ہارنا جیتنا کامیابی اور ناکامی انسان کی زندگی کا
دارومدار کافی حد تک ان ہی الفاظ پہ قائم ہے
پہلے دن سے لیکر آخری دن تک انسان ہار جیت کے گرد گہومتا رہتا ہے..
طالب علمی کے زمانے سے لیکر زندگی کے امتحانوں تک ہار اور جیت کا کہیل
کہیلتا رہتا ہے..
اچہے نمبروں سے پاس ہونا کامیابی اور پاس نا ہونے کو ناکام قرار دینا کوئی
بڑی بات نہیں،
کوئی ہار کر کیا سیکہتا ہے یہ آج تک شائد ہی کسی نے جاننے کی کو شش کی ہو
کیوں کہ دنیا کی نظروں میں وہ اک عام ناکام انسان ہے، لیکن حقیقت یہ نہیں
ہے اک امتہان میں حصہ لینا بہی تو کامیابی ہے..
بہت سے لوگ ناکامی کے ڈر سے مقابلے کا مقابلہ ہی نہیں کر پاتے کیوں کہ وہ
ناکامی سے ڈرتے ہیں.. طالب علم کی امتہان گہ سے لیکے کہلاڑی کے دوڑ کے
میدان تک ناکام اور کامیاب وہی ہوا جو اپنے ہار کے ڈر کو ہرا سکا.. اسکی
پہلی جیت اسے اپنے ہار کے ڈر کو ہرا کے ملی اب وہ ہارے یا جیتے یہ بعد کی
بات ہے...
ہارنے کیلئے بہی آپکو میدان میں آنا پڑیگا..
امتہان گہ میں دوڑ کے میدان میں آنا پڑیگا دوڑنے والے دس اور تماشا دیکہ کے
تالیاں بجانے والے لاکہوں ہزاروں اب یہ آپ پر ہے کہ آپ میدان میں آو تو کس
لئے آو مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے یا صرف تماشائی بن کر تالیاں بجانے..
دوڑنے والا جیتے گا، گرے گا اور ہارے گا لیکن دیکہنے والا صرف تالیاں بجائے
گا..
جیتنے والا بس جیتے گا لیکن ہارنے والا
اور بہت کچہ سیکہ کر جائے گا کبہی کبہی وہ ہار کر بہی جیت جائے گا اور آپ
ہار کے ڈر کو لیکے بس تالیاں بجاتے رہ جاو گے..
ہارنے کے لیئے بہی میدان میں مقابلہ کرنے آنا پڑتا ہے... اسلیئے صرف ہار کا
سوچ مقابلے سے دور مت بہاگو .. ہار کے ڈر کو ہرا کہیلو پہر ہار ہو یا جیت
بعد کی بات ہے..اک ہار کو ضرور ہراو..
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں...
وہ طفل ہی کیا گرے جو گہٹنوں کے بل چلے...!" |