑتی ہوں ....
از قلم : بنت میر
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 20420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.