اسلام اور خانقاہی نظام,19
(imran shahzad, mandi bahauddin)
اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔ |
|
"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر19)
باب 4: مسئلہ حاضر و ناظر:
جیسا کہ ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں کہ سنی بریلوی حضرات کے نزدیک
نبی کریم ﷺ ، دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء اللہ ہر
جگہ حاضر و ناظر ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی قبر یا جنت میں اپنے
مقام پر رہتے ہوئے دنیا کو دیکھتے ہیں اور اس میں تصرف کر سکتے ہیں اور
پوری کائنات میں اپنے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے
برعکس اہل حدیث اور بعض سنی دیوبندی حضرات کے نزدیک صرف اور صرف اللہ تعالی
حاضر و ناظر ہے اور کسی مخلوق کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے۔
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے "جاء الحق" اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ
دلائل پیش کیے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کی گواہی
قرآن مجید میں ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ
عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۗ
"اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور
رسول تم پر گواہ (البقرہ 2:143)
فَكَـيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ
عَلٰى هٰٓؤُلَآءِ شَهِيْدًا
"تو وہ کیا معاملہ ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کر دیں گے اور
آپ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے۔ (النسا 4:41)
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا
وَّنَذِيْـرًا
"اے بنی ! ہم نے آپ کو بطور گواہ، خوشخبری دینے والے اور خبر دار کرنے والے
بھیجا ہے۔" (الاحزاب 33:45)
مفتی صاحب تفسیر عزیزی اور تفسیر روح البیان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ اپنے ہر امتی کے اعمال کے متعلق گواہی دیں گے کہ اس نے نیک عمل
کیے یا بد۔ گواہی بغیر دیکھے اور بغیر علم کے نہیں ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے
لازم ہے رسول اللہ ﷺ حاضر و ناظر ہوں اور اپنی امت کے اعمال کا مشاہدہ کر
رہے ہوں یا کہ آپ ان سے متعلق گواہی دے سکیں۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی
ہیں، ایک آپ کا حاضر و ناظر ہونا اور دوسرے علم غیب ہونا۔
دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ ان آیات میں اعمال کی گواہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ
اس بات کی گواہی کا ذکر ہے کہ کائنات کا ایک خدا ہے اور ہم اس کے سامنے
مرنے کے بعد جواب دہ ہوں گے۔ یہ وہ گواہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت
کے سامنے پیش فرمایا اور آپ کی امت، جو کہ امت وسط ہے، نے اس گواہی کو پوری
دنیا کے سامنے پہنچا دیا۔ آپ کی اولین امت یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نے تو وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دے کر ایک اسلامی معاشرے کا عملی نمونہ
پیش کر دیا اور اس طرح اس گواہی کو عملاً پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔
ایک حدیث کے مطابق جب قیامت کے دن بعض امتیں اس گواہی کا انکار کریں گی تو
رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کو بطور گواہ کھڑا کر کے اس کی توثیق کروادی
جائے گی کہ انہوں نے اللہ تعالی کا یہ پیغام پہنچا دیا تھا۔ رہا اعمال کی
گواہی کا معاملہ تو اس میں نبی کریم ﷺ کی گواہی کی ٖضرورت نہیں ہے بلکہ
قرآن مجید سے واضح ہے کہ ہر شخص کے اپنے اعضا اس کے اعمال کے گواہی دے دیں
گے۔ جس زمین پر اس نے نیک و بد اعمال سر انجام دیے ہوں گے، وہ گواہی دے دے
گی۔
اوپر بیان کردہ آیت کریمہ میں صرف رسول اللہ ﷺ کی گواہی ہی کا ذکر نہیں ہے
بلکہ وکذلک بعلنا کم امۃ وسطا لتکونو ا شھداء علی الناس یعنی اسی طرح ہم نے
تمیں درمیانی امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہی دو کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں
کہ امت مسلمہ بھی لوگوں پر گواہ ہے۔ اگر یہاں اعمال کی گواہی کا ذکر ہوتا
تو پھر کیا امت مسلمہ کے ہر ہر فرد کو بھی غیب دان اور حاضر و ناظر مان لیا
جائے؟ چونکہ ایسا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہاں اعمال کی گواہی مراد نہیں
ہے۔ اس وجہ سے حاضر و ناظر ہونے کا کوئی معاملہ یہاں زیر بحث نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا امت کے درمیان موجود ہونا
قرآن مجید میں ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا
عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ
"تم میں یقینا تمہارے اندر سے ایک رسول آئے ہیں، جن پر تمہارا مشقت میں
پڑنا گراں ہے، وہ تمارے ایمان کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور اہل ایمان پر
نرم دل اور مہربان ہیں۔ (التوبہ 9:128)
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اس آیت میں قیامت تک کے مسلمانوں سے خطاب ہے۔ جس سے
واضع ہے کہ آپ امت کے اندر قیامت تک موجود رہیں گے اور ان پر مہربان رہیں
گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اپنی امت میں حاضر و ناظر ہیں۔
فریق مخالف کے نزدیک اس آیت میں خطاب قیامت تک کے مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ
صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے۔ وہی ہیں جن کے اندر سے اللہ تعالی نے
اپنے رسول کو کھڑا کیا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق و سباق کا
جائزہ لیا جائے تو اس میں کہیں بھی قیامت تک کے مسلمانوں سے خطاب نہیں ہے
بلکہ پوری سورت میں ابتدا سے انتہا تک خطاب صحابہ کرام ہی سے ہے۔ یہ آیت
سورۃ توبہ کی آخری آیتوں میں سے ہے، اس سے اہل ایمان کو کفار سے جہاد کرنے
اور منافقین کے قلبی مرض اور فتنہ میں مبتلا ہونے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ واضح
ہے کہ خطاب مخصوص صحابہ سے ہے نہ کہ قیامت تک کے مسلمانوں سے ۔ آیت کریمہ
کا پورا سیاق و سباق یہ ہے:
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ
زَادَتْهُ هٰذِهٓ ٖ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا
فَزَادَتْـهُـمْ اِيْمَانًا وَّهُـمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ124
وَاَمَّا الَّـذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْـهُـمْ رِجْسًا
اِلٰى رِجْسِهِـمْ وَمَاتُوْا وَهُـمْ كَافِرُوْنَ125
اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّـهُـمْ يُفْتَنُـوْنَ فِىْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً
اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُـمَّ لَا يَتُـوْبُـوْنَ وَلَا هُـمْ يَذَّكَّرُوْنَ126
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُـمْ اِلٰى بَعْضٍ هَلْ
يَرَاكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُـمَّ انْصَرَفُوْا ۚ صَرَفَ اللّـٰهُ
قُلُوْبَـهُـمْ بِاَنَّـهُـمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ127
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا
عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ128
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِىَ اللّـٰهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۖ
عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْـمِ129 ۔
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم
میں سے کس کے ایمان کو بڑھایا ہے، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان
کے ایمان کو بڑھایا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں۔(124)
اور جن کے دلوں میں مرض ہے سو ان کے حق میں نجاست پر نجاست بڑھا دی اور وہ
مرتے دم تک کافر ہی رہے۔(125)
کیا نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ آزمائے جاتے ہیں پھر
بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔(126)
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتا ہے
کہ کیا کوئی مسلمان تمہیں دیکھتا ہے پھر (نظر بچا کر) چل نکلتے ہیں، اللہ
نے ان کے دل پھیر دیے ہیں اس لیے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے(127)
البتہ تحقیق تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آیا ہے، اسے تمہاری تکلیف گراں
معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت
شفقت کرنے والا مہربان ہے(128)
پھر اگر یہ لوگ پھر جائیں تو کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا اور
کوئی معبود نہیں، اسی پر میں بھروسہ کرتا ہوں، اور وہی عرش عظیم کا مالک
ہے۔(129)التوبہ-
سلفی(اہلحدیث) حضرات کا کہنا یہ ہے کہ آیت کریمہ کا سیاق و سباق یہ بتا رہا
ہے کہ یہاں عہد رسالت کے مومنین اور منافقین زیر بحث ہیں نہ کہ قیامت تک
کیلئے آنے والے مسلمان -اس وجہ سے حاضر و ناظر ہونے کا کوئی مسئلہ یہاں
پیدا نہیں ہوتا ہے-
جاری ہے......
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر |
|