خودکشی کی خطرناک حد تک نئی لہر اور سدباب

تحریر: نمرہ فرقان
کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے اہم ترین دور جوانی کا ہوتا ہے۔ اس دور میں جذبات بھی ہوتے ہیں اور احساسات بھی۔ تلخی بھی ہوتی ہے اور نرمی بھی۔ طاقت بھی ہوتی ہے اور کنٹرول بھی۔یہیں وہ عمر ہوتی ہے جب کوئی نوجوان اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کچھ بھی کرنے کا عزم رکھتا ہے اور شاید وہ کر بھی سکتا ہوتا ہے، مگر جب اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق کوئی کام سرانجام نہیں پاتا تب وہ اسی ہی انداز میں اتنی ہی شدت سے مایوس ہو جاتا ہے۔ یہیں وہ وجوہات ہیں جو ایک نوجوان کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔جسے دوسرے لفظوں میں موت کہتے ہیں۔ یہ موت بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ یہ تو خود کو مار دو یا کسی دوسرے کو جو ان سرانجام کاموں میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے۔ الغرض خودکشی کو یا دوسرے کی کشی، دونوں صورتیں سنگین اورخطرناک ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال 9 کروڑ سے زائد لوگ خود کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور خودکشی کی وجوہات میں غربت اور بیروزگاری سرِفہرست ہیں گو کہ ہمارا ملک پاکستان اس معاملے میں دیگر ممالک سے پیچھے ہے لیکن آج کل کے اس افراتفری کے دور میں جہاں ہر انسان اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے وہیں ہمارے معاشرے کے کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو اپنے آپ سے مایوس ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن اور قوت برداشت میں کمی ہے۔

یوں تو پاکستان کی بیشتر آبادی اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتی ہے اور اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناامیدی اور مایوسی نے لوگوں کو خودکشی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ پاکستان میں خودکشی کا یہی بڑھتا ہوا رجحان 1202 سے دیکھنے میں آیا اور خودکشی کرنے والوں کی صف میں 30 سال سے کم عمر نوجوانوں اور بچوں کا سب سے آگے ہونا یقینا ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن اسی افسوس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ آخر ہم سے کہاں غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ ؟

انسان کی پہلی درسگاہ بے شک اس کے والدین ہوتے ہیں۔ والدین ایک سائبان کی طرح اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہیں انھیں اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہیں۔انھیں ہر چھوٹی بڑی مشکل سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن شاید انہی مشکلوں سے بچاتے بچاتے ہم اپنے بچوں میں مشکلوں سے لڑنے کی صلاحیت کو گھٹا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو انھیں ذمہ داریاں نبھانے یا مشکلات کا مقابلہ کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔ یوں بچے بہت جلد ہمت ہار کر مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور نتیجتاً کوئی سخت قدم اٹھا لیتے ہیں۔ اس زمر میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ان کی عمر کے حساب سے معاملات سنبھالنے کی عادت ڈالیں۔ انھیں موقع دیں کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں اور جہاں کہیں غلطی ہو وہاں رہنمائی کریں۔ ان کے دوست بن کر انکا ساتھ دیں۔ بچوں کو مشکلوں سے ڈرنا نہیں لڑنا سکھائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف بچوں سے آپکا رشتہ استوار ہو گا بلکہ خوداعتمادی بھی پیدا ہو گی۔

بچپن انسانی زندگی کا سب سے معصوم اور حساس دور ہوتا ہے۔ معصوم بچے محبت کی زبان کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق سخت اور غصیلے والدین کے بچوں میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوتا ہے اور وہ بہت جلد ہی۔مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں اعتدال پیدا کریں۔ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں ضرور غصے کا مظاہرہ کریں مگر اپنے معصوم بچے کا دل نہ توڑیں۔ ان کا دوسرے بچوں سے موازنہ نہ کریں کیونکہ یہی باتیں بچوں میں خود سے نفرت کے جذبات ابھارتی ہیں اور غلط راہ پر راغب کرتی ہیں۔

زمانہ حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ایک طرف میڈیا ہے تو دوسری طرف سماجی روابط کے نت نئے نیٹورکس موجود ہیں۔ ان سب ہی چیزوں نے جہاں میلوں کی دوریوں کو منٹوں میں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں معاشرے میں بگاڑ کے بہت سے طریقے متعارف کروادیے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا ہر ایک فرد ہی اس طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ ادھر بچے یوٹیوب اور فیسبک جیسی ان گنت ویبسائٹس پر نہ جانے کیا کچھ دیکھتے ہیں اور دوسری طرف مائیں اپنے فیسبک اور واٹس ایپ کے دوستوں سے باتوں میں مشغول اور اپنے بچوں سے بیگانہ نظر آتی ہیں۔ آج انہی سوشل نیٹورکس اور میڈیا کی مہربانی سے ہمارے بچے خودکشی کے نت نئے طریقے بیان کرتے نظر آتے ہیں اور وقت پڑنے پر ان پر عمل بھی کر بیٹھتے ہیں۔ والدین خاص کر ماؤں کو اپنی مصروفیات اور رویے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اپنے بچوں کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیں۔ انھیں اچھے برے سے آگاہ کریں۔ بظاہر تو یہ بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر بیراہروی کا یہی عالم رہا تو شاید ہمیں سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑے۔

گوکہ انسان کو زندگی کے ہر دور میں ہی اپنے والدین کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے مگر بچپن اور جوانی جیسے نازک ادوار میں والدین کی محبت اور ساتھ ہی بچوں کی ہمت اور ان کی طاقت بنتا ہے۔ جسطرح بچپن انسان کی زندگی کا ایک حساس دور ہوتا ہے اسی طرح جوانی کا۔دور بھی نہایت حساس اور جوشیلا زمانہ ہوتا ہے۔ اس نازک دور میں بچوں کو یہ سمجھ کر کہ وہ اب بڑے ہو گئے ہیں, ان کے حال پر چھوڑ دینا سراسر بے وقوفی ہے۔ اسکے برعکس والدین کو چاہیے کہ وہ ہر معاملے میں اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور انکا حوصلہ بڑھائیں۔ ناکامی کی صورت میں کبھی انکی دل شکنی نہ کریں۔ یاد رکھیں کوئی انسان جان بوجھ کر ناکام نہیں ہوتا۔ اسی لیے اپنی جوان اولاد کو کبھی طعنے نہ دیں۔ انھیں دوسروں کی مثالیں دے کر شرمندہ نہ کریں۔ انھیں یہ سوچنے پر مجبور نہ کریں کہ وہ ناکارہ ہیں یا آپ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں انہی کی نظروں میں نہ گرائیں بلکہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ نبھائیں۔ انہیں تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ان کا دکھ بانٹیں کیونکہ خاندانوں کے یہی منفی رویے بچوں اور نوجوانوں کی زندگی پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور انہیں ڈپریشن کی طرف دھکیلتے ہیں اور یہی ڈپریشن آگے چل کر انہیں کوئی سخت قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اگرچہ بچوں اور نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کے سلسلے میں والدین پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں معاشرے کے دیگر افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں اور ان کا ساتھ دیں۔ ان کو تنہا چھوڑنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر حالات کا مقابلہ کریں کیونکہ ہم سب مل کر ہی ایک پرامن اور خوشگوار معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.