جہالت اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
کسی نے کیا خوب سوال اُٹھایا کہ جہالت کیا
ہے۔۔۔؟؟؟ جواب دینے والے نے ہونٹوں پر پہلے مسکراہٹ پھیلائی پھر بڑی تیزی
سے جواب دیا کہ اپنی غلطی پر اصرار کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔۔۔۔ذرا ہم اپنے
ارد گر د غور کریں تو احساس ہو گا کہ اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ
روزانہ جاہلوں سے پڑتا رہتا ہے اور جاہل بھی اس قد ر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے
ان کی باتوں اور ان کے رویوں کو دیکھتے ہوئے کہ یہ کس دور میں اپنی زندگی
گزار رہے ہیں۔ دنیا کی قیامت خیز ترقی ، نت نئی ایجادات ، شعور و آگہی، فہم
و فراست کا بڑھتا ہوا رجحان ، حالات اور ذہنوں میں نت نئی آنے والی
تبدیلیاں بھی ان کند ذہن اور جہالت سے لبریز لوگوں پر کچھ اثر انداز نہیں
ہو سکتیں۔ یعنی کہ اس طرح کے لوگ اپنی بات پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں اس
صورت حال میں کبھی کبھی دل چاہتا ہے۔ عالم ِ اسلام کو جس خوفناک عفریت کا
سامنا ہے اسے جہالت کے نام سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
آج اگر ہم اپنے معاشرے کا مطالعہ کریں تو ہم کو احساس ہو گا کہ ہم کس قدر
آگے نکل گئے ہیں۔۔۔ترقی کی راہوں میں نہیں بلکہ جہالت کے اندھیروں میں۔۔۔۔
ہم اپنے برابر کے لوگوں کو تو درکنا ر کرتے ہی ہیں ، مگر بعض لوگ ایسے بھی
ہیں جو کہ اسلام میں اور مسلمانوں میں بھی انتشار پیدا کرنے کے لیے بے وجہ
اور ناقابل ِ یقین دلیلوں کا سہار ا لیتے رہتے ہیں ۔ اور اکثر ان کی یہ
دلیلیں کام بھی کر جاتی ہیں۔ ہم ہی میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ اپنے دین
کو اور اپنی شناخت کو ختم کرتے جارہے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جب
کوئی ان جہالت کے اندھوں کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو
اس کے خلاف ہر کوئی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس کے خلاف اپنے من میں
چھپے الفاظ کو گویائی دینے لگتا ہے۔ آخر ہم کب تک جہالت کے اس اندھیرے میں
کھستے چلے جائیں گئے ۔ ہماری کامیابی کی داستانیں تو ہمارے غیر بھی دیا
کرتے تھے، مگر آج ہم پر غیر حکومت کر رہے ہیں کیوں۔۔۔؟ وہ صرف اسی وجہ سے
کہ ہم نے جہالت کے اندھیروں میں سے باہر آکر سوچیں گئے تو ہم ترقی کی راہوں
پر چلیں گئے ۔۔۔یہ ہی وجہ ہے کہ مسلمان آج ہر میدان میں پیچھے رہتا جا رہا
ہے۔ اب ادھر ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ ہم اب کیسے مسلمان رہ گئے ہیں
۔۔۔۔؟ جن کو اپنی گمشدہ میراث کو لینے کا طریقہ ہی نہیں معلوم تو ہم کیا
خاک ترقی کی راہوں پر کامزن ہونگے۔ جگہ جگہ بم دھماکے ، خود کش حملے، دہشت
گردی، انتہا پسندی، غنڈہ راج اور افراتفری کا عام ، سب کا سب جہالت کا
شاخسانہ ہی تو ہے۔ قرآن مجید جیسی پر رونق و بابرکت کتاب کی آیات کو ہم میں
سے ہی کچھ لوگ صرف اپنا مطلب نکالنے کے مقصد کیلئے استعمال کرتے آرہے ہیں،
اسلام کو دکانداری بنا لیا ہے ہر کوئی عالم بنا بیٹھا ہے ، جس کا کوئی ایک
عمل بھی شریعت کے مطابق نہ ہوگا مگر وہ بھی مذہب کے اوپر بحث کر تے ہوئے
خود کو بڑا مفتی و عالم سمجھ بیٹھتے ہیں، کھڑے ہو کر نماز کا سبق سنا جائے
تووہ بھی نہ آتا ہو گا ، وہ بھی چھوڑ 6چھ کلمے تک جس کو نہ آتے ہوں وہ بھی
دین کے اوپر اپنے فتوے جھاڑ رہا ہو گا اور اپنی بحث و تکرار کے اندر قطعاََ
اس بات کا لحاظ نہیں رکھے گا کہ وہ کس حد تک آگے جارہا ہے۔۔۔کس کے بارے میں
اپنی زبان سے لفظ نکال رہا ہے۔۔۔؟؟؟ کیا الفاظ اور کس لہجہ میں ادا کر رہا
ہے۔۔۔؟؟؟کس قدر غلط تشریحات کے ساتھ اپنی بات کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش
کر رہا ہے۔۔۔؟؟؟ یہ سب جہالت کی علامات ہی تو ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو کہ
اندھوں میں کانے راجہ بن کر جو دل چاہے کرتے پھرے ہیں انہیں کوئی پوچھنے
والا نہیں۔ اور اگر غلطی سے کوئی کچھ پوچھ ہی بیٹھے تو کفر کے فتوے داغ
دیئے جاتے ہیں جو کہ تیرے لحد تک پیچھا نہیں چھوڑتے پھر۔۔۔ اور اسی جہالت
نے ہمارے پیارے دین، دینِ اسلام کو ناقابل تلافی نقصان سے دو چار کیا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دھڑائیں اور اپنے من کو ہی ٹٹول کر دیکھیں یا نام
نہاد بڑے بڑے دانشوروں کو دیکھیں تو ان سب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہی ہو گی
کہ وہ اپنی غلط بات پر اصرار کریں گے۔ اور اس اپنی بات کو ثابت کرنے میں بے
سروپا دلیلیں، عجیب و غریب باتیں کریں گے۔ اور ان ہی کے چاپلوس ان کی تائید
میں سر ہلاتے رہیں گئے۔آپ جو ان کے خلاف آواز اُٹھاؤ گئے بھی تو یہ سب آپ
کی مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوں گئے آپ کو اذیتیں و تکالیف تو دیں گئے ہی ساتھ
میں آپ کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیئے گئے اور تمہارے لب سے نکلی ہر آہ
کے اوپر وہ پر مسرت انداز میں خوشی منائیں گئے، بھری محافل میں تم کو اکیلا
بے یار و مددگار چھوڑ دیں گئے۔مگر ان لوگوں کے خلاف جہاد علم بلند کرنا وقت
کی اشد اور اہم ضرورت ہے، ان لوگوں کے فتنوں سے ڈر کر خاموش رہنے کے بجائے
ہر لمحہ ان کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے ، جہاں کئی غلط کام دیکھیں تو اس
کی مخالفت کریں، حق و مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے اگرچہ کہ کیسی ہی مشکل کیوں
نہ آپڑے ۔۔۔نام نہاد کی بحث و تکرار سے اپنی زندگی کو بچا نا چاہیے ،
دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنے اعمال کے اوپر نظر ثانی کرنی چاہیے ، اپنے
آپ کو بہتر بنائیں پھر دوسرو ں پر تنقید کریں ، اپنے اندر فکری و عملی
انقلاب لے کر آئیں ، اپنے ساتھ اپنے ماحول و حالات کو بھی بدلنے کی کوشش
کریں۔۔۔یہ ہی اصل کامیابی ہے۔۔۔یہ ہی فلاں کا راستہ ہے۔۔۔ |
|